Baseerat Online News Portal

کچھ تو ہے پردہ داری!!!

مدثراحمد

ایڈیٹر،روزنامہ آج کاانقلاب،شیموگہ۔کرناٹک۔9986437327

ملک بھر میں رام کے نام جو تشدد کے واقعات پیش آرہے ہیں ان واقعات کو ہجومی تشد د کا نام دینے سے مرکزی وزیر برائے اقلیتی امور مختارعباس نقوی نے صاف انکارکیا ہے کہ موب لنچنگ کے واقعات جھوٹے اور من گھڑت ہیں۔ مختار عباس نقوی کے اس بیان کے بعدموب لنچنگ کے واقعات کی جانچ کررہی ایجنسیوں کیلئے مزید ایک طاقت سی مل گئی ہے۔پہلے ہی گروہی تشد د اور فرقہ وارانہ جھڑپوں کو عام مقدمات کے طور پرہماری پولیس اور جانچ ایجنسیاں دیکھتی ہیں کیونکہ یہ لوگ نہیں چاہتے کہ مسلمانوں پر ہونے والے واقعات کو فرقہ وارانہ تشددکے واقعات کے طور پر دنیا کے سامنے پیش نہیں کرنا چاہتے،اگر ایسا ہوتا ہے تو انہیں نہ صرف حقوق انسانی کیلئے آواز اٹھانے والی تنظیموں کی تنقید کا سامنا کرنا پڑتا ہے بلکہ عالمی سطح پر انہیں ذلیل و رسواء ہونا پڑتا ہے،اس لئے سچائی کوچھپانے کیلئے پولیس وجانچ ایجنسیاں نت نئے بہانے تلاش کرتے ہیں۔جو کام پولیس کو کرنا چاہیے تھا وہ کام خو داقلیتی امور کے وزیر مختا رعباس نقوی نے کرد کھا یاتو جانچ ایجنسیوں کواور کیا چاہیے؟۔غورطلب بات ہے کہ ہندوستان میں روزبروز موب لنچنگ کی وارداتوں کو انجام دینا ایک طرح فیشن ہوتا جارہا ہے،ہر کوئی رام کے نام پر لوگوں کو مارنے پر آمادہ ہورہا ہے،جبکہ ہماری سیاسی قیادت ان وارداتوں کوروکنےمیں پوری طرح سے ناکام ہوچکی ہے۔انتخابات سے قبل ہمارے علماء،عمائدین وقائدین نے چیخ چیخ کر کہا تھا کہ بی جے پی کو روکنا ہے تو کانگریس کوووٹ دو،بی جے پی کو اقتدار سے دو ررکھنا ہے تو گٹھ بندھن کو ووٹ دو،مسلمانوںکی بقاء چاہتے ہیںتو سیکولر جماعتوں کو ووٹ دو۔مسلمانوںنے تو اپنا فریضہ تو انجام دے دیا،باوجود اس کے ہندوستان بھر میں دہشت گردی اورفسطائیت کا زہر پی رکھے دوسری قوموںنے سیکولر جماعتوں کا ساتھ چھوڑدیا اور اقتدار پر بی جے پی آگئی ہے۔سوال یہ ہے کہ جب ووٹ دلوانے کی بات ہورہی ہےتو تمام سیکولر جماعتوں کیلئے ہمارے ملی قائدین صمیم قلب سے گزارشیں کررہے تھے،اب وہی قائدین ،علماء اورعمائدین سیکولر سیاسی جماعتوں کو اپنے دروازوں پر بلا کر ان معاملات میں بات کیوں نہیں کررہے ہیں۔جب ووٹ دلوانے کا وقت تھا تو ہماری قیادت نے امیدواروں کواپنےگھروںبلا کر انہیں بریانیاں کھلا کر،شربت و شیریں پلا کر اس بات کا یقین دلا رہے تھے کہ ہم تو آپ کے ساتھ ہے ،پوری قوم آپ کے ساتھ ہے اور پوری قوم کے ووٹ آپ کو ہی ملیں گے۔خیر اگر یہ لوگ کامیاب ہوکر ایوان اقتدار نہیں پہنچے ہیں تویہ لوگ اپوزیشن میں بھی تو بیٹھے ہوئے ہیں،کیونکر ان اپوزیشن کے قائدین کو اس بات پر مجبور نہیں کیا جارہا ہے کہ وہ مسلمانوںکے تحفظ کیلئے پنچایت سے لیکر پارلیمنٹ تک آواز بلند کرنے میں مسلمانوں کا ساتھ دیں۔ہجومی تشدد جسے آج میڈیا میں موب لنچنگ کے طو رپر پیش کیا جارہا ہے اس موب لنچنگ کا اگر اختتام کرنا ہے تو ا س کیلئے صرف مسلمانوںکی آواز کافی نہیں ہوگی بلکہ جنہوںنے مسلمانوں کے ووٹ لئے ہیں،جنہوںنے مسلمانوںکے گھروں پر پہنچ کر بریانیاں کھائی ہیںاُن کا بھی ساتھ ضروری ہے۔جس وقت الیکشن تھے اُس وقت تو ہمارے مدرسوں کے مہمان خانے سیاسی جماعتوںکیلئے کھلے ہوئے تھے،دوسروںکیلئے ووٹ مانگنے کیلئے ہم نے امیدواروں کو اپنے ساتھ مسجدوں کے دروازے پر بھیک بھی مانگی تھی،لیکن آج جب جان پر آپڑی ہے تو کیونکر مسلمان ان لوگوں کا استعمال کرنے سے گریز کررہے ہیں۔قائدین کی کنارہ کشی یہ بات سوچنے پر مجبور کررہی ہے کہ کچھ تو گڑبڑ ہے جس کی وجہ سے مسلم لیڈران کھل کر کانگریس،سماج وادی،جے ڈی ایس اور بی ایس پی جیسی سیاسی جماعتوں پر تنقید کرنےسے کترا رہے ہیں۔شائد ووٹ کے بدلے نوٹ لئے ہوئے ہونگے ،اس لئے زبانیں گونگ ہوگئی ہیں۔جو شخص کسی کے بوجھ تلے نہ ہوگا وہی آزادی کے بعد بات کرسکتا ہے،مگر یہاں اس بات کو محسوس کرسکتے ہیںکہ ہمارے قائدین،علمی شخصیات اور عمائدین نے الیکشن میں کچھ نہ کچھ یا کسی نہ کسی طرح کی سانٹھ گانٹھ کی ہوگی۔

Comments are closed.