Baseerat Online News Portal

کرناٹک میں حکومت گرانے کا ذمہ دار کون؟

نازش ہما قاسمی
کرناٹک میں ۱۴ ماہ قبل بنی حکومت کا اپنوں کی بے وفائی اور دغا بازی سے خاتمہ ہوگیاہے۔ کرناٹک میں دو ہفتے سے چل رہے سیاسی ناٹک کا خاتمہ اس طرح سے ہوگا لوگوں کو یقین ہی نہیں ہورہا تھا؛ لیکن ایسا ہوا۔۔۔۔ اور کیوں ہوا؟۔۔۔ اس کے پیچھے بہت سارے سوالات ہیں۔ جن کے جوابات کانگریس اعلیٰ کمان کو بھی پتہ ہے اور جے ڈی ایس کے سربراہ وقیادت کو بھی علم ہے ۔ بی جے پی اپنے دھن میں کام کررہی ہے ۔۔۔اور مسلسل اپنے عزائم کی تکمیل کی راہ پر گامزن ہے۔ ہر روڑے کو ہٹا رہی ہے اور ہر بنجر زمین کو ہموار کرکے کامیابی کے راستے پر جارہی ہے جو اس کا مشن تھا اس مشن میں مکمل یکسوئی کے ساتھ اعلیٰ کمان سے لے کر ادنی کارکنان تک محنت کررہے ہیں۔ تن سے من سے دھن سے جہاں جیسی ضرورت ہے ویسا کررہی ہے اور کامیابی قدم چوم رہی ہے۔ بی جے پی ہر اس ریاست کو اپنے قبضے میں لے لے گی جہاں غیر بی جے پی کی حکومت ہے اس طرح اکھنڈ بھارت پر بھگوا پرچم لہرانے سے کوئی نہیں روک سکتا اور اس کا کریڈٹ اپوزیشن پارٹیوں کی آپسی ناچاقی، تال میل کی کمی اور انا پرستی کو جاتی ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ عوام نے انہیں دھتکار دیا ہے سیکولرازم پسند عوام کی اب بھی یہی خواہش ہے کہ ملک میں سیکولرازم کا راج ہو اور سیکولر پارٹی برسراقتدار ہو؛ تاکہ ترقی کی رفتار تیزی سے بڑھے۔ کسانوں کی فلاح وبہبودی کے کام ہوں، غریبوں کے لیے خصوصی اسکیمیں جاری کی جائیں، بے روزگاروں کو روزگار سے جوڑا جائے۔ جس طرح جی ڈی پی کی شرح پہلے تھی اس سے زیادہ ہوجائے، آئے دن بے شرموں کی طرح نہ گرے جیسا کہ برسراقتدار پارٹی کی حکومت میں گر رہا ہے۔ مہنگائی اپنے شباب پر ہے۔ پھر بھی وہ کامیاب ہورہی ہے، عوام کی اکثریت اسے پسند کررہی ہے ایسا کیوں؟۔۔۔۔؛کیوں کہ اس نے جو خواب دکھایا ہے، ذہنوں میں جو حشیش کا نشہ چھوڑا ہے وہاں غریبی، بھکمری، بے روزگاری آڑے نہیں آتی؛ بلکہ عوام ان سب سے بے پرواہ ہوکر دکھائے گئے خواب کی تکمیل میں جان کی بازی لگا کر اپنے رہنمائوں کو کامیاب کرتے ہیں۔ آج اکثریتوں کے ذہن کو نفرت سے بھر دیاگیا ہے انہیں بھوک کی پرواہ نہیں، پیاس کی پرواہ نہیں، بے روزگاری کوئی مسئلہ نہیں انہیں بس خواب کو شرمندہ تعبیر کرنا ہے اور مکمل ہندوستان کو بھگوا رنگ میں رنگنا ہے ۔
۱۴ ماہ قبل جب کرناٹک میں مخلوط حکومت کا قیام ہورہا تھا تو ایک عجیب سی خوشی اپوزیشن میں تھی کہ یہاں سیکولر حکومت قائم ہونے جارہی ہے اور اس سیکولر حکومت کے قیام کی خوبصورتی یہ تھی کہ اس میں ملک بھر کے تمام اپوزیشن لیڈروں نے ایک ساتھ ایک اسٹیج پر کھڑے ہوکر اتحاد کا پیغام دیا تھا ۔۔۔ملک میں بھگوا طاقتوں پر لگام کسنے کا عندیہ دیا تھا۔ یہ الیکشن عام انتخابات سے قبل ہوئے تھے، قیاس یہ بھی لگایاجارہا تھا کہ یہ منی جنرل الیکشن عام انتخابات پر اثر انداز ہوگا؛ لیکن ایسا نہیں ہوا اور اپوزیشن عام انتخابات میں چارو خانے چت ہوگئی۔ خیر کرناٹک میں مخلوط حکومت ٹوٹی بیساکھی پر چل رہی تھی۔۔۔اس کے قیام سے لے کر ہی سازشیں ہورہی تھیں کہ اسے کسی طرح گرادیا جائے ۔۔۔مشن کنول کا استعمال کیاگیا؛ لیکن ناکامی ہوئی ۔۔۔پھر کانگریس جے ڈی ایس کے ممبران اسمبلی نے ہی اپنے پائوں پر کلہاڑی مارنی شروع کردی۔۔۔اور اس طرح ۱۴ ماہ قبل جو خواب دیکھا گیا تھا وہ اپنوں کی بے وفائی اور دغا بازی سے چکنا چور ہوگئی۔ اب وہاں بی جے پی کی حکومت قائم ہونے جارہی ہے۔۔۔بی جے پی کا کانگریس مکت خواب دھیرے دھیرے پورا ہوتا جارہا ہے۔ آج کرناٹک کی حکومت گری ہے۔ کل راجستھان اور پرسوں مدھیہ پردیش کی بھی حکومت جاسکتی ہے ۔ یہ پیشین گوئی حقیقت میں بدل سکتی ہے؛ کیوں کہ کانگریس کو ڈبونے والے ان کے اپنے ہی ہیں، اگر باغی ممبران اسمبلی پارٹی کے مفاد میں کام کرتے تو آج کرناٹک کی حکومت باقی رہتی؛ لیکن ایسا نہیں ہوا۔ اور عوام بھی چاہتی ہے کہ ایسا نہ ہو۔۔کانگریس کو اس کے پاپوں کی سزا ملنی ضروری ہے۔ کانگریس کے پاپوں کا گھڑا بھر چکا ہے اور وہ اس پوزیشن میں ہے کہ نہ اس کے پاس کوئی ناخدا ہے نہ کوئی کھیون ہار جو اس کی ڈوبتی کشتی کو بھنور سے نکال سکے۔ کانگریس نے خود ا یسے ممبران کو اپنی پارٹی میں لیا جو حقیقتاً اس کی پارٹی کے نہیں تھے، جو سیکولر نہیں تھے، جو مکھوٹا پہن کر کانگریس میں صرف اسے زعفرانی کرنے اور اسے کھوکھلا کرنے کےلیے آئے تھے اورکانگریس کو آر ایس ایس کی بی ٹیم بناکر اور کھوکھلا کرکے چلے گئے۔ کانگریس نے نرم ہندوتوا کا بھی کارڈ کھیلا؛ لیکن یہ بھی کام نہ رہا اور اب اس کی ایسی حالت ہوگئی ہے کہ اس سے ابھرنا ممکن نظر نہیں آرہا۔ مسلمان بھی کانگریس کے ذریعے دئے گئے ناسور سے پریشان ہیں اور اکثریتی طبقے کے دلوں پر تو مودی راج کررہے ہیں پھر کیسے کانگریس ابھرے گی۔ مسلمان کبھی کنگ میکر ہوا کرتے تھے؛ لیکن اب ان میں بھی وہ قوت نہیں رہی جو یکطرفہ طور پر کانگریس کی حمایت کرکے اسے اقتدار سونپ سکے۔

Comments are closed.