Baseerat Online News Portal

مدارس اسلامیہ کے قابل اصلاح پہلو : طریقہ کار و تدابیر

محمد عظیم فیض آبادی

دارالعلوم النصرہ دیوبند

9358163428

 

تقریبا دوصدیوں پر محیط ہندوستان کی تاریخ پر نظر دوڑانے والا شخص کبھی بھی ہندوستان میں مدارس اسلامیہ کی ہمہ جہت خدمات سے چشم پوشی نہیں کرسکتا جنگ آزادی میں ہراو دستے کے فرائض کی ادائیگی سے لے کر ملکی نظام کی درستگی تک اس کی خدمات پھیلی ہوئی ہیں انگریزوں کی آنکھ میں آنکھ ڈال کر بات کرنے اور ان کے ظلم واستبداد کے ذریعہ قائم کی جانے والی ہرتدبیر کوناکام بنانے کا جذبہ بھی اسی مدارس نے دیاتھا

دینی اعتبار سے عقائد واصلاح اخلاق وکردار کے سانچے میں ڈھالنےاور منبر ومحراب کو زینت بخش کر پوری ملت اسامیہ ء ہند کے دین وایمان کی حفاظت کرکے پوری دنیا میں دین کی سر بلندی بھی انھیں مدارس کی مرہون منت ہیں

"شہاب نامہ "کے ایک اقتباس سے مدارس اسلامیہ کی خدمات کی ایک جھلک محسوس کی جاسکتی ہے کی کن کن حالات کا مقابلہ کرتے ہوئے مدارس نےملک وملت کی خدمات انجام دیں

” لوسے جھلسی ہوئی گرم دوپہرں میں خس کی ٹٹیاں لگاکر پنکھوں کے نیچے بیٹھنے والے یہ بھول گئے کی محلے میں ظہر کی اذان ہر روز عین وقت پر اپنے آپ کس طرح ہوتی رہتی ہے؟

کڑکڑاتے ہوئے جاڑوں میں نرم وگرم لحافوں میں لپٹے ہوئے اجسام کو اس بات پر کبھی حیرت نہ ہوئی کہ اتنی صبح منہ اندھیرے اٹھ کر فجر کی اذان اس قدر پابندی سے کون دے جاتاہے؟

دن ہو یارات ،آندھی ہویا طوفان، امن ہویافساد، دور ہو یانزدیک، ہرزمانے میں شہر شہر، گلی گلی ، قریہ قریہ، چھوٹی بڑی، کچی پکی مسجدیں اسی ایک ملاکے دم سے آباد تھیں جو خیرات کے ٹکڑوں پر مدرسوں میں پڑھاتھا، اور دربدر کی ٹھوکریں کھاکر گھر بار سے دور کہیں اللہ کے کسی گھر میں سر چھپاکر بیٹھ رہاتھا اس کی پست پر نہ کوئی تنظیم تھی نہ کوئی فنڈ تھا ، نہ ہی کوئی تحریک تھی اپنوں کی بے اعتنائی، بے گانوں کی مخاصمت ماحول کی بے حسی اور معاشرے کی کج ادائی کے باوجود اس نے نہ اپنی وضع قطع کو بدلا اور نہ اپنے لباس کی مخصوص وردی کوچھوڑا اپنی استعداد اور دوسروں کی توفیق کے مطابق اس نے کہیں دین کا شعلہ، کہیں دین کی شمع، کہیں دین کی چنگاری روشن رکھی یہ ملا ہی کا فیض تھا کہ کہیں کام کے مسلمان کہیں نام کے مسلمان، ثابت وسالم رہے بر صغیر کے مسلمان ملا کے اس احسان عظیم سے کسی بھی طرح سبکدوش نہیں ہو سکتے جس نے کسی نہ کسی طرح ان کے تشخص کی بنیاد کو ہر دور وہر زمانے میں قائم رکھا ”

آج ہندستان کے مدارس جن حالات سے دوچار ہیں اور پوری طرح حکومت اور اس کی خفیہ ایجنسیوں کے جس طرح نشانے پر ہیں ہر مسلمان اس واقف ہے

حکومت مدارس اسلامیہ کی ساری سرگرمیوں پر گہری نظر رکھ رہی ہے خصوصاً دیوبند کےمدارس تو حکومت کے رڈار پر ہیں ابھی دارالعوم دیوبند کی جدید لائبریری کی جانچ کے احکامات سے ملت اسلامیہ مضطرب ہے

یہ کوئی اتفاقی امر نہیں بلکہ یہ بھی اسی سازش کا حصہ ہے اس وقت حکومت مدارس کے اندر تک کے نظام تک رسائی حاصل کرچکی ہے ا س لئے اس حوالے سے مدارس اور اس کے ذمہ داران کو بہت محتاط رہنے کی ضرورت ہے

مدارس اسلامیہ کا نظام تو الحمد للّٰہ بہت صاف شفاف ہیں لیکن جب حکومت کی نیت ہی بگڑ جائے تو پھرکیا کہہ سکتے ہیں

ان حالات میں تمام مکاتب فکر کے علماء ومفکرین اورمدارس اسلامیہ کے ذمہ داران نیز تنظیموں کے صدور ونظماء کو مسلکی اختلافات بھلاکر اتحاد اتفاق کا مظاہرہ کرنےاور "واعتصموابحبل اللہ جمیعا کی عملی تفسیر بن جانے کی شدیدضرورت ہے

اور آپس میں مل بیٹھ کراس طرح کے حکومتی ،اقدامات، سازشوں، حملوں سے بچنے ،اسکا مقابلہ کرنے کی تدابیر ولائحہ عمل پر غور کرنا چاہئے

پھرایسے حالات میں خاص طور پرہمیں بہت محتاط رہنے کی ضرورت ہے کہ کہیں ہماری کوئی تحریر یا ہماراکوئی بیان مدارس کے لئے جنجال نہ بن جائے بالخصوص شوشل میڈیا پر بھی اس طرح کے مضامین وتنقیدات اور مدارس ومکاتب کو نشانہ بنانے والی تحریرات سے بہت متنبہ رہنے کی ضرورت ہے

اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ مدارس میں اصلاح کی ضرورت نہیں یا مدارس میں خامیاں نہیں ہیں بلکہ مدارس اور اس کے نظام میں بے شمار قابل اصلاح خامیاں ہیں جو خود مدارس کے لئے سوہان روح ہیں جس کی درستگی ازحد ضروری ہے

لیکن اس کے لئے وہ راستہ نہ اختیارکیاجائے جو دشمن کے لئے ایک طرح کا ہتھیار ہوجائے بلکہ اس کے لئے ایسا طریقہ کار اختیارکیاجائے کہ سانپ بھی مر جائے لاٹھی بھی پچ جائے :

مثلااس کے لئے ایک جماعت یا ایسی کوئی کمیٹی تشکیل دےکر پہلے ایسے مدارس کی اور پھر ان میں پائی جانے والی خامیوں کی نشاندہی کی جائے پھر اجتماعی طور پر ان کے ذمہ داران سے ملاقات کرکے خداواسطے اس کی طرف متوجہ کراکر ان کےخاتمے کی درخواست کی جائے

نیز زکات اور اس کے نظام میں شفافیت لائی جائے اور اس کے لئے بھی لائحہ عمل طے کیا جائے،

طلباء کے حوالے سے للہیت اور ان کے حقوق کی پوری نگداشت اور رعایت کی جائے، حتی الامکان ان کے خردونوش کے صحیح نظم کی فکرکی جائے ،

مدرسین کی تنخواہوں کا معیار بلند کیا جائے تو ان شاءاللّٰہ مدرسین میں بھی اخلاص ولگن کے ساتھ کام کرنے کا جزبہ بیدار ہوگا ، مدارس اسلامیہ کا گراف اوپر اجائے گا اور تعلیمی معیار بلندہوجائے گا

الغرض مخلصانہ مشورہ اورآپسی گفت وشنید سے ان شاء اللہ مدارس کے نظام میں تبدیلی آئےگی اور اس طرح مدارس کے اصلاح ودرستگی کا ایک باب کھل جائے گا لیکن تنقید وتنقیص یا کسی مخصوص ادارے یا شخصی طور پر کسی کو نشانہ بناکر کسی طرح کی دل آزار تحریروں سے کسی اصلاح ودرستگی کی امید تو کم ہی کی جاسکتی ہے البتہ اس طرح حکومت اور اس کےخفیہ اداروں کو مواد ضرور فراہم ہوجائے گا

اللہ تعالیٰ تمام مدارس اسلامیہ ،مکاتب دینیہ ، مساجد کے ذمہ داران، اور دینی تنظیموں کو اخلاص کے ساتھ صحیح نہج پرکام کرنے کی توفیق بخشے اور ان سب کو حاسدین کے حسد اور دشمنان دین کی ریشہ دوانیوں سازشوں سے محفوظ فرمائے… مین

 

Comments are closed.