کرناٹک میں سیاسی بحران, ذمہ دار کون ؟

 

احساس نایاب

(ایڈیٹر گوشہء خواتین بصیرت آن لائن شیموگہ, کرناٹک )

سابق وزیراعظم اٹل بہاری واجپئی جی نے اپنے دور اقتدار میں کہا تھا کہ اس ملک میں ہمارا اقتدار مسلمانوں سے قائم ہے, اگر اس ملک میں مسلمان ختم ہوجائیں گے تو ہم دوسرے ملک سے مسلمان لے کر آئیں گے اور یہاں بسائیں گے.

اس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ بی جے پی کا وجود مسلمانوں کے بنا بےمعنی ہے؛ کیونکہ بی جے پی ہمیشہ سے ڈر کی سیاست کرتی آئی ہے، اسلام اور مسلمانوں کے نام سے ملک کے اکثریتی طبقے یعنی ہندوؤں کو ڈرا کر ہندوتوا کے نام پہ ووٹ حاصل کرتی ہے اور گذشتہ پانچ سالوں میں ان بھاجپائیوں سے لے کر عوام کی سوچ میں جو شدت آئی ہے اُس کا سیدھا سیدھا اثر انتخابات پہ پڑا ہے اور ایک طرح سے جمہوریت کا جنازہ نکلا ہے.
جس کی جھلکیاں 2018 میں کرناٹک اسمبلی انتخابات سے دیکھنے کو مل رہی ہیں. جہاں کانگریس کو محض 80 سیٹیں ملی وہیں بی جے پی آگے رہی وہ تو غنیمت سمجھیں اسدالدین اویسی کی دوراندیشی سچ ثابت ہوئی جب جے ڈی ایس کے کمار سوامی نے اپنے 38 سیٹوں کی بنیاد پر کنگ میکر کا کام کیا اور بی جے پی اکثریت میں آنے کے باوجود کانگریس اور جے ڈی ایس کے اتحاد سے مخلوط سرکار بنی یہ اور بات ہے کہ اُس وقت بھی کانگریس اندرونی طور پہ پوری طرح سے ختم ہوچکی تھی یہی وجہ ہے کہ بی جے پی نے 2018 میں بھی اپنا سیاسی کارڈ پھینکتے ہوئے کانگریس کے کئی ایم ایل اے کو خریدنے کی کوشش کی جس کی وجہ سے کئی دنوں تک چھپا چھپی کا کھیل چلتا رہا اور لاکھ کوشیشوں کے باوجود بی جے پی گورنر کے آگے اکثریت دکھانے میں ناکام رہی اور کانگریس, جے ڈی ایس اتحاد سے
کمار سوامی نے کرناٹک کے وزیر اعلی کا حلف لے لیا.

لیکن افسوس کی بات تو یہ ہے کہ گذشتہ حالات کو جانتے بوجھتے کانگریس اور جے ڈی ایس میں سیاسی شعور بیدار نہیں ہوا خاص کر ہندوستان کی قدیم و مضبوط اپوزیشن پارٹی کہلانے والی کانگریس نے کوئی سبق نہیں سیکھا نہ ہی دیڑھ سالہ اقتدار میں ایسی کوئی منصوبہ بندی کی جس کے بنا پر 2019 میں اپنی پارٹی کے ممبران کا اعتماد جیت سکے نہ ہی ہندو ووٹ اپنے نام کرسکے.
برعکس اپنی لاشعوری , اوور کانفڈینس کی وجہ سے مسلم ووٹرس کو بھی ناراض کردیا، ہندووں کو متاثر کرنے کے چکر میں مسلمانوں کو سرے سے نکار دیا.
اور دیڑھ سالہ اقتدار محض عہدوں کی رسہ کشی میں گزاردیا. جس کا ہرجانہ 2019 لوک سبھا انتخابات میں چکانا پڑا ہے اور کرناٹک میں سیاسی ناٹک جو اسمبلی انتخابات سے چل رہا تھا وہ 23 تاریخ , 7 ماہ 2019 کو کمار سوامی کی ہار پہ جاکر ختم ہوا ہے اور اتحادی حکومت ختم ہوگئی, بی جے پی نے 105 ووٹ حاصل کرکے اکثریت ثابت کردی؛
لیکن یہاں تک پہنچنے کے باوجود بھی پکچر ابھی باقی ہے .
بی جے پی کے دو ایم ایل اے گُلاٹی مارتے ہوئے کانگریس میں شامل ہوچکے ہیں جس سے یڈیورپہ کے وزیراعلی بننے کے سپنوں پہ پھر سے پانی پھرتا نظر آرہا ہے . ابھی کرناٹک کے سیاسی دنگل کا کلائمیکس کیا ہوگا یہ دیکھنا باقی ہے.

لیکن یہاں پہ چند باتیں واضح کرنا بیحد ضروری ہے کہ گذشتہ دنوں کرناٹک میں جو تماشہ بنا ہوا ہے وہ پورے جمہوری نظام کے لئے شرم کی بات رہی ہے جبکہ کرناٹک کے سیاسی بحران کے ذمہ دار خاص طور سے دو لوگ ہیں جن میں کانگریس کے سدھ رامیا اور دوسرے جے ڈی ایس کے  کمار سوامی ہیں.
اگر یہ دونوں صحیح ہوتے تو آج کرناٹک کی سیاسی حالت اس قدر بدحال نہ ہوتی نہ ہی ان احمق بکریوں کی لڑائی میں بی جے پی نامی شاطر چیل جھپٹا مارتی
دراصل ان دونوں نے
سیاسی جماعتوں کو اپنی جاگیر سمجھا جس کے چلتے کمار سوامی اپنی فیملی کو لے کر پوری سیاست پہ حاوی ہونے کی کوشش کررہے تھے تو دوسری طرف سدھ رامیہ اپنے حامیوں کو لے کر کانگریس کو اپنے ماتحت کرنے کی کوشش کررہے تھے.
رام لنگا ریڈی, روشن بیگ اور تنویر سیٹھ جیسے کانگریس کے سنئیر لیڈرس کو نظرانداز کرنا بھی کانگریس کی سب سے بڑی بھول ثابت ہوئی ہے اگر یہ لوگ نوجوانوں کے ساتھ سینئر لیڈرس کو بھی ساتھ لیتے تو بیشک آج کرناٹک میں کانگریس کا حال دھوبی کے گدھے کے مانند نہ ہوتا؛ کیونکہ سنئیر لیڈرس اپنے جونئیرس کو کنٹرول کرتے؛ لیکن سدھ رامیہ نے خود کو کانگریس پہ اس قدر حاوی کرلیا مانو وہی کانگریس کے گاڈ فادر ہوں اور اُن کی ذات خود کانگریس ہو, اسی لالچ حماقت کا خمیازہ پوری کانگریس کو چکانا پڑرہا ہے
اور ان دونوں کی لالچ کی وجہ سے آج مخلوط حکومت کی مکمل موت ہوگئی

کاش وقت رہتے گاندھی پریوار یہاں کے سیاسی حالات کو صحیح طرح سے سمجھ پاتا اور وقتا فوقتاً جائزہ لیتا رہتا تو آج راہل گاندھی کی قائدانہ صلاحیت پہ سوال نہیں اٹھتے نہ ہی
گاندھی پریوار کی خاموشی کو ذمہ دار ٹہرایا جاتا
یہاں کئی تجزیہ نگاروں کا یہ بھی کہنا ہے کہ ان کی خاموشی ہی اس معاملے کو زیادہ طول دے رہی تھی اگر گاندھی پریوار نے سخت اقدامات کیا ہوتا تو حالات کو قابو کیا جاسکتا تھا اور کانگریس کی نیّا کنارے پر ڈوبنے سے بچ جاتی.

ویسے حقیقت تو یہی ہے کہ اس سیاسی ناٹک کی ذمہ دار خود کانگریس ہی ہے, وہ تو خوامخواہ بی جے پی کو ذمہ دار ٹہرایا گیا یہ کہہ کر کہ اُن کی اور سے آپریشن کمل کرنے کی کوشش کی گئی
ایسے میں ایک اور سوال اٹھایا جاسکتا ہے کہ جب اسمبلی انتخابات میں سبق مل چکا تھا تو اس طرح کے حالات پیدا کرنے کا موقعہ ہی کیوں دیا گیا.

ویسے بھی ہندوستان بھر میں کانگریس کی حالت جس طرح کی دکھائی دے رہی ہے ایسا لگتا ہے کہ وہ خود اقتدار پہ پہنچنا نہیں چاہتی، شاید کوئی آپسی سانٹھ گانٹھ ہو اور اگر یہ آنے والے دنوں میں اقتدار تک پہنچنا چاہیں بھی تو موجودہ حالات کے مدنظر کم از کم 15سے 20 سال لگ جائنگے.

ایسے میں مسلم رہنماء و قائدین کو چاہئیے کہ آئندہ کبھی نوٹ کے خاطر ووٹ کا سودا ہرگز نہ کریں , مسلمانوں کو بی جے پی کا ڈر دکھا کر اُنہیں اور بےوقوف نہ بنائیں
بلکہ غیروں پہ منحصر ہوکر ذلیل و خوار ہونے کے بجائے اپنوں کا ساتھ دیں اور کرناٹک کے موجودہ حالات سے سبق حاصل کریں کہ کس طرح خود کو سیکولر کہتے ہوئے بی جے پی کا خوف دلاکر مسلم ووٹوں سے جیت حاصل کرنے والے آج خود بی جے پی میں شامل ہورہے ہیں ایسے میں کسی بھی سیکولر پارٹی پہ اعتماد کرنا سب سے بڑی نادانی ناسمجھی و بیوقوفی ہوگی

اس لئے حالات کی نزاکت کو دیکھتے ہوئے ہمیں یہ فیصلہ کرنا ہوگا کہ ہم سیاست میں اپنے وجود کو باقی رکھینگے، اپنی  پہچان بنائینگے, اپنی سیاسی جماعتوں کو اتنا مضبوط کرینگے کہ مستقبل میں ہماری نسلوں کو کسی کا محتاج نہ ہونا پڑے
بھلے یہ کام مشکل ضرور ہوگا؛ لیکن ناممکن نہیں
دیکھا جائے تو 70 سالوں تک ہم نے جتنا ساتھ کانگریس کا دیا ہے اُس کا آدھا ساتھ بھی ایم آئی ایم, مسلم لیگ, ایس ڈی پی آئی جیسی مسلم پارٹیوں کو دینگے تو ان شاءاللہ آنے والی نسلوں کا مستقبل محفوظ اور روشن ہوسکتا ہے
اور اس مقصد کو کامیابی تک پہنچانے کے لئے ہمیں صبرو تحمل سے کام لینا ہوگا اور اس بات کا خیال رکھنا ہوگا کہ ایک پیڑ بھی لگاتے ہیں تو پھل ملنے کے لئے انتظار ضروری ہے اور اُس درمیان ایک مالی کی طرح پوری محنت پیار مشقت کے ساتھ اُس کو سینچنا بھی پڑتا ہے تب کہیں جاکر اُس کے حصے میں میٹھا پھل ملتا ہے
ایسے میں جلدبازی کرتے ہوئے ہمارا ناامید, مایوس ہونا بیجا ہے ؟
ہمیں تو  آج کے بجائے بہتر مستقبل کی چاہت میں کوشش کرتے رہنا ہے آج اگر ایم آئی ایم حیدرآباد سے نکل کر اورنگ آباد میں اپنے قدم جماتے ہوئے دو سیٹیں حاصل کرسکتی ہے تو بیشک آنے والے دنوں میں پورے ہندوستان میں وہ مسلمانوں کی طاقت بن کے ابھرے گی .
بشرطیکہ اپنوں کا ساتھ ہو؛
ورنہ یاد رہے مسلمانوں کے حالات کبھی نہیں بدلینگے 60 سال کانگریس کے غلام بنے رہے, 25 ,30 سال بی جے پی کے رہینگے پھر کوئی اور پارٹی سیکولرزم کا لبادہ اوڑھے ہمیں دھول چٹائے گی.
اس لئے وقت رہتے سنبھل جائیں کانگریس کے مرید بن کر اپنا اور اپنوں کا مستقبل تباہ
و برباد نہ کریں, جو پارٹی خود اپنا دفاع نہیں کرسکتی اپنی بقاء کے لئے کام نہیں کرسکتی اُس کو مردہ قرار دے دینا ہی سمجھداری ہے .
ویسے بھی کانگریس اب کانگریس نہیں رہی ب؛لکہ کئی سنگھی لیڈران اپنے گلے میں ہاتھ (کانگریس) کا پٹہ پہن کر اندرونی طور سے اس کو کھوکھلا کرچکے ہیں ابھی کھوکھلے تنے سے نئی شاخیں پھوٹنا ناممکن ہے اور اس حقیقت کو اگر آج ہم نہیں سمجھے تو اسی طرح ہمیں ڈرا کر ہمارے ووٹوں کی دلالی کی جائے گی, ہمارے حقوق سلب کئے جائینگے اور ہمارے نام سے ہوئی سیاست ہوتی رہے گی.
پھر نہ ہمیں اطمینان سے جینے دیا جائے گا نہ سکون کی موت میسر ہوگی؛ بلکہ سابق وزیر اعظم واجپائی کی کہی بات سچ ثابت ہوجائیگی جس کے ذمہ دار کوئی اور نہیں بلکہ ہم خود ہونگے …………..!

Comments are closed.