اسلام کی اجتماعی وحدت

 

محمد صابر حسین ندوی
[email protected]
7987972043

اسلام کی تعلیم کا بنیادی نقطہ یہ ہے کہ انسانوں کے مابین باہمی ربط و ضبط رہے، تفرقہ و انتشار کو اسلام نہ صرف نکارتا ہے؛ بلکہ اسے سخت مذموم قرار دیتا یے، انسانی اکائی میں اتحاد تو وہیں اسلامی بنیاد پر اتحاد کے ایسے بہت سے نمونہ تعلیمات اسلامی میں موجود ہیں، جو انہیں متحد ہونے کی دعوت دیتے ہیں، یہ تو انسانی گھمنڈ اور ان کی اندرونی خباثت ہے، جس نے انسان کے باہمی انس و اتحاد کو آگ لگا دی ہے، فرقہ بندی کا رواج پا گیا ہے، اور معمولی معمولی باتوں میں آراء کے متفرق ہونے کی بنا پر الگ جماعت بنا لینے فیشن ہوچکا ہے، یہاں تک کہ نماز جیسی عبادت کو اجتماعی دعوت کا پر تو بنانے اور سمجھنے کے بجائے اس کی روح کو ختم کرنے کی کوشش ہورہی ہے؛ بلکہ ساری اجتماعی عبادات کا یہی حال ہے، افسوس کی بات ہے کہ زمانہ جاہلیت کے انتشار کو پھر سے ہوا دی جارہی ہے، وہی قبائلی اور متفرق نظام کو ہی درست قرار دیا جارہا ہے، اب انسانی معاشرے کو جمع کرنے اور انہیں ایک ہی دھاگے میں پرونے کی کوشش ناکام ہوتی جارہی ہے، عصبیت کا طوفان اس تیزی کے ساتھ اٹھ چکا ہے؛ کہ جاہلیت دور کی یاد تازہ ہوجاتی ہے، اب سوسائٹی نہیں گھروندے بنائے جارہے ہیں، الگ الگ نظاموں میں منقسم ہو کر انسانی امتیاز اور خصوصا اسلامی خصائص کو داغدار کیا جارہا ہے، جس اسلام نے جاہلیت کے غار سے انسان کو نکال کر اجتماعی وحدت کی بہت سی اکائیاں عطا کی تھی، انہیں پس پردہ ڈال کر ایڑیوں کے بل لوٹتے کی کوشش ہورہی ہے، آج اشد ضرورت محسوس ہورہی یے کہ اسلامی اجتماعی وحدت کی تعلیم عام کی جائے اور بتایا جائے کہ کس طرح اسلام نے امت کو تسبیح کے دانے کی طرح اکھٹا کیا ہے، اور اس کیلئے نایاب طریقے اختیار کئے ہیں۔
علامہ حبیب ریحان خان ندوی ازہری کا یہ اہم اقتباس نہ صرف پڑھنے کے لائق ہے، بلکہ اس کی تبلیغ کی بھی سخت ضرورت ہے، آپ رقمطراز ہیں: "اسلام نے جس اجتماعی وحدت کی دعوت دی، اور پھر اس کو بروئے کار لایا وہ اتنی عظیم الشان ہے کہ تاریخ کو ہر وقت چیلینج کرتی رہتی ہے، اور دنیا کی تمام قوموں اور تمام نظریات کے درمیان ہمیشہ سے ضرب المثل بنی ہوئی ہے، اور تا قیامت وہ معجزہ کی طرح باقی رہے گی۔۔۔۔۔۔ اسلام نے پوری قوت کے ساتھ یہ اعلان کردیا کہ تمام نوع انسانی و جنس بشری ایک وحدت ہے، ہر شخص قانون کی نظر میں برابر ہے، اور واجبات و فرائض کا جوابدہ ہے، کسی جنس کو کسی جنس پر یا کسی شخص کو دوسرے شخص پر کوئی افضلیت نہیں۔ اسلام نے پہلے دن سے ہی جاہلیت کے غرور کو توڑ کر رکھ دیا، نسب و حسب پر فخر کرنا حرام قرار دیا، اور اس پر اس طرح آہنی ضرب لگائی: "يا أيها الناس إنا خلقنا كم من ذكر وأنثى وجعلنكم شعوبا وقبائل لتعارفوا، إن أكرمكم عند الله أتقاكم” (حجرات:١٣)۔
حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا: "كلكم من آدم و آدم من تراب، لا فضل لعربي على عجمي الا بالتقوى”……..
اسلام نے جو عبادتیں فرض کی ہیں، اجتماعی وحدت میں ان کا بھی بڑا اثر ہے، اور وہ اجتماعی اتحاد کو مضبوط اور مستحکم بنانے میں معین اور مددگار ثابت ہوتی ہیں، سب کےلیے ایک ہی وقت میں نماز، ایک ہی مہینہ میں روزہ، ایک ہی قبلہ کی طرف رخ، ایک ہی وقت میں حج اور ایک ہی قانون کے ماتحت زکوۃ”۔ (علامہ حبیب ریحان خان ندوی ازہری_ حیات و تصنیفات: ۱۶۵)

Comments are closed.