چاول میں کنکر

ازقلم : مدثر احمد
ایڈیٹر ۔روزنامہ آج کاانقلاب۔ شیموگہ۔9986437327
خدشات و امکانات کے درمیان تین طلاق بل پارلیمان میں پاس ہوگیا، جن سیاسی پارٹیوں سے امید کی جارہی تھی کہ وہ اس بل کو پاس ہونے کے لئے موقع نہیں دینگے وہی میر صادق نکلے۔ کانگریس اور یس پی و بی یس پی کے بھی کچھ اراکین اسمبلی پارلیمان سے غیر حاضر رہے جبکہ ٹی یم سی، جے ڈی یو اور اے آئی ڈی یم کے کے اراکین اسمبلی راجیہ سبھا کی نشست سے احتجاجاً واک آؤٹ کرتے ہوئے اس بات کو ثابت کردیا کہ ہم میر صادق ہی ہیں اور ہم پر مسلمانوں نے جو بھروسہ کیا ہے وہ انکی اندھی تقلید ہے۔ اعداد و شمارات کے مطابق راجیہ سبھا میں تین طلاق بل منظور ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا، کیا کرسکتے ہیں یہاں جمہوریت کے نام پر کھلے عام دھوکہ بازی کی جارہی ہے جس سے مسلمان سمجھ لیں کہ یہاں مسلمانوں کے کندھوں کا استعمال کرتے ہوئے عہدے و اقتدار تو حاصل کرلیا جاتا جاہے لیکن جب بات مسلمانوں کو حق و تحفظ فراہم کرنے کی بات آتی ہے تو سیاسی جماعتیں مسلمانوں کو ٹھینگا بتاتی ہیں ۔ بہر حال تین طلاق بل تو پارلیمان میں پاس ہوا اسکے بعد ہندوستان میڈیا میں کچھ نام کی مسلم عورتوں کے جشن کی تصاویر جس طرح سے دکھائی جارہی تھیں مانو کہ ان عورتوں نے تین طلاق کا مارکیٹ بنا رکھا ہے اور اس مارکیٹ کے شہروں میں اچانک اچھال آچکاہے۔ اکثر ہمارے ذہین میں یہ بات بھی آتی رہی ہے کہ طلاق کے معاملات تو کبھی کبھار پیش آتے ہیں اور جو مرد و عورتیں پاسدار ہیں، تقویٰ و پرہیزگاری سے رہتےہیں، ایک اللہ اور اسکے رسول ﷺکے احکامات کو ماننے والے ہیں اور جنہیں آخرت پر یقین ہے وہ عورتیں شریعت کے خلاف بنائے جانے والے دنیائوی قوانین پر عمل پیرا نہیں کرینگےاور جنہیں دنیا میں ہی جنت اور آرائشیں درکار ہے اور وہ صرف نام کے مسلمان بنے رہنا چاہتے وہ حکومتوں کے بنائے ہوئے قوانین پر عمل کرینگے۔ چونکہ تین طلاق کا معاملہ حکومت اور میڈیا کی جانب سے گرمایا گیاہے ،اسکے علاوہ بھی مسلم سماج میں اور بھی برائیاں ہیں جس کی وجہ سے مسلم خواتین پہلے سے ہی پریشانیوں میں مبتلا ہوچکی ہیں۔ حکومت نے جہیز اور طلاق کی وارداتوں کو قابو میں لانے کے لئے پہلے ہی قوانین عمل میں لائے ہیں ان قوانین کو صحیح استعمال کم ہورہا ہے اور ان قوانین کے آڑ میں اپنے اپنے مفادات کی تکمیل کی جارہی ہے ۔ فیملی کورٹس کا رخ کرتے ہیں وہاں سینکڑوں خواتین ایسی ہیں جنہوں نے عدالتوں کے ذریعے طلاق کیلئے عرضیاں تو دے دی ہیں لیکن طلاق لیتے لیتے ان کے سر کے بال سفید ہونے لگے ہیں، کچھ خواتین تو زار و قطار روتی ہیں کہ انہیں عدالتوں کے چکروں سے نجات ملے۔ ہم نے یہ بھی دیکھا ہے کہ طلاق اور جہیز کے معاملات کو بڑھاوا دینے میں ہمارے معاشرے کابھی بڑا ہاتھ ہے، جن مسائل کو چار دیواری کے درمیان سلجھایا جاسکتاہے وہیں مفادات و ضد کی بناء پر عدالتوں تک کھینچا جارہاہے۔ کچھ مسئلے ایسے ہیں جس میں مرد و عورت باہمی طور پر طلاق یا خلع لینا چاہتے ہیں لیکن درمیان میں کچھ دلال قسم کے لوگ ہوتے ہیں وہ ان معاملات میں مداخلت کرتے ہوئے خواتین کو یہ کہہ بھڑکاتے ہیں کہ ویسے بھی رشتہ ٹوٹ رہا ہے تو کیونکر مرد کو یوں ہی چھوڑ رہی ہو، عدالت جاؤگی تو وہاں بڑی رقم وصول کی جاسکتی ہے، چونکہ عورت صنف نازک ہوتی ہے وہ ان بہکائوے کی باتوں میں آکر عدالتوں کا رخ کردیتی ہیں۔ طلاق کے معاملات جب شرعی طریقوں سے نمٹایا جانے لگیں گے تو یقیناً مودی کے قانون کی ضرورت ہی نہیں پڑیگی۔ دوسری جانب میڈیا میں جس طرح سے تین طلاق کی منظوری کے بعد چلا چلاکر کہا جارہا تھا کہ ہندوستان کی 90 ملین مسلم عورتوں میں خوشی کا ماحول ہے، ان خواتین کو انصاف ملا ہے، اس چیخ و پکار کے درمیان کچھ ذلیل قسم کی عورتیں ایک دوسرے کو مٹھائیاں بانٹتی ہوئی دکھائی دے رہیں تھیں، کچھ کیک کاٹ رہیں تھیں تو کچھ خواتین ناچ رہیں تھیں ۔ کچھ خواتین کو لے کر میڈیا جس طرح سے واویلا مچارہا تھا اس میڈیا کو کرارا جواب دینے کے لئے مسلم پرسنل لاء بورڈ، جماعت اسلامی و دیگر مسلم تنظیمیں فوری طور پر اپنے اپنے خواتین شعبوں کے ذریعے سے ہر ضلع میں پریس کانفرنسوں کا انعقاد کرتے ہوئے تین طلاق بل کی مذمت کروائی جاتی جس سے یہ بات ثابت ہوجاتی کہ مرکزی حکومت کے منظور شدہ تین طلاق مسودے سے ملک کی 90 ملین مسلم خواتین مطمئن نہیں ہیں بلکہ انہیں اس قانون سے اختلاف ہے ۔ لیکن ہماری تنظیموں نے شاید ایسا کرنا گنوارہ نہیں سمجھا۔ ایک طرف میڈیا اور حکومت بار بار یہ کہہ رہے ہیں کہ مسلمان اپنی عورتوں پر ظلم کرتے ہیں اور انہیں باہر نکلنے نہیں دیا جاتا جبکہ مسلم پرسنل لاء ہو یا جماعت اسلامی انکے پاس باقاعدہ شعبہ خواتین موجود ہیں تو ان شعبوں کو ایسے موقعوں پر آگے کیوں نہیں کیا جاتا؟۔ جب تک مسلمان میڈیا کا صحیح استعمال نہیں کرتے اس وقت تک مسلمانوں کو ایسے ہی رسواء کیا جاتا رہے گا۔کم از کم ایسے موقعوں پر مسلمان اپنی خواتین کو آگے کرتے ہوئے فسطائی طاقتوں کو جواب دیں کہ کنکر میں چاول نہیں ہیں بلکہ چاول میں کنکر ہیں اور ان کنکر نما خواتین کی وجہ سے اسلام کا نام خراب ہورہاہے۔
(بصیرت فیچرس)
Comments are closed.