مدرسہ ڈسکورسز کیوں قبول نہیں؟

مفتی محمد اللہ قیصر قاسمی
آج کل کسی بات کو بے وزن کرنے کیلئے یہ کہنا کافی ہوگیا ہے کہ وہ ” مذہبی روایت” کے مطابق ہے، ویسے مذہب کی بات مذہبی روایات و اصول پر ہی مبنی ہونی چاہئے، لیکن یہ دانشوری کی ہوا بھی بڑی کمال کی چیز ہے، جس کو لگ جائے انہیں کچھ بھی کہنے کی "ڈگری” مل جاتی ہے، یہ چاہتے ہیں کہ بات مذہبی ہو لیکن اصول فزکس اور کیمسٹری کے ہوں، بہرحال ،
دینی امور میں غیروں کی فکر سے اجتناب کی نصیحت پر وہی پرانا اعتراض دہرایا جارہاہے کہ "اگر غیروں کی فکر پر اعتراض ہے تو جدید ٹکنا لوجی کے استعمال پر کیوں نہیں” اعتراض کرنے والے اتنا تو سمجھنے ہی ہوں گے کہ ٹکنالوجی کے استعمال سے عقیدہ اور فکر پر کوئی اثر پڑنے والا نہیں، ( ہاں اگر مغربی مصنوعات میں سے کوئی چیز اسلامی اصول سے متصادم ہے تو اس سے بھی بچنے کی تلقین کی جاتی ہے، اور علماء اس کے حرام ہونے کا فتویٰ جاری کرتے ہیں، مثالیں انیک ہیں ) جبکہ دیگر علوم سے افکار کا متاثر ہونا بہت عام ہے، یہ خوف اس وقت مستزاد ہو جاتا ہے جب کسی علمی و فکری ادارے یا تحریک کی باگ ڈور مخالف عقائد کے حاملین کے ہاتھ میں ہو،
اللہ نے کفار و مشرکین کو مسجد کی تولیت سے بھی روک دیا، (ماکان للمشرکین ان یعمروا مساجد اللہ الخ، وجہ ہے کہ یہ توحید کے کھلے منکر ہیں، اور ظاہر ہے کہ توحید کا منکر وہ سب نہیں کرسکتا جو توحید کا تقاضا ہے، بلکہ ہمیشہ اس کی خواہش ہوگی کہ اس کی زیر نگرانی مسجد سے متعلق تمام امور میں اس کے عقیدے کا عمل دخل ہو، اور دھیرے دھیرے وہاں اپنی فکر مسلط کرنے کی کوشش کرے گا، اور واقع میں ایسا ہی ہوتا ہے۔ تولیت مساجد کی ممانعت کو ذرا وسیع کر کے دیکھیں تو اس میں یہ بھی شامل ہوگا کہ دین سے متعلق اداروں کو اعداء دین کی دیکھ ریکھ میں دینا بھی ممنوع ہوگا، ورنہ مدارس اسلامیہ میں کسی "رام سنگھ” یا "جگندر بھنڈاری” کو مہتمم بنانا بھی صحیح ہو جائے گا؟ اور آر ایس ایس کی تنظیم "مسلم سنگھٹن” کی مخالفت کیلئے کوئی وجہ جواز نہیں رہےگا۔
بات بہت سیدھی ہے ، دنیا میں وجود پانے والی کوئی فکر و فن اگر اسلام کے بنیادی اصول سے متصادم نہ ہو تو اسے اپنانے میں کوئی حرج نہیں اور اس کے برعکس اگر متصادم ہو، ایمان و عقیدہ پر زد پڑنے کا خوف ہو تو اس سے اجتناب کیا جائے، تو کسی چیز کے صحت و سقم کو پرکھنے کیلئے پیمانہ اسلامی اصول ہیں، نہ کہ محض عقل، ایسا اعتراض کرنے والوں سے پہلی غلطی تو یہ ہوتی ہے کہ فکر و فلسفہ کو مادہ پر قیاس کرلیتے ہیں، دوسرے علماء کی جانب سے ہونے والے نکیر کے سبب پر غور نہیں کرتے، لوگوں کی نظر میں فقط "مغرب کی طرف نسبت” وجہ نکیر ہے، جبکہ علماء کے یہاں سبب ہے اسلامی عقائد و فکر کےلئے مضر یا اس سے متصادم ہونا ، کوئی فکر، فلسفہ، نظریہ، حتی کہ مادی مصنوعات اگر اسلامی تعلیمات سے متصادم ہوں گی تو اس پر علماء بلاخوف لومۃ لائم نکیر کرتے آئے ہیں اور کرتے رہیں گے، چاہے دنیا جتنا طنز کرے، مذاق اڑائے، کچھ بھی کرے،

(پاکستانی یا چینی حکومت اپنی نگرانی میں اگر ہندستانی تاریخ ،تہذیب و ثقافت اور خارجہ و داخلہ پالیسی پر مطالعہ کیلئے ہندستان میں کوئی ادارہ قائم کرنا چاہے، اور ہندستان میں اس کا ذمہ دار ایسے شخص کو بنائے جس کے متعلق جگ ظاہر ہو کہ اس کی رائے اکثر ہندستان کی پالیسیوں کے مخالف ہوتی ہے، تو کیا حکومت ہند پاکستان کو "اہلا و سہلا” کہتے ہوئے اپنا خیرخواہ تسلیم کر لے گی؟ اور اسے اجازت دے دیگی کہ آئیے اور ہماری سرزمین ہر اپنی تحریک چلائیے؟ امید ہے کہ جواب آپ کو بھی معلوم ہوگا)
رہی بات کہ غامدی اور عمار صاحبان وسیع المطالعہ ہیں تو صرف وسیع المطالعہ ہونا کوئی معیار نہیں ہے کہ وہ جو کریں سب صحیح، یہود و نصاری میں بھی بڑے علم والے مل جائیں گے، دیکھنا تو یہ ہے کہ علم کے ساتھ دین سے اس شخص کا (ظاہری) تعلق کیسا ہے(باطن کا حال صرف اللہ جانتا ہے)، اور دینی تعلیمات سے متعلق اس کی آراء دینی اصول کے موافق ہے یا مخالف،
پلورلزم پر بہت سادگی سے لوگ کہہ رہے ہیں کہ ” یہ تو انہوں نے اپنے اعتبار سے لکھا ہے” ورنہ یہاں ایسا کچھ ہوتا نہیں، تو واضح رہے کہ ان ذمہ داران میں سے کئیوں کا نظریہ پہلے سے ہی یہ ہے کہ تمام اہل کتاب مؤمن ہیں، اورفَمَن شَاءَ فَلْيُؤْمِن وَمَن شَاءَ فَلْيَكْفُرْ میں سبھی کو ایمان و کفر میں اختیار دیا گیا ہے، یعنی پلورلزم کی زمین تیار ہے بس کچھ فارغین مدارس کے ذہن میں ٹھونس کر لوگوں تک اسے پہونچانا باقی ہے، اور جب لگام ان کے ہاتھ میں ہے تو وہ پڑھائیں گے بھی اپنے ہی اعتبار سے، اور یہ جو اوپن ماحول والی بات کہی جارہی ہے کہ وہاں بہت کھلے ماحول میں سوال و جواب کا موقع ملتا ہے جس مے فکری افق وسیع ہوتا ہے، تو دنیا جانتی ہے کہ کسی کو اپنا ہم خیال بنانے کیلئے بہت اوپن ماحول دینا ہی پڑے گا، جہاں کھل کے سوال جواب ہو ، لیکن آخر میں فیصلہ وہی ہوگا جو وہ چاہتے ہیں، اس سفر میں منزل وہی ہوگی جو انہوں نے طے کیا ہوگا، کیوں کہ باگ ڈور آپ کے ہاتھ میں نہیں ہے، ، جو نہیں مانیں گے ان کو کسی نہ کسی بہانے نکال باہر کیا جائے گا،
سر سید کی بحث یہاں نہیں چھیڑنی چاہئے، پاکستانی سائنسدان ڈاکٹر عبد القدیر نے اپنے ایک مضمون میں لکھا تھا کہ ملک و قوم کی ترقی جدید ٹکنالوجی میں ترقی پر موقوف ہے، سرسید نے ٹکنالوجی یا طب کی تعلیم شروع نہیں کی ،فزکس، کیمسٹری،بایولوجی، کی تعلیم علی گڑھ کے قیام کے دہائیوں بعد وہاں شروع ہوئی، انہوں نے "فکری” علوم، مغربی فکر و فلسفہ، مغربی زبان و ادب کی تعلیم سے علی گڑھ کا آغاز کیا، جدید ٹکنالوجی کی تعلیم سے نہیں، حالی نے تنقید کرتے ہوئے کہا تھا”حالؔی اب آؤ پیرویِ مغربی کریں” 1970 میں تہذیب الاخلاق کا پہلا پرچہ شائع ہوا تو سرسید نے اپنی تحریک کا مقصد بیان کرتے ہوئے لکھا،”اس پرچہ کے اجراء سے مقصد یہ ہے کہ ہندستان کے مسلمانوں کو کامل درجہ کی سویلائزیشن یعنی تہذیب اختیار کرنے پر آمادہ کیا جائے، تاکہ جس حقارت سے سویلائزڈ یعنی مہذب قومیں ان کو دیکھتی ہیں وہ رفع ہو اور وہ بھی معزز و مہذب قوم کہلائیں” بلکہ کچھ لوگوں نے تو یہاں تک لکھا ہے کہ سرسید نے مسلمانوں کیلئے سائنس اور ٹیکنیکل تعلیم کی صراحۃ مخالفت کی تھی اور مسلمانوں کیلئے "اعلی درجہ کی دماغی تعلیم کو سب سے مقدم قرار دیا، یعنی وہ تہذیب و ثقافت میں مغرب کی تقلید کو مسلمانوں کیلئے ترقی کی بنیاد سمجھتے تھے، اسلئے انہوں نے سائنس اور ٹیکنالوجی کو چھوڑ کر مغربی فکرو فلسفہ، اور ادبیات کو ترجیح دیا، اور ہر فکر و فلسفہ کا اپنا خاص اثر ہوتا ہے، جب اسلامی تعلیم سے نا آشنا لوگوں نے پڑھنا شروع کیا تو جو کچھ ہوا،وہ آپ بھی جانتے ہیں، دین بیزاروں کی فوج نکلی جن کا کام اسلامی تعلیمات میں شکوک پیدا کرنے کے علاؤہ کچھ نہیں تھا،علی گڑھ نے وہی کام کیا جو اس وقت مصر میں روز روز کھلنے والے "کلیہ الحقوق” اور امریکی جامعات ” میں ہو رہا تھا، "ملحدین اور دہریوں کی فوج کی تیاری” ، اسلئے علماء کا اعتراض اس بنیاد پر نہیں تھا کہ سرسید تعلیمی ترقی کیلئے میدان میں آئے، جیسا کہ سرسید نے خود بھی اپنے خطبات میں اس جھوٹ کو خوب پھیلایا، یہ ایک الزام اور بہتان ہے جو برسوں سے علماء کے سر منڈھا جا رہا ہے، ایک تو سرسید کے نظریات کی مخالفت ہو رہی تھی دوسرے بات یہ تھی کہ، مغرب کے فکر و فلسفہ پڑھانے پر نکیر ہورہی تھی، اس جھوٹ کو پھیلانے کا سلسلہ اب بند ہونا چاہئے،
اور ہمارے سامنے برج کورس کی ایک مثال واضح ہے، برج کورس کے ذمہ دار کا عقیدہ اور ان کی فکر کیا ہے سب جانتے ہیں، برج کورس کے متعلق بس اتنا کہوں گا کہ برج کورس والے ہی ہیں جو کہہ رہے ہیں کہ ہندؤں کو شبہ اہل کتاب مان لو ، شادی بیاہ سب جائز ہوجائے گا تو ملک میں امن و امان پھیلے گا، قیام امن کیلئے اتنی خوبصورت تجویز پیش کرنے والا فتنہ پرور کیسے ہوگا؟ ہے نہ کمال کی بات!

ویسے پہلی بار دیکھنے میں آرہا ہے کہ ” فارغین مدرسہ میں سے ایک طبقہ ایسے لوگوں کو دوست ثابت کرنے پر تلا ہے جنہیں ہم کھلی آنکھوں سے اپنی گردن اتارتے دیکھ رہے ہیں، جان و مال کے علاؤہ دین پر حملے کے نت نئے طریقے اپنا رہے ہیں، جو کبھی ہمارے سامنے نقلی "قرآن” پیش کرتے ہیں، کہیں کسی اسلامی یونیورسٹی کو حکم دیتے ہیں کہ قرآن کی فلاں فلاں آیات کی تعلیم نہیں ہوگی، کسی بھی اسلامی تحریک کو مشتبہ کرکے کچلنے میں ذرا نہیں ہچکچاتے، ساری اسلامی دنیا پر دہشت گردی کا ٹھپہ لگا دیا، حقوق انسانی کے نام پر اسلامی تعلیمات پر حملہ روز کا معمول ہے، مسلم دنیا پر ان کی زیادتیوں سے پوری دنیا واقف ہے پھر بھی وہ ہمارے”خیر خواہ”ہیں!

اسلامی کاز کیلئے ضروری ہے کہ کم از کم اس کے ذمہ داران صحیح الفکر اور صحیح العقیدہ ہوں، غامدی کی فکر سے ہر کوئی واقف ہے، ابراہیم موسی کو بھی سن چکے ہیں ، اور اصل لگام امت اسلامیہ کے "حقیقی بہی خواہ”نصاری کے ہاتھ میں ہے، نیز اس کے پروگراموں میں جن موضوعات کو چھیڑا جا رہا ہے، وہ خود اس تحریک سے متعلق شکوک و شبہات کو جنم دے رہے ہیں، ایسے میں اس "عظیم تحریک "سے کسی خیر کی امید لگانا اپنے آپ میں موجب حیرت ہیں،
ہاں اگر اس طرح کی تحریک کی ضرورت محسوس کی جارہی ہے، اور ظاہر ہے کہ کسی دینی تحریک کے فوائد سے انکار نہیں کیا جا سکتا، تو اپنے ہاتھ میں لگام رکھتے ہوئے آگے بڑھئے نہ، کون روک رہا ہے،
اس تحریک کے انصار و اعوان بھی دروغ گوئی سے کام لے رہے ہیں، ناقدین کے اصل اعتراض کو چھپا کر سیدھے طور پر الزام لگا رہے ہیں کہ صاحب یہ "ملوں” کا طبقہ تو بس "تحریکی اور تجدیدی کام” میں روڑے اٹکانا جانتا ہے،
اب وہی بتائیں گے کہ سارے ذخیرہ فقہ کو کرنے کا مشورہ، یہود و نصاری سے موالاۃ کی ممانعت والی آیات اور پردہ سے متعلق قرانی احکام کو ترک کرنے کا مشورہ سلف صالحین کے ذریعہ کی گئی دین کی تمام تشریحات کو کوڑے دان کے حوالہ کردینے کی تجویز، تراویح کا انکار، مرتد کی سزا پر بلا وجہ بحث اور ان کے علاؤہ ان تحریک کے ذمہ داران کے شذوذ و انحرافات "تجدیدی فکر” ہے یا تخریبی۔

Comments are closed.