آج سیدی علی میاں ندوی رحمہ الله بہت یاد آئے!!!

 

محمد صابر حسین ندوی
[email protected]
7987972043

ہندوستان میں اسلامی شخصیات کی کمی نہیں، نہ ماضی میں اہل علم کی کمی تھی اور نہ آج ہے، لیکن وہ گل سرسبد، باغ کا گلاب اور مہ پارہ و شہ پارہ جس کے جہد مسلسل سے اسلامی معاشرے کی کھیتی سینچی گئی، انسانیت لہلہا اٹھی، اسلامی اقدار انسانی زندگی میں پیوست ہوگئے، اور وہ جو ہر محاذ پر اسلام کےلیے سینہ سپر ہو گیا، اور قیادت یوں نبھائی؛ کہ چشم فلک بھی رشک کرے، وہ شخصیت کوئی اور نہیں مفکر اسلام سیدی ابوالحسن علی ندوی رحمہ اللہ کی تھی، آپ کے عظیم کارناموں میں سے ایک کی مختصر روداد پڑھیے: بات اس وقت کی ہے جب اسلامک لا میں سیندھ لگانے کی کوشش کی جارہی تھی، ملک کی آزادی کے بعد گاہے گاہے مختلف فیہ شوشے چھوڑ کر مسلم پرسنل لا میں مداخلت کی فضا بنائی جارہی تھی، جس کےلیے ملک کی متعدد پارٹیاں کمر کس چکی تھیں، اور اس مشن کو انجام دینے کےلیے حیلۃ الشیطان کا ایک چہرہ شاہ بانو کی صورت میں مل گیا تھا، جو طلاق کے باوجود نفقہ پر بضد تھی، اسے اسلام سے زیادہ دنیاوی قانون عادل نظر آتا تھا، وہ سمجھتی تھی کہ عدالت عظمی اور سفید پوش رہنماؤں کی رہنمائی میں اسلامی شریعت اور پرسنل لا کو زخمی کر دے گی؛ لیکن وہ بھول گئی کہ سیدی علی میاں زندہ ہیں۔
آپ نے ملک گیر تحریک چلائی، اپنوں کو ساتھ لیا، پرایوں کو ساتھ لیا، مسلکی اختلافات کو کنارہ کرتے ہوئے؛ ایک کلمہ لا الہ پر سب کو جمع کیا، اپنے دل کی سوز اور جگر کی طاقت نیز خدائے وحید کی نصرت و مدد اور اس سے گہرے لگاؤ کے ساتھ حکومت ہند سے افہام و تفہیم کی مہم شروع کردی، آپ نے علما کی جماعت تیار کی جو ملک میں کام کرتے اور ایک خاص جماعت بنائی جس میں اپنے رفیق مولانا منت اللہ رحمانی کو ساتھ لیا اور ایوان بالا تک پہنچ گئے، راجیو گاندھی کی چوکھٹ پر دستک دی، اسلام کے نظام عدل کو سمجھایا، قرآن وحدیث کے مدلولات اور اشکالات کی تشریح کی، ایک بار نہیں کئی کئی بار ملاقات کی، رات رات بھر جاگ کر عوام اور نیتاوں سے رابطے کیے، اور پھر فیصلے کے دن اور رات کو لکھنؤ کے ایک پارک میں عوام کو لےکر بیٹھ گئے، رات بھر جلسہ چلا؛ لیکن مولانا نے کاروان زندگی میں لکھا ہے کہ کوئی اپنی جگہ سے نہیں ہلا، بلکہ انتہا تو یہ ہے کہ صبح کو کہیں پر بھی موم پھلی کے چھلکے تک نہیں پائے گئے۔
اسی موقع کا ایک واقعہ ہے کہ مولانا سے راجیو گاندھی نے یہ کہہ کر شاہ بانو کیس میں ساتھ دیا تھا، کہ آپ خالص دین چاہتے ہیں، اس میں کوئی سیاست نظر نہیں آتی، آپ کے دل کی تڑپ قابل داد اور دید ہے، اور انہوں نے کہا تھا کہ ہم اس کے اندر اتنا ضرور کریں گے کہ اگر کسی نے ملکی عدالت سے رجوع کیا، تو اس کے حق میں ملکی قانون کے اعتبار سے فیصلہ کیا جائے گا، اس پر آپ نے فرمایا کہ: اگر کوئی اسلام کا عدل ٹھکرانا ہی چاہے، تو اس کی بدقسمتی پر رونے کے سوا کچھ نہیں! __ ایک دوسرا واقعہ یہ ہے کہ آپ سے راجیو گاندھی نے کہا تھا: ہم اس سلسلے میں عرب علما سے دریافت کریں گے، اس پر مولانا نے فرمایا تھا کہ کس عرب عالم سے پوچھیں گے؟ میرا حال یہ ہے کہ جب میں خود جامع ازہر کی علمی میٹنگ میں بیٹھتا ہوں، جہاں عرب علما کا کریم ہوتا ہے، اور جب میں کوئی بات کہتا ہوں تو سب سر جھکا کر سنتے ہیں۔
دراصل آج 30 اکتوبر 2019ء کو راجیہ سبھا نے بھی طلاق ثلاثہ کا بل پاس کردیا، اور اب صدر جمہوریہ کے دستخط کے بعد یہ مستقل قانون بن جائے گا کہ اگر کسی نے اپنی بیوی کو فوری طلاق ثلاثہ دی، تو وہ تین سال کےلیے جیل جائے گا اور نفقہ کا بھی ذمہ دار ہوگا وغیرہ _____ یہاں پر غور کرنے کی بات ہے کہ کیا ہمارے درمیان علی میاں ندوی کا کوئی وارث نہیں؟ کیا اب وہ دل نہیں جس میں نبی مصطفی ﷺ کی رسالت اور دین کےلیے کرب ہو، تڑپ ہو اور اس میں مداخلت کرنے والوں کےلیے وہ کسی بھی حد تک جانے کو تیار ہوں؟ یقناً اس سلسلہ میں کوششیں ہوئیں اور انہیں سراہنا بھی چاہیے، لیکن کچھ بھی ہو سیدی جیسا دل کہاں؟ ذرا اس بات پر غور کیجیے! کہ آج یہ بل راجیہ سبھا میں پیش ہونے والا تھا، اس کی خبر کتنے علما کو تھی؟ اور کتنے عوام کو تھی؟ اور اگر تھی تو وہ گھروں میں کیوں (بشمول راقم) تھے؟

Comments are closed.