Baseerat Online News Portal

قربانی کے چرم کو ضائع نہ کریں!

 

مفتی محمد عارف باللہ القاسمی

 

آج کل "واٹس اپ” پر ایک اپیل بہت زیادہ گردش کررہی ہے کہ بقرعید کے موقع پر چرم کو ضائع کردیں کیونکہ اس کی قیمت بہت کم کردی گئے ہے اور مدارس کو چرم نہ ملنے سے جو نقصان ہوگا اس کی تلافی کے لئے مدراس کو تعاون کے طور پر 100 ، 200 روپئے دے دیں ۔

بظاہر یہ بات ہمدردی کی لگ رہی ہے ، لیکن ایسا کرنا کئی وجوہ سے غلط ہے :

 

(1) چرم کی قیمت میں کمی صرف ملکی سیاست کے زیر اثر نہیں بلکہ عالمی منڈی میں طلب ورسد میں عدم توزان کی وجہ سے کمی آئی ہے ، اور مصنوعی چمڑوں کی ایجاد سے یہ حالات پیدا ہوئے ہیں، یہی وجہ ہے کہ بشمول پڑوسی ملک دیگر ممالک میں بھی اس کی قیمت میں کمی ہوئی ہے ، ہاں یہ اور بات ہے کہ اپنے ملک میں اس کی قیمت کچھ زیادہ ہی کم ہے ، بھر بھی یہ ایک "مال متقوم” ہے ، جس سے انسانی ضرورت و منفعت جڑی ہوئی ہے ، اور شریعت اسلامیہ میں مال کو ضائع کرنا ناپسندیدہ بلکہ ممنوع ہے ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ نے تمہارے لئے مال کو ضائع کرنا ناپسند کیا ہے (صحیح مسلم) اسلام کا مزاج تو یہ ہے کہ قابل انتفاع چیزوں کو ضائع کرنے کے بجائے اسے انسانی استفادہ کے قابل بنایا جائے ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مری ہوئی بکری دیکھی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم نے اس کی کھال کیوں نہ نکال لی کہ دباغت کرکے اس سے استفادہ کرتے (صحیح مسلم)

 

(2)چند خاص افراد کی منفعت رسانی کی خاطر مارکٹ میں مال کی قیمت کو بڑھانے کی تدبیر کرنا چاہے مال کو مارکٹ میں کم کر کے ہو جسے "احتکار” کہتے ہیں ، یا کوئی اور شکل ہو شریعت میں ممنوع ہے ۔ اہل علم ان مسائل و اَشکال سے واقف ہیں ، اس پس منظر میں بقرعید کے موقع پر لاکھوں چرم کو ضائع کرنا ” احتکار ” سے بھی برا معلوم ہوتا ہے۔

 

(3) اس کی قیمت میں کمی کے باوجود بہت سے مسلمانوں اور ملکی باشندوں کی معیشت مختلف حیثیت سے اس سے جڑی ہوئی ہے ، اس کو ضائع کرنے سے ان کی معیشت کو دھکا لگے گا ، ان کی روزی روٹی کے مسائل پیدا ہوں گے ، جو بہت بڑا نقصان ہے۔

 

(4) اور اگر بالفرض اس کو ضائع کرنے اور دفن کرنے کی بات مان بھی لی جائے تو اس کو دفن کرنا بھی ایک مشکل ترین عمل ہے ، عام شہروں کا حال یہ ہے کہ انسانوں کو دفن کرنے کی جگہ مشکل سے ملتی ہے ، ایسے میں اس کو کہاں دفن کیا جائے گا ، اور کون اس مشقت کو اپنے سر لے گا ، نتیجہ یہ ہوگا کہ لوگ اپنے گھروں کے سامنے یا محلہ کے کچڑے دان میں اسے پھینک دیں گے ، جو معاشرہ میں تعفن کے پیدا ہونے کا باعث ہوگا ، اور اس بات کا بھی اندیشہ ہوگا کہ آئندہ اسی تعفن کو عدالتوں میں یا میڈیا میں موضوع بحث بناکر اس پر روک لگانے کی بات شروع کردی جائے ، اور قربانی پر اعتراص کرنے والوں کو اس کے خلاف بولنے کا ایک مزید موقع ہاتھ لگ جائے۔

 

اس لئے اس موضوع پر سنجیدہ فیصلہ کرنا ضروری ہے ، اور بہتر یہی معلوم ہوتا ہے کہ پہلے کی طرح ابھی بھی اسے غرباء کو یا مدارس کو دیا جائے اور مدارس وصول کریں ، اور جمع کرکے فروخت کریں ۔ ھذا ما اری واللہ اعلم بالصواب ۔

 

Comments are closed.