Baseerat Online News Portal

شری نقوی! یہ تو سراسر بے شرمی ہے….

خبر پر نظر: شکیل رشید

ایڈیٹر ممبئی اردو نیوز / سرپرست ایڈیٹر بصیرت آن لائن
مودی راج میں ماب لنچنگ پر قابو پانے کی اپیل، درخواست یا استدعا اب طنز اور استہزاء یا مذاق کا موضوع بنادی گئی ہے۔ یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ اب جو بھی شخص یا اشخاص ماب لنچنگ پر قابو پانے کی درخواست کریں گے وہ سنگھی ٹولے کے مذاق کے نشانے پر ہوں گے ، نہ صرف مذاق کے نشانے پر بلکہ ان کی درخواست کی بنیادوں کو ’ فیک‘ جھوٹ اور کذب وافتراء قرار دے کر یوں ٹھکرادیا ، یا رد اور مسترد کردیا جائے گا جیسے کہ جو واقعات ہورہے ہیں یا جو وارداتیں کی جارہی ہیں یا ہجومی تشدد کے ذریعے لوگوں کی جو جانیں لی جارہی ہیں وہ سب محض افسانہ اور کہانی ہے ، اس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔۔۔ اب یہی دیکھیں کہ آج بدھ کے روز جب اس ملک کے 49 دانشوروں نے ، جن میں سنیما، آرٹ ، میڈیکل وغیرہ کے شعبوں سے جڑی بڑی ہی اہم شخصیات شامل ہیں ، وزیراعظم نریندر مودی کو ایک خط لکھ کر ماب لنچنگ کے مسئلے پر اپنی تشویش کا اظہار کیا اور ان سے یہ درخواست کی کہ’ مسلمانوں ،دلتوں اور دیگر اقلیتوں کی لنچنگ پر فوری روک لگائی جائے ‘ ‘ تو مرکزی وزیر شری مختار عباس نقوی فوراً ان کے رد میں میدان میں کود پڑے ۔ ان کے منھ سے وہی نکلا جو کسی بھی ’مودی بھکت‘ کے منھ سے نکلے گا کہ اس ملک میں مسلمان اور دلت، بالکل محفوظ ہیں ۔ یہ وہ نقوی ہیں جنہوں نے ابھی چند روز قبل ماب لنچنگ کے واقعات کو ’ فیک‘ یعنی ’ جھوٹ‘ قرار دیا تھا۔ انہوں نے کہا تھا کہ ’’ ان میں سے زیادہ تر واقعات گڑھے ہوئے اور فرضی ہیں ۔ ‘‘
نقوی کے اس بیان پر اور بدھ کے روز جو کچھ انہوں نے کہا اس پر بات کریں گے پر اس سے پہلے یہ دیکھ لیں کہ انہوں نے ملک کی جن 49 اہم شخصیات پر انگلی اٹھائی ہے وہ کون ہیں؟ ان میں منی رتنم ، گوپال کرشنن، رام چندر گوہا ، انوراگ کشیپ، شبھا مدگل ، شیام بینگل ، جیسی بے حد معتبر ،سنجیدہ اور ملک سے محبت رکھنے والی شخصیات شامل ہیں ، انہوں نے باقاعدہ اعدادوشمار پیش کئے ہیں اور یہ بتایا ہے کہ 90 فیصد واقعات 2014 یعنی ’ مودی راج‘ شروع ہونے کے بعد پیش آئے ہیں ۔۔۔ ہجومی تشدد ، فسادات اور مذہب کی بنیاد پر نفرت کے واقعات کی جو وارداتیں اور واقعات اس ملک میں 2009 سے لے کر ابتک پیش آئے ہیں ان کا باقاعدہ ’ڈاٹا‘ دیا گیا ہے اور ’ ڈاٹا‘ یعنی اعدادوشمار کی بنیاد پر یہ حقیقت سامنے رکھی گئی ہے کہ ’ مودی راج‘ میں سب سے زیادہ یعنی 90فیصد ’ ہجومی تشدد‘ کے واقعات پیش آئے اور ان میں 91 افراد مارے گئے اور 579افراد زخمی ہوئے ۔
تمام اعداوشمار سامنے ہیں ۔ یہ بھی سامنے ہے کہ ’ مودی راج‘ کے دوسرے دور میں 55سے زائد ماب لنچنگ کی وارداتیں ہوچکی ہیں جن میں نشانہ مسلمان اور دلت یا پچھڑے بنے ہیں ۔۔۔ لیکن شری نقوی ہیں کہ ’ فیک‘ اور ’فرضی‘ اور ’گڑھے ہوئے‘ کی رٹ لگائے ہوئے ہیں ۔ اعداوشمار ان کے لئے کوئی معنیٰ نہیں رکھتے ۔ جن 49 شخصیات نے اپیل کی ہے وہ انہیں ’’ لوک سبھا کی ہار سے اب تک ابھرنہ سکنے والے‘‘ قرار دیتے ہیں ۔ وہ ماب لنچنگ کے واقعات کو ’ مجرمانہ وارداتیں‘ بتاتے ہیں ، وہ یہ ماننے سے انکار کرتے ہیں کہ جو واقعے ہوئے وہ مذہب یا ذات پات کی یا کسی مخصوص نظریے کی بنیاد پر کسی کو نشانہ بنانے کے واقعے ہیں ۔ اگر وہ یہ مان لیں تو انہیں یہ ماننا پڑے گا کہ ایک مخصوص نظریے کے لوگ ’ماب لنچنگ‘ کرتے ہیں اور ان پر کوئی قدغن نہیں ہے،با الفاظ دیگر’مودی راج‘ میں وہ ہرطرح سے محفوظ اور قانون کی گرفت سے باہر ہیں ۔۔۔ نقوی ان سنجیدہ اور بجاتشویش میں مبتلا افراد پر طنز کستے ہوئے کہتے ہیں کہ ’’چند لوگ جو انسانی حقوق اور سیکولرزم کے محافظ ہونے کے دعویدار ہیں ، ان مجرمانہ وارداتوں کو فرقہ وارانہ رنگ دینے کی کوشش کررہے ہیں ، یہ مایوسی کے شکار لوگ ہیں اور انہوں نے ایوارڈ واپسی کے دوسرے دور کی شروعات کی ہے ۔‘‘ ان کا دعویٰ ہے کہ اقلیتیں اور دلت اور ان کے معاشی ، سماجی اور مذہبی حقوق بالکل محفوظ ہیں ۔۔۔ نقوی سے خیر اس کے علاوہ اور کیا امید کی جاسکتی ہے ۔ آج جب اقوام متحدہ سے لے کر امریکی وزارت خارجہ اور یوروپی ملکوں تک میں بھارت کے ماب لنچنگ کے واقعات کی مذمت ہورہی ہے اور ملک بھر میں اور بیرون ممالک میں لوگ احتجاج اور مظاہرے کررہے ہیں تو نقوی جیسے لوگ ’ماب لنچنگ‘ کرنے والوں کے حق میں ۔۔۔۔ جی ان وارداتوں کو ’ فیک‘ کہنا ہجومی تشدد کرنے والوں کی حمایت ہی ہے ۔۔۔بول کر ساری دنیا میں ہندوستان کی شبیہہ کو مزید خراب کررہے ہیں ۔ پر نقوی کریں بھی تو کیا کریں ، وہ خود کو مسلمان کہتے ہیں اور ’ مودی راج‘ میں مسلمانوں کے لئے کوئی جگہ نہیں ہے ، لہٰذا وہ اس راج میں اپنی جگہ بنانے کے لئے شاید مودی بھکتوں سے بھی بڑھ کر بھکتی دکھانے پر مجبورہیں ۔ ویسے ہم اسے نقوی کی مجبوری نہیں کہیں گے، ایک سچ کو سچ نہ ماننا سراسر بے شرمی ہے ۔

(بصیرت فیچرس)

Comments are closed.