Baseerat Online News Portal

یہ کیسے دانشور ہیں کہ ان کی نظر میں ماب لنچنگ کوئی مسئلہ نہیں ہے؟

شکیل رشید
کیاآپ جانتے ہیں کہ ’ ماب لنچنگ‘ بھارت میں کوئی مسئلہ ہی نہیں ہے !؟
شاید آپ کو یہ بھی نہ پتہ ہو کہ ہندوستان میں تمام ہی اقلیتیں بشمول مسلمان اور دلت محفوظ ہیں، اور ملک نہ ہی نظم ونسق کے مسئلے سے دوچار ہے اور نہ ہی یہاں فرقہ پرستی کوئی مسئلہ ہے اور نہ اس ملک کے لوگوں میں خوف وہراس کا عالم ہے !
لہٰذا جب اس ملک میں ’ ماب لنچنگ‘ کوئی مسئلہ نہیں ہے اور ملک کاہر شہری بغیر کسی طرح کے خوف کے ہنسی خوشی دن گذار رہا ہے اور یہاں نظم ونسق پوری طرح سے برقرار ہے تو آپ ۔۔۔ یا جولوگ بھی ۔۔۔ ’ ماب لنچنگ‘ کو مسئلہ بناتے اور اس تعلق سے حکام کو ، بالخصوص وزیراعظم نریندر موی کو خطوط لکھتے ہیں وہ ’ حماقت‘ کرتے ہیں ، انہیں اس تعلق سے اپنی زبان نہیں کھولنا چاہیئے!
یہ میرے الفاظ نہیں ہیں ، اور ہو بھی نہیں سکتے کہ ’ ماب لنچنگ‘ میری نظر میں مسئلہ ہی نہیں ، انتہائی سنگین اور خطرناک مسئلہ ہے ، بلکہ فلم اداکارہ سورابھاسکر کی زبان میں ’ ماب لنچنگـ ‘ ایک ’وبا‘ ہے ۔۔۔ یہ ان 61 ’ اہم ترین شخصیات‘ کے ،جن کا تعلق فلم ، موسیقی اور سیاست وثقافت کی دنیا سے ہے ، جنہیں کچھ لوگ ’ دانشور‘ بھی کہتے ہیں۔۔۔ وہ شخصیات جنہوں نے اُن دوسری 49 ’ اہم ترین شخصیات‘ کے ، جو خود بھی فلم ، موسیقی، ثقافت کی دنیا سے تعلق رکھتی ہیں اور جن میں سے کچھ کو واقعی دانشور کہا جاسکتا ہے ، ایک خط کے جواب میں جو خط لکھا ہے ، اس کے ’ خیالات‘ کا ’نچوڑ‘ ہے ۔ یوں بھی کہا جاسکتا ہے کہ ان 61 افراد نے ’ ماب لنچنگ‘ کو ’ مسئلہ ‘ قرار دینے اور اس تعلق سے وزیراعظم نریندر مودی کو خط لکھنے کے ’ جرم ‘ میں 49 افراد کو گویا کہ ڈانٹ پلائی ہے ، کہ بس اب اپنی زبان بند بھی رکھو!
پہلے اس خط کا ایک جائزہ لے لیتے ہیں جو ملک کی 49 ’ اہم ترین شخصیات‘ کی طر ف سے وزیراعظم کو بھیجا گیا تھا ۔ اس میں وزیراعظم کو مخاطب کرتے ہوئے کہا گیا تھا کہ’’عزیز وزیراعظم مسلمانوں ، دلتوں اور دیگر اقلیتوں کی لنچنگ پر فوراً روک لگنی چاہیئے ۔ نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو( این سی آر بی) کی رپورٹ سے یہ جانکاری پاکر ہمیں سخت تشویش ہوئی کہ 2016 میں ملک میں دلتوں پر مظالم کے 840 سے زائد واقعات ہوئے ، جبکہ سزا پانے والوں کے فیصد میں بہت ہی کمی آئی ۔ شری وزیراعظم آپ نے پارلیمنٹ کے اندر لنچنگ کے ایسے واقعات پر تنقید کی ہے ، مگریہ کافی نہیں ہے ، ہم شدت سے محسوس کرتے ہیں کہ اس طرح کے جرائم کو غیر ضمانتی قرار دینا چاہیئے ۔۔۔ حکمراں جماعت پر تنقید کا مطلب قوم پر تنقید نہیں سمجھنا چاہیئے ۔ کوئی بھی حکمراں جماعت ، اس ملک کے مترادف نہیں ہوتی جس پر اس کا اقتدار ہوتا ہے ۔ لہٰذا حکومت مخالف موقف کو قوم مخالف احساسات قرار نہیں دینا چاہیئے ۔ ایک کھلا ہوا ماحول جہاں اختلاف رائے کو کچلا نہ جاتا ہو قوم کو طاقتور بناتا ہے ۔ ‘‘ اس خط میں ’ جے شری رام‘ کے حوالے سے بھی بات کی گئی ہے ۔ ’’ افسوس کہ ’جے شری رام ‘ کو آج ایک ایسے پیش قدمی والے جنگی نعرے میں تبدیل کردیا گیا ہے جس سے نظم ونسق کے مسائل اٹھ کھڑے ہوئے ہیں اور بہت سی ’ لنچنگ‘ اسی نام کے ساتھ کی جارہی ہیں ۔ یہ امر تشویشناک ہے کہ اسقدر تشدد مذہب کے نام پر کیا جائے ! یہ وسطی دور نہیں ہے ! بھارت کے اکثریتی فرقے میں بہتوں کے لئے رام کا نام مقد س ہے ۔ اس ملک کے اعلیٰ ترین ایکزی کیٹو ہونے کے ناطے آپ کو رام کے نام کی اس طرح سے توہین کو ہر طرح سے روکنا ہوگا ۔ ‘‘
اس خط کو جن افراد نے بھیجا ہے ان میں اپرناسین ، مورخ رام چندرگوہا ، بنائک سین ، سومتروچٹرجی‘ ریواتھی ، شیام بینگل ، شبھا مدگل ، روپم اسلام، انوپما رائے وغیرہ وغیرہ شامل ہیں ۔۔۔ اس خط پر اگر غور کیا جائے تو اسے بھیجنے والی شخصیات کی بجا تشویش سامنے آتی ہے ، یہ تشویش کہ ملک میں مذہب کے نام پر تشدد کا بازار گرم ہے اور آج ’ جے شری رام‘ کو ایک جنگی نعرے میں تبدیل کردیا گیا ہے اور لوگوں پر جبر کرکے یہ نعرہ لگوایا جاتا ہے اور مجبور نعرہ لگانے کے بعد بھی تشدد سے بچ نہیں پاتے ۔۔۔ خط کے 49 دستخط کنندگان نے بجا طور پر اسے ’رام ‘ کے نام کی ’توہین‘ قرار دیا ہے ۔۔۔ اس خط سے ملک بھر کی اقلیتوں بشمول مسلمانوں اور دلتوں میں پائے جانے والے خوف وہراس اور اندیشوں کا بھی اظہار ہوتا ہے ۔ خط میں کسی بھی سیاسی پارٹی کو نشانہ نہیں بنایا گیا ہے اور نہ ہی کسی ’نظریے‘ پر انگلی اٹھائی گئی ہے ، ہاں اس حقیقت کا اظہار ضرور کیا گیا ہے کہ ’ حکمراں جماعت چاہے جو ہو وہ ملک کا مترادف نہیں ہوتی ۔ ‘
بی جے پی تو خود کو ’ملک‘ سمجھتی ہے لہٰذا اسے یہ لگ سکتا ہیکہ یہ خط اس کے خلاف لکھا گیا ہے ، اور وزیراعظم مودی بھی یہ سوچ سکتے ہیں کہ چونکہ خط بھیجنے والی یہ 49 شخصیات بی جے پی کو ’ ملک ‘ نہیں سمجھتیں لہٰذا یہ مودی کو بھی ملک کے ’ سیاہ وسفید کا مالک ‘ نہیں سمجھتی ہونگی۔ اور آج جو بھی مودی کو ملک کے سیاہ وسفید کا مالک نہ سمجھے اسے تو ملک اور قوم کا دشمن ہی سمجھا جاتا ہے !!وہ جو ’ جے شری رام‘ کے نعرے لگواتے ہیں چونکہ ایک مخصوص فکر اور نظریہ سے تعلق رکھتے ہیں اس لئے انہیں بھی اس خط کی یہ بات خراب لگ سکتی ہیکہ ’ رام کے نام کی توہین کی جارہی ہے ۔ ‘لیکن یہ سچ ہی تو ہے ۔ اس ملک میں چونکہ یہ ہورہا ہے اور امریکی وزارت خارجہ سے لے کر اقوام متحدہ اور خود بھارت کی اپنی پارلیمنٹ تک میں اس ’ مسئلہ‘ پر اظہار تشویش کیا جاچکا ہے ، اس لئے جب ’ ماب لنچنگ‘ پر کوئی بات کرے گا تو اسے ’ مسئلہ‘ ہی قرار دے گا اور چونکہ وزیراعظم مودی نے خود اس پر اظہار تشویش کیا ہے اس لئے ان سے بھی یہی گذارش کرے گا کہ اس پر وہ روک لگائیں ۔۔۔ اس ملک میں جگہ جگہ جو احتجاجات اورمظاہرے ’ ماب لنچنگ‘ کے خلاف ہوئے اورہورہے ہیں اور جس طرح سے سپریم کورٹ نے ’ ماب لنچنگ‘ کے واقعات پر مرکز سمیت ملک کی دس ریاستوں کو نوٹس جاری کیا ہے ، اس سے یہ حقیقت خوب واضح ہوجاتی ہیکہ ’ ماب لنچنگ‘ اس ملک کا’ مسئلہ‘ ہے ۔ یہ ’وبا‘ جو ہے وہ ’ نظم ونسق‘ کو بگاڑ رہی ہے ۔۔۔ اور ملک کی اقلیتیں خود کو غیر محفوظ سمجھ رہی ہیں ، لہٰذا ملک کے وزیراعظم کو اس تعلق سے خلوص اور ایمانداری سے کارروائی کرنا ہوگی ۔
لیکن ایک گروپ مزید ہے ، نام نہاد دانشوروں کا ، فلم ، موسیقی اور ثقافت ودیگر شعبۂ جات سے تعلق رکھنے والی ’ اہم شخصیات‘ کا ، جنہیں کچھ لوگ ’ دانشور‘ بھی قرار دیتے ہیں ، جنہیں ’ماب لنچنگ‘ کوئی ’ مسئلہ‘ نہیں لگتا ۔۔۔ اس گروپ نے 49 ’ اہم شخصیات‘ کے پہلے گروپ کے جواب میں وزیراعظم کے نام خط لکھ کر ملک کے موجودہ حالات پر ۔۔۔۔خوف وہراس کی فضا پر ۔۔۔۔ کچھ نہیں کہا ہے، صرف 49 شخصیات پر جم کر نکتہ چینی اور تنقید کی ہے ۔ انہیں ’’قوم کا خودساختہ محافظ اور باضمیر افراد‘‘ کہا ہے ! خط کا آغاز اس طرح ہوتا ہے کہ ’’ایک کھلے خط نے ، جو23 جولائی 2019 کو شائع ہوا ، اور جو وزیراعظم شری نریندر مودی کے نام تھا ہمیں حیران کردیا ۔۔۔‘‘مکتوب نگاروں کے مطابق 49 شخصیات کی ’’تشویشات منتخب ہیں‘‘ ان کے مطابق انہوں نے ’’ واضح سیاسی عصبیت اور نیت کا اظہار کیا ہے ۔‘‘ وہ 49 شخصیات کے خط کو ’ جھوٹ پر مبنی بیانیہ‘ قرار دیتے ہیں ، اور ان کے مطابق اس خط سے وزیراعظم کی ’ ’انتھک کوششوں کو منفی انداز میں پیش کیا گیا ہے ۔‘‘ان 61 ’ اہم شخصیات‘ اور نام نہاد دانشوران کو پہلے گروپ سے ’ ’چندبڑی شکائتیں‘‘ ہیں ، ایک شکایت تو یہ ہیکہ ان سب سے نے اس وقت ’ خاموشی‘ برقرار رکھی جب قبائلی اور انتہائی پسماندہ افراد ’نکسل دہشت گردی‘ کی بھینٹ چڑھ رہے تھے ۔ ایک شکایت یہ بھی ہیکہ یہ اس وقت بھی ’خاموش‘ رہے جب علحیدگی پسندوں نے کشمیر میں اسکولوں کو بموں سے اڑانے کی دھمکیاں دی تھیں ۔ انہیں ایک بڑی شکایت یہ بھی ہیکہ جب لوگوں کو ’ جے شری رام‘ کہنے کے ’ جرم‘ میں پابند سلاسل کیا جارہا تھا تب بھی ان کی ’ خاموشی‘ نہیں ٹوٹی تھی۔ ایک شکایت مغربی بنگال میں 2018 کے پنچایت انتخابات میں بڑےپیمانے پرتشدد کی وارداتوں پر ان کی ’خاموشی‘ بھی ہے ۔ ایک بڑی شکایت یہ بھی ہے کہ ’ بھارت کو ٹکڑے ٹکڑے‘ کرنے کے مطالبات پر بھی یہ 49 شخصیات ’ خاموش‘ تھیں ۔ یہ 61 شخصیات پہلے گروپ کے ذریعے ’ حکومت کی مخالفت‘ کو ’ قوم کی مخالفت‘ نہ قرار دیئے جانے کی بات پر کہتی ہیں کہ مودی راج میں تو اظہار رائے کی آزادی ایسی رہی ہیکہ چاہے جو حکومت پر نکتہ چینی اور تنقید کرے اسے کچھ نہیں کہا گیا ۔ یہ 61شخصیات جن میں مدھر بھنڈارکر ، کنگنارناؤت ، پرسون جوشی وغیرہ شامل ہیں ، پہلے 49 شخصیات کے ذریعے وزیراعظم کے نام خط کو’’جھوٹا اور غلط بیانیہ‘‘ قرار دیتی ہیں یعنی یہ کہ 49 افراد نے ’ ماب لنچنگ‘ کو ’ مسئلہ‘ بناکر جو پیش کیا ہے وہ بھی جھوٹا ہے اور یہ بھی جھوٹ بات ہیکہ’ جے شری رام‘ کو’ جنگی نعرے ‘ میں تبدیل کردیا گیا ہے ۔ ان کے مطابق ’ بھارت میں تو لوگ چین ، امن اور سکون سے زندگی گذار رہے ہیں اور کچھ لوگ بس اپنی ’سیاسی عصبیت اور نیت ‘ کی وجہ سے مودی سرکار کی ’منفی تصویر‘ پیش کررہے ہیں ۔ سوال یہ ہیکہ یہ جو 2014 میں ’مودی راج‘ کے قیام کے بعد محمد اخلاق کی ’لنچنگ‘ سے ہجومی تشدد کا سلسلہ شروع ہوا ہے جس کی بھینٹ زاہد احمد بھٹ ، محمد حسین ، نسیم بانو، عثمان انصاری ، پہلو خان ، افروزول ، مدھوچندکائی ، بالوسرویا، پروین پجاری، سبودھ کمار سنگھ اور تبریز انصاری اور نہ جانے مزید کتنے مسلمان ، دلت اور پچھڑے چڑھ چکے ہیں کیا واقعی جھوٹ، فریب، فرضی اور کذب وافتراء ہے ؟؟ یہ سب تو بالکل اسی طرح سے حقیقت ہے جس طرح سے کہ اسے سچ نہ ماننے والوں کا یہ گروپ اپنا وجود رکھتا ہے۔۔۔ اور ایک سوال اس گروپ سے ، بھلاجب گجرات جل رہا تھا ، جب بابری مسجد شہید کی جارہی تھی ، جب دلت خواتین کو عریاں کرکے گاوؤں میں گھمایا جارہا تھا، جب کشمیر میں چھرّے کی فائرنگ کر نوجون لڑکے لڑکیوں کو اندھا بنایا جارہا تھا ، جب قبائلیوں اور آدی واسیوںکی زمینیں ہتھیانے اور ملٹی نیشنل کمپنیوں کو سونپنے کے لئے جنگل کاٹے اور انہیں بے گھر کیا جارہا تھا، تب یہ سب لوگ کہاں تھے، کیا یہ ’خاموش‘ نہیں تھے ؟؟ یہ خاموش تھے پر ،پہلے گروپ کی شخصیات اسی طرح سے اْس وقت بھی بول رہی تھیں جیسے آج بول رہی ہیں۔۔۔ کنگنارناؤت ، مدھر بھنڈارکر، پرسون جوشی سمیت ان 61 شخصیات نے وزیراعظم کے نام خط لکھ کر اپنی اس صورت کو ، جو پہلے بھی کچھ چھپی نہ تھی ، مزید عیاں کردیا ہے ۔ یہ صورت فرقہ پرستی ، مسلم اور دلت دشمنی اور عصبیت کے زہر سے پہلے ہی بدصورت تھی اب بدصورت ترین بن گئی ہے ۔

Comments are closed.