اب نابالغ مسلم بچے نشانے پر! کیوں سیکولر سیاسی پارٹیوں کے کانوں پر جوں نہیں رینگتی؟

تجزیہ خبر: شکیل رشید

ساحل، فیض اور خالد یہ تینوں یوں تو اس ملک کے تین الگ الگ خطوں سے تعلق رکھتے ہیں یا رکھتے تھےمگران میں ایک قدر مشترک یہ ہے کہ تینوں ہی نابالغ تھے۔ مزید ایک اور قدرمشترک ہے، تینوں ’ماب لنچنگ‘ کے شکار ہوئے۔ ساحل کی عمر ایک اطلاع کے مطابق ۱۶ سال اور دوسری اطلاع کے مطابق ۱۴ ساحل کی تھی، اسے ملک کی راجدھانی دہلی کے آدرش نگر علاقے میں مکیش نامی ایک ایک یرقانی یا بالفاظ دیگر ہندوتوادی آتنک وادی نے پیٹ پیٹ کر مارڈالا۔ کیوں؟ اس شک میں کہ وہ اس کے گھر میں چوری کی نیت سے داخل ہوا تھا! اس ملک کا قانون بھی کسی چور کو موت کی سزا نہیں دیتا پر یہ جو اس ملک کے حکمرانوں کی چھترچھایا میں درندوں کی ایک بھیڑ ان دنوں سڑکوں، چوراہوں اور مختلف جگہوں پر لوگوں کو ’جے شری رام‘ کے نعرے لگواتے پھر رہی ہے، وہ چوری کے الزام کو کسی کی جان لینے کےلیے کافی سمجھتی ہے! کسی کو موت کے گھاٹ اتارنے کےلیے ۔۔۔یہاں کسی سے مراد کوئی برہمن، ٹھاکر یا اعلیٰ ذات کا کوئی ہندو نہیں، مراد کوئی مسلمان یا پھر دلت ہے۔۔۔بس اس پر یہ الزام لگا دینا اس کےلیے کافی ہے کہ یہ چوری، بالخصوص مویشیوں کی چوری کےلیے گھر کے یا گائوں کے اندر گھسا تھا۔
ساحل کمسن تھا، ابھی وہ بالغ نہیں ہوا تھا، لیکن مکیش کو اسے پیٹ پیٹ کر موت کے گھاٹ اتارتے ہوئے قطعی رحم نہیں آیا ۔ پہلے اس بچے کو رسیوں سے جکڑا گیا اور پھر پیٹ پیٹ کر اس کی جان لے لی گئی۔ ساحل کے والدین اپنے مرحوم بچے کو ’چور‘ ماننے سے انکار کرتے ہیں۔ ان کی بات کیو ںنہ مانی جائے، مکیش کی بات کیوں مانی جائے جو کہ ’قاتل‘ ہے؟
فیض کا واقعہ دیکھئے: فیض ۱۷ سالہ نوجوان تھا، اس کا قصور صرف یہ تھا کہ اسے ایک قبائلی لڑکی سے عشق تھا، قبائلی لڑکی کے رشتے داروں نے فیض کو اس قدر پیٹا کہ اس کی موت ہوگئی۔ یہ واقعہ گجرات کے ضلع بھڑوچ کے جھاگاڈیہ قصبے کا ہے۔ اس ملک میں ’عشق‘ کو بھی مذہب اور ذات پات میں تقسیم کردیاگیا ہے۔ یہ ہندو تو وادیوں کی نظر میں ’لوجہاد‘ تھا۔ اب تو بی جے پی کے ایک نیتا رنجیت شریواستو نے ، جن کا تعلق یوپی کے ضلع بارہ بنکی سے ہےیہ شوشہ چھوڑ دیا ہے کہ ’’مسلمانوں کے گھروں میں گائے کا ہونا بھی لوجہاد ہے‘‘۔ یعنی اگر کسی مسلمان کے گھر میں دودھ دہی او رمٹھا وغیرہ کےلیے گائے یا گائیں پالی جاتی ہیں تو وہ گھر ’لوجہاد‘ کا مرتکب ہورہا ہے اور اگر اس گھر کے مکینوں کو پیٹ پیٹ کر مارڈالا جائے تو جائز ہے! جی ہاں ! اب یہ ملک مسلمانوںسے’نفرت‘ کی اس حد کو پہنچ گیا ہے جہاں سے واپسی بہت مشکل ہے۔
خالد کا معاملہ یوپی کے چندولی کا ہے۔ اس کی موت نہیں ہوئی ہے پرایک خبر کے مطابق یہ ۴۵ فیصد اور دوسری خبر کے مطابق ۶۵ فیصد جل گیا ہے اور وارانسی کے ایک اسپتال میں زیر علاج ہے۔ یہ خو د نہیں جلا، یا اس کا جلنا کوئی حادثہ نہیں تھا، ہندوتو وادیوں یا ہجومی دہشت گردوں نے اسے جلایا، اس کا قصور صرف یہ تھا کہ اس نے ’جے شری رام‘ کا نعرہ لگانے سے انکار کردیاتھا۔ پولس نے یہ دعویٰ کردیا ہے کہ اس ۱۵ سالہ بچے کا یہ کہنا کہ اسے اس لیے جلایاگیا کہ اس نے ’جے شری رام‘ کا نعرہ لگانے سے انکار کردیاتھا غلط ہے۔ ہم یہاں سوال پولس کی چھان بین پر نہیں اُٹھارہے ہیں لیکن اتنا ضرور دریافت کریں گے کہ پولس یہ کیسے مان لیتی ہے کہ ہجومی بھیڑ نے جنہیں پیٹ پیٹ کر مارا ہے وہ واقعی میں ’مویشی چور‘ یا ’چور‘ تھے یا ان میں سے جو بچ گئے وہ ’جھوٹ‘ بول رہے ہیں؟؟ پولس کی طرف سے بلکہ تبریز انصاری کے معاملے میں تو وزیراعلیٰ بہار نتیش کمار کی طرف سے بھی یہ بیان آیا تھا کہ’’ یہ ماب لنچنگ نہیں یہ تو چور کی پٹائی ہوئی ہے‘‘۔
افسوس یہ ہے کہ ان خوفناک اور شرمناک واقعات پر ساری سیاسی پارٹیاں چپ سادھے ہوئے ہیں۔ کانگریس یا سماج وادی پارٹی یا بی ایس پی وغیرہ کے کسی لیڈر کی طرف سے کبھی کبھی کوئی بیان آجاتا ہے بس ! جیسےکہ امیٹھی کے گوڑئیں کے پروا میں فوج کے ایک مستعفی کپتان امان اللہ کو پیٹ پیٹ کر مارے جانے پر پنجاب کے وزیراعلیٰ کپتان امریندر سنگھ کا بیان۔ پرینکا گاندھی نے بھی اس معاملے میں بیان دیا ہے پر وہ خالص سیاسی نوعیت کا ہے۔ سوال یہ ہے کہ بی جے پی تو مسلمانوں کو حاشیے پر لگا ہی رہی ہے کیا دوسری تمام سیاسی پارٹیاں۔۔۔وہ بھی جو سیکولر کہلاتی ہیں۔۔۔مسلمانوں کو بھول چکی ہیں، یا بی جے پی کے مسلمانوں کو حاشیئے پر لگانے کے کام میں کسی نہ کسی طرح سے اس کی ساتھی بنی ہوئی ہیں؟

Comments are closed.