Baseerat Online News Portal

اتحاد امت مسلمہ؛ وقت کی اہم ضرورت

شاہنواز قاسمی

سہرسہ بہار

کسی بھی قوم کی کامیابی و کامرانی اس کے افراد کے باہمی اتحاد میں مضمر ہے۔ جس طرح پانی کا قطرہ قطرہ مل کر دریا بنتا ہے اسی طرح انسانوں کے متحد اور مجتمع ہونے سے ایسی اجتماعیت تشکیل پاتی ہے کہ جس پر نگاہ ڈالتے ہی دشمن وحشت زدہ ہو جاتا ہے اور کبھی بھی اس کی طرف میلی آنکھ سے نہیں دیکھ سکتا۔ قرآنِ مجید نے ہمیں اپنے زمانہ نزول سے ہی یہ راز سکھا دیا تھا کہ:

تُرہِبُونَ بِہِ عَدُوَّ اللہ وَعَدُوَّکُم۔ (انفال)

ترجمہ: ’’تم اس ( طاقت وصف بندی )کے ذریعہ اپنے اور خدا کے دشمنوں کو خوف زدہ کرو۔ ‘‘

قرآن مجید کی دیگر متعدد آیات میں مسلمانوں کو متحد رہنے کا حکم دیا گیا ہے۔

ارشادِ باری تعالیٰ ہے :

وَاعتَصِمُوابِحَبلِ اللہِ جَمِیعاًوَلَا تَفَرَّقُوا۔

’اور تم سب ملکر اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو اور تفرقہ میں نہ پڑو – ‘‘ ( ال عمران)

آیتِ مبارکہ میں فرد واحد کے بجائے پوری امت سے خطاب ہے۔ اعتصام بحبل اللہ یعنی اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لینا ہرمسلمان کا فریضہ ہے۔ قران نے صرف خدا کی رسی کو مضبوطی سے تھامنے کے حکم پر اکتفا نہیں کیا ہے بل کہ کہا ہے ’ ’ جَمِیعًا ‘‘ کہ سب مل کر خدا کی رسی کو تھامیں۔ مسلمانوں کو ساتھ ساتھ مل کر اجتماعی شکل میں اعتصام بحبل اللہ کرنا ہو گا اور ایک دوسرے کے ساتھ متحد ہونا ہو گا۔ بالفاظِ دیگر اس آیت کریمہ میں اتحادِ اُمت کا حکم دیا گیا ہے اور تفرقہ سے بالکل منع کیا گیا ہے۔ مفسرینِ کرام کے نزدیک ’’حبل اللہ‘‘ سے مراد کتاب و سُنت ہیں۔ لہٰذا اُمت مسلمہ کے درمیان کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ کی شکل میں اتحاد و اتفاق کی دو مضبوط بنیادیں موجود ہیں۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ہے :

’’میں تمہارے درمیان دو چیزیں چھوڑ کر جا رہا ہوں : ایک اللہ کی کتاب اور دوسری میری سنت۔ جب تک تم ان دونوں کو مضبوطی سے تھامے رہو گے گمراہ نہ ہو گے۔ ‘‘ (صحیح مسلم، مستدرک)

اللہ تعالیٰ کا پیغام اور اس کی تعلیم و ہدایت قرآن کریم کی شکل میں موجود ہے۔ اس میں انسانوں کے لیے زندگی گذارنے کا طریقہ بیان کیا گیا ہے۔ جس کی عملی شکل حضور اکرم ﷺ کی ذاتِ گرامی کی صورت میں ہمارے سامنے موجود ہے۔ اس لیے مسلمانوں کو چاہئے کہ کتاب و سنت کی بنیاد پر متحد و متفق ہوں۔

اتحاد کے یہ معنی ہرگز نہیں ہیں کہ تمام مسلمان اپنی انفرادی رائے، اعتقادات و مسلک حیات سے دستبر دار ہو جائیں، بل کہ اتحاد سے مراد و مقصود یہ ہے کہ ہر شخص اپنے اعتقادات پر قائم رہتے ہوئے ان پر عمل کرے دوسروں کی رائے و دلیل کے حوالے سے احترام، وسعت قلبی اور رواداری کا اظہار کرے اور تعصب سے پرہیز کرے کیونکہ تعصب تنازعہ و تصادم کو جنم دیتا ہے۔ جس طرح اصحابِ رسول اور قرونِ اولیٰ کے مسلمان باوجود اختلافِ رائے احترامِ باہمی کا خیال رکھتے ہوئے اخوت و محبت سے زندگی بسر کرتے رہے۔

ویسے تو مسلمانوں کی باہمی متحد و متفق نہ ہونے کی کئی وجوہات ہیں، لیکن یہاں اسی کے بارے میں لکھونگا جو زیادہ ضروری ہے

(۱)مسالک اور اختلافِ اُمت

مشہور فقہائے اربعہ، امام مالک، امام ابوحنیفہ، امام شافعی اور امام احمد بن حنبل رحمہم اللہ تعالیٰ کی وہ علمی آراء جو قرآن وسنت کے نصوص کی تفہیم اور احکام خداوندی کی تشریح میں منقول ہیں، انھی کو مسلک سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ چوں کہ ان کی آراء میں باہم اختلاف ہے اور اسی وجہ سے ان کے متبعین میں بھی اختلاف رونما ہوتا ہے، جس کی وجہ سے امت مسلمہ کئی گروہوں میں تقسیم ہو گئی ہے۔ تا ہم آئمہ مجتہدین کا اس میں کوئی دخل نہیں ہے۔ قصور، در اصل بعد میں ہونے والے اُن کے متبعین کا ہے۔ فقہائے کرام اور ائمہ مجتہدین نے قرآن و سنت پر غور خوض کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کے مطلوب و منشا کو پانے کی بھرپور کوشش کی ہے اور اس پر وہ اَجر کے مستحق ہیں۔ مگر کسی امام کا یہ دعویٰ نہیں تھا کہ کہ حق اسی کے مسلک میں محصور ہے اور دوسرے ائمہ کا قول غلط ہے۔ لہٰذا میرے ہی مسلک کی ہر حال میں اتباع کو لازم سمجھا جائے اور دوسرے مسلک کی مخالفت کی جائے۔ مگر مسلمانوں کا حال یہ ہے کہ انھوں نے ایک امام کی تقلید کو ہر حال میں واجب قرار دے لیا ہے اور دوسرے مسلک کے قول کی مخالفت کو ضروری سمجھ لیا ہے۔ اس کی وجہ سے مسلکی عصبیت پیدا ہوئی اور ایک دوسرے کے خلاف محاذ آرائی شروع کر دی گئی۔ مسلمانوں میں مسلکی عصبیت اتنی زیادہ بڑھ گئی ہے کہ اس سے کئی اسلامی تعلیمات مجروح ہونے لگی ہیں۔ قرآن میں سارے مومنوں کو ایک دوسرے کا بھائی قرار دیا گیا ہے مگر مسلکی عصبیت نے لوگوں کو بتایا کہ یہ ساری تعلیمات اپنے ہم مسلکوں سے متعلق ہیں اور دوسرے مسلک والوں سے ویسا ہی معاملہ کرنا بجا ہے جیساغیرمسلموں اور ذمیوں کے ساتھ کیا جاتا ہے۔ حال آں کہ اسلام نے غیرمسلموں اور ذمیوں تک کے بھی حقوق بتائے ہیں مگر مسلکی عصبیت اس سے بھی آگے بڑھ گئی اور اَب دوسرے مسلک والے اس کے بھی مستحق نہ رہے کہ ان سے ذمیوں جیسے سلوک کیا جائے۔ یہی وجہ ہے کہ ہر جگہ لڑائی اور فساد کی کیفیت ہے اور اس کی وجہ سے بعض لوگ سرے سے مسلک کو ہی انتشارِ ملت کا سبب قرار دے رہے ہیں۔

اس وقت اتحاد، عالمِ اسلام اور مسلمانوں کا اہم ترین مسئلہ اور تمام ضرورتوں و ترجیحات پر برتری اور اہمیت رکھتا ہے۔ آخر کیا وجہ ہے کہ مسلمان اتحاد کی ضرورت کو نہیں سمجھتے۔ موجودہ دور میں مسلمانوں کا اتحاد ایک ناقابل ان کار ضرورت ہے۔ یہ ایک ایسی ضرورت ہے جو فرقہ وارانہ تنگ نظری، گروہی تعصب اور قومی و نسلی امتیازات کی بنا پر معرض وجود میں نہیں آ سکی جبکہ سامراجی ملکوں کی سازشیں بھی مسلمانوں کو متحد ہونے سے روکنے میں موثر رہی ہیں۔ بے شک حالیہ صدیوں میں مسلمانوں کی عدم پیش رَفت اور پسماندگی کا سبب اختلافات اور آپسی تفرقے ہیں۔ ان کے قومی اور مذہبی اختلافات نے انہیں مختلف قوموں سے پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ جب دوسرا عیسوی ہزارہ شروع ہوا تھا تو مسلمان علمی اور سائنسی لحاظ سے سب سے پیش رفتہ تھے۔ ان کے شہر علم و سائنس و صنعت و تجارت کا مرکز سمجھے جاتے تھے۔ مسلمان علماء اور دانشوروں کو اس زمانے کا راہنما مفکر سمجھا جاتا تھا، عالم اسلام سیاسی، اقتصادی اور علمی و سائنسی سرگرمیوں کا مرکز سمجھا جاتا تھا۔ آج عالم اسلام کی اس شوکت و عظمت کو کیا ہوا؟ مسلمانوں کی وہ یکجہتی کہاں گئی؟ مسلمانوں کی عظمت، عزت و سربلندی سب کچھ اختلافات کی نذر ہو گا۔ اگر مسلمان تعلیماتِ وحی پر کاربند رہتے اور اپنے سیاسی اور سماجی اتحاد کی حفاظت کرتے تو ان کا آج یہ حشر نہ ہوتا۔ آج بھی اگر مسلمان ایک پرچم تلے آ جائیں اور اپنے اختلافات پر بے سود وقت ضایع کرنے کے بجائے تھوڑا سا وقت امت کی فلاح و بہبود کے لیے نکالیں تو آج بھی ایک عظیم طاقت کے طور پر نمایاں ہو سکتے ہیں۔ ہمارے علماء اور دانشوروں کا فریضہ ہے کہ وہ مسلمانوں کو اتحاد و یکجہتی کی اہمیت سے آگاہ کریں۔

اتحاد و اتفاق کسی بھی قوم کی ترقی اور اعلیٰ اہداف کے حصول نیز سربلندی اور کامیابی میں معجزانہ کردار رکھتا ہے۔ آج اسلام کے دشمن متحد اور مسلمانوں کے درمیان تفرقہ ہے۔ اسلام کے دشمنوں کا اتحاد اسی نکتے کی افادیت سے بخوبی آگاہی پر مبنی ہے اور انہوں نے اسلام کو مشترکہ دشمن قرار دے کر اسے اپنے سامراجی اہداف کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ سمجھا ہے اور اسی بنا پر دشمنوں نے اپنے تمام نظری، نسلی، علاقائی اور سیاسی اختلافات بھلا کر ایک دوسرے سے نزدیک ہو کر اسلام کو مٹانے کی کوششیں جاری رکھی ہوئی ہیں۔ مثال کے طور پر عیسائیوں اور یہودیوں نے اپنے تمام تر بڑے شدیدمسلکی اختلافات بھلا کر مسلمانوں کے خلاف متحد ہو کر کام کرنے کی حکمت عملی اپنائی ہے۔ عیسائی جو یہودیوں کو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے مصلوب ہونے کا ذمہ دار سمجھتے ہیں اب اس الزام کو بھلا بیٹھے ہیں اور آپس میں متحد ہو کر اسلام کے خلاف میدان میں کود پڑے ہیں۔

یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ تمام اسلامی فرقوں کے درمیان بنیادی و اعتقادی قدریں مشترک ہیں۔ اسلامی عقائد کا سارا نظام انہی مشترک بنیادوں پراستوارہے۔ مسلمانوں میں سے کو ئی بھی نہ تو کسی اور نبی یا رسول کی شریعت کا ان کار کرتا ہے نا ہی اسلام کے سوا کسی اور دین کو مانتا ہے۔ سب مسلمان توحید و رسالت، وحی اور کتب سماوی کے نزول، آخرت کے انعقاد، ملائکہ کے وجود، حضور ﷺ کی خاتمیت، نماز، روزہ، حج، زکواۃ۔ ..کی فرضیت وغیرہ جیسے مسائل پر یکساں ایمان رکھتے ہیں اور اگر کہیں کو ئی اختلاف ہے تو صرف فروعی حد تک، اور وہ بھی ان کی علمی تفصیلات اور کلامی شروحات متعین کرنے میں ہے۔ کیونکہ اس سے عقائدِ اسلام کی بنیادوں پر کو ئی اثر نہیں پڑتا۔ جب کو ئی اثر نہیں پڑتا تو آخر کیا وجہ ہے کہ ایک خدا ایک نبی ایک کتاب، ایک دین، اور ایک کعبہ کے ماننے والوں کے درمیان دینِ الٰہیہ کی سر بُلندی کے لیے اتحاد و یگانگت کے لازوال رشتے قائم نہ کئے جا سکیں اور ’’ملت واحدہ‘‘ کا تصور ایک زندہ جاوید حقیقت نہ بن سکے ؟

قرآن مجید مسلسل لوگوں کی ضمیروں کو جھنجوڑ رہا ہے کہ تم ایک ملت اور ایک ہی دین کے لیے منتخب کئے گئے ہو۔

’’ شرع لکم من الدین ما وصیّٰ بہ نو حاً و الذی اوحینا الیک و ما وصّینا بہ ابراہیم و موسیٰ و عیسیٰ ان اقیموا الدین و لا تتفرقوا فیہ۔ ..‘‘) (شوریٰ)

’’(خالقِ کائنات نے )تمہارے لیے وہی دین مقر ر کر دیا ہے جس کے قائم کرنے کا اس نے نوح کو حکم دیا تھا اور (جو بذریعہ وحی ) ہم نے تمہاری طرف بھیج دی ہے، اور جس کا تاکیدی حکم ہم نے ابراہیم اور موسیٰ اور عیسیٰ کو دیا تھا کہ اس دین کو قائم رکھنا اور اس میں پھوٹ نہ ڈالنا۔ ‘‘

(۲)تکفیر سے اجتناب

تکفیر( کسی کو کافر قرار دینا) اور تکفیری رجحان اسلامی تعلیمات سے متضاد اور لا علاقہ ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی حیات طیبہ میں کسی کی تکفیر نہیں کی گئی بل کہ آپ کے بعد یہ بغض و حسد اور تعصبات کی بنا پر اقتدار اور ذاتی مفادات حاصل کرنے کا ہتھکنڈا بن گئی۔ مسلمانوں کے درمیان زیادہ تر تصادم کی بنیاد اصولی نہیں ہے بل کہ سماجی اور مذہبی تعصبات کی بنا پر ہے کیونکہ اسلامی تعلیمات بعض نام نہاد مسلمان دھڑوں کے افکار و نظریات کے برخلاف تصادم اور تکفیر کا سد باب کرتی ہیں اور مسلمانوں کو اختلافات حل کرنے، اتحاد اور پیار محبت اور رواداری کا سبق دیتی ہیں۔

اسلام میں خوارج وہ پہلا گروہ تھا جس نے مسلمانوں کی تکفیر کو رائج کیا(ابن جوزی)۔ ان کے بعد خوارج کی فکر کے پیروؤں نے مسلمانوں کے درمیان تکفیر کا بازار گرم کیا۔ تمام اسلامی مذاہب کے مطابق توحید اور اصول دین کا زبانی اعتراف کرنے والا ہر شخص مسلمان ہے اور

اس کی جان مال اور آبرو محترم ہے، غیر علمی اور ظاہری دلیلوں سے اسے مرتد یا کافر قرار نہیں دیا جا سکتا اور نہ ہی اسے قتل کیا جا سکتا ہے۔

(۳)دانشوران، مصنفین اور اہل قلم پر نظر

اسلامی معاشرے کے دانشوروں، مصنفین اور اہل قلم حضرات کی ذمہ داری ہے کہ وہ امت کو دشمن کے تفرقہ انگیز اقدامات سے آگاہ کریں ایسا نہ ہو کہ وہ خود تفرقے اور اختلاف کا سبب بن جائیں۔ لہٰذا اہل قلم کو اپنی ذمہ داری سمجھتے ہوئے اپنے مقالوں، مضامین اور کتابوں میں ہر طرح کے تفرقہ انگیز مسائل سے پرہیز کرنا چاہیے۔ بل کہ اتحادِ اُمت و ملّت کے حق میں کام کرنا چاہیے۔ البتہ مذہبی مسائل پر تحقیق کرنا ایک الگ مسئلہ ہے جو محقق علماء اور اہل دانش کے حلقے تک ہی محدود رہنا چاہیے اور عوام النّاس کو دقیق علمی موشگافیوں سے دور ہی رکھا جانا چاہیے۔ بصورتِ دیگر وہ اپنی کم فہمی کی بنا پر خواہ مخواہ ا آپس میں افتراق و انتشار میں پڑ جایا کرتے ہیں۔

(۴) ائمہ کرام

علمائے کرام اور آئمہ عظام مسلم عوام کے دینی رہ نما ہیں۔ انہیں ان کے درمیان عزت و احترام اور اعتبار حاصل ہے۔ اس لیے ان کی ذمہ داری ہے کہ جمعہ کے خطبوں اور دیگر مواقع پر اپنے خطبات کے ذریعے عوام کی دینی رہنمائی اور کردار سازی کا کام انجام دیں۔ بجائے اس کے عوام النّاس کو اختلافی موضوعات میں الجھایا جائے۔ فی الحقیقت تمام اختلافی معاملات کا تعلق ہے ہی محض راسخ العلم علماء سے، یہ عام آدمی کے ساتھ کرنے والی باتیں ہی نہیں ہوا کرتیں اس کا خاص فورم ہوا کرتا ہے۔ اور فی زمانہ مسجد و محراب ہر گز ایسے مسائل بیان کرنے کی جگہ نہیں ہے۔ یہاں صرف عمومی تعلیم و تربیت ہونی چاہیے۔ اسلام اللہ کا برحق دین ہے، جسے اس نے تمام انسانوں کی ہدایت کے لیے نازل کیا ہے۔ اسے اللہ کے بندوں تک پہچانا اور دیگر باطل افکار و نظریات کے مقابلے میں اس کی حقانیت کو ثابت کرنا امت مسلمہ اور خاص کر علمائے کرام کی ذمہ داری ہے۔

اسلام اور مسلمانوں کے دشمن مختلف بہانوں سے ان کے درمیان اختلاف و انتشار پیدا کرنا اور باقی رکھنا چاہتے ہیں اور مسلم عوام بہت آسانی سے ان کا شکار بن جاتے ہیں۔ علماء کی ذمہ داری ہے کہ ان سازشوں کو سمجھیں اور عوام کو بھی ان کا شکار ہونے سے بچائیں اور اپنی فراست اور حکمت سے ان سازشوں کو ناکام بنا دیں۔ اس کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ مختلف مدارس، مسالک اور جماعتوں سے تعلق رکھنے والے علماء کے درمیان اتحاد و اتفاق کا مظاہرہ ہو، وہ وسیع النظری کا ثبوت دیں اور مسلکی اختلافات سے اوپر اٹھیں۔ انہیں چاہئے کہ عوام کو بتائیں کہ تمام فقہی مسالک برحق ہیں، اس لیے ان کی بنیاد پر اختلاف و تفرقہ کو ہوا دینا صحیح نہیں ہے۔ اور لوگوں کو مسلکی تعصبات سے بھی دور رکھا جائے

بیشک اتحاد و اتفاق کسی بھی قوم کی ترقی اور اعلیٰ اہداف کے حاصل کرنے نیز سربلندی اور کامیابی کے حصول میں معجزانہ کردار رکھتا ہے۔ موجودہ دور میں مسلمانوں کا اتحاد ایک اہم ترین مسئلہ اور نا قابل ان کار ضرورت ہے۔ مسلمانوں میں مسلکی عصبیت اتنی زیادہ بڑھ گئی ہے کہ اس سے کئی اسلامی تعلیمات مجروح ہونے لگی ہیں۔ آج مسلمانانِ عالم طرح طرح کے مسائل میں مبتلا ہیں اور اس کی بنیادی وجہ نا اتفاقی، فرقہ وارانہ منافرت، مسلکی تعصبات، ح?بِّ جاہ و اقتدار، حسد، بغض اور دوسرے مادی مفادات، عدم برداشت اور عدم اتحاد ہے۔ مسلمانوں کی عظمت و عزت و سربلندی سب کچھ اختلافات کی نذر ہو گیا۔ اسلام کے دشمن متحد ہیں اور اُن کا اتحاد اسی نکتے کی افادیت سے بخوبی آگاہی کی بنا پر ہے۔ اور وہ مختلف سازشوں کے ذریعے مسلمانوں کو تقسیم کرنے کی کوششوں میں مصروف رہتے ہیں۔ تاریخی حقائق سے معلوم ہوتا ہے کہ مسلمانوں میں باہمی اختلاف پیدا کرنا یہود و نصاریٰ کا پرانا طریقہ ہے۔

قرآن کریم ہمیں یہود و نصاریٰ کی اس نفسیات سے آگاہی کے ساتھ ساتھ متعدد آیات میں مسلمانوں کو متحد و متفق رہنے کا حکم دیتا ہے، تفرقے و اختلافات سے دور رہنے، غور و فکر سے کام لینے اور صبر کرنے کی تلقین کرتا ہے۔ آپس کا اتحاد، تقویٰ و اخوت کے اصولوں پر چلنے سے حاصل ہو سکتا ہے اور یہ اسی وقت ممکن ہے کہ جب مسلمانوں کے پاس وسعتِ قلبی ہو کیونکہ ’’وحدت و اخوت‘‘ فراخی قلب و ذہن چاہتی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ تمام مسلم حکمرانوں کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ اس سلسلے میں اپنا کردار ادا کریں۔..

 

 

Comments are closed.