ارتداد سے حفاظت کی تدبیریں (پہلی قسط)

بقلم: مفتی محمد اشرف قاسمی
عالم ہمہ ویرانہ زچنگیزئ افرنگ
معمارحرم باز بہ تعمیر جہاں خیز
بسم اللہ الرحمن الرحیم
علماء و ائمہ کی خدمت میں چند گزارشات
ارتدادی فتنے مختلف جہتوں سے ہمارے دین وایمان پرڈاکے ڈال رہے ہیں۔ بنیادی طور پر ان فتنوں کو دو قسموں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔ ایک قسم یہ ہے کہ: صاف اور واضح طور پر ترکِ اسلام کے بعد اسلام مخالف نظریات اور معتقدات کو قبول کیا جائے۔ اس سلسلے میں عالمی سطح پر بہت مضبوطی کے ساتھ اعدائے اسلام کام کررہے ہیں۔ ارتداد کی دوسری افسوس ناک قسم؛ اسلام، دین، شریعت، قر آن و حدیث، حضرت عیسی ؑ، مسیح، مہدی، حضرت جی، امیر صاحب، اللہ کے راستے میں، فی سبیل اللہ، جیسے ناموں سے معنون ہے۔
ہم ذیل میں سرسری طور پر ارتداد کے عوامل اور وجوہات کو پیش کریں گے؛ جن وجوہات اور عوامل کے تدارک سے ارتداد کے فتنوں پر لگام بھی لگائی جاسکتی ہے:
ارتداد کے عام اسباب
۱۔ اسلام کی اہمیت، کفر و شرک اور ارتداد کی گندگی کو ہمارے بیانات اور تحریروں میں قوت کے ساتھ نہیں پیش کیا جارہا ہے۔
۲۔ حلاوت ایمان والے اعمال سے دوری۔
۳۔ تقوی کی کمی۔
۴۔ عوام الناس کا علما سے روابط میں کمی۔
۵۔ بے حیائی اور بے پردگی اور خواتین کی آزادی کا تصور۔
۶۔ اسراف اور عدم سخاوت۔
۷۔ برے دوستوں کا انتخاب۔
۸۔ گھروں میں دینی تعلیم کا فقدان۔
۹۔ اسکولوں میں مغربی ماحول، اور سرپر ستوں کی بے توجہی۔
کچھ مشورے
۱۔ ہمیں اپنے خطبات میں شرک و کفر کی قباحت و مذمت اور عقیدہ، ایمان اور محاسن اسلام کے بارے میں مدلل انداز میں باتیں کرنی چاہیے۔ اور مکاتب میں بھی چھوٹے چھوٹے بچوں کو اسلامی عقائد اچھی طرح ازبر کرانا ضروری ہے۔ خواتین کی دینی تعلیم کے لیے بہشتی زیور اور مکا تب کے لیے مختلف رسالے بازار میں دستیاب ہیں؛ لیکن تعلیم الاسلام (حضرت مفتی کفایت اللہؒ )، سے زیادہ جامع اور اچھی کوئی کتاب شاید مکا تب کے لیے دستیاب نہیں ہے۔ ایمان کی حلاوت و مٹھاس پیدا کرنے کے لیے اصحابؓ رسول ﷺ کے قربانیوں بھرے واقعات کو مختلف طریقوں سے بچوں اور بڑوں، عورتوں، مردوں کے سامنے لایا جائے۔
۲۔ اس وقت سوشل میڈیا اگر ایک طرف اپنے اندر بہت ساری منفی باتوں کو سمیٹے ہو ئے ہے، تو وہیں دوسری طرف اسلام کی اشاعت وتبلیغ کے لیے عظیم خدائی نعمت بھی ہے؛ ضرورت ہے کہ ہم اسلامی عقائد و نظریات کی تبلیغ کے لیے سوشل میڈیا کا بھر پور استعمال کریں ۔اسلام کے نام پر دین سے برگشتہ کرنے والی تحریکوں کا تعاقب بھی سو شل میڈیا (Social media) پر کریں، اس کی شکل یہ ہو سکتی ہے کہ نیٹ پر ہر ہر امام اپنا اکاؤنٹ (Account) کھولے اور دین و اسلام کے تعلق سے پیدا کیے گئے شکوک و شبہات کے جوابات اپنے اکاؤنٹ پر علما کی نگرانی میں لوگو ں کے سامنے پیش کرے۔ دعوت، تعاقب سب کچھ یہاں ہندی زبان میں زیادہ مفید اور مؤثر ہے ۔ دوسرے گمراہ فرقے اسی طرح اسکول وکالج کے اسٹوڈنٹس (Students) تک اپنے الحادی نظریات کو پہنچا رہے ہیں ۔
۳۔ اسکول میں پڑھنے والے طلباء و طالبات کے لیے اسلامک کوئز کمپٹیشن (islamic Quiz Competition) کا اہتمام کرایا جائے، اور اس کوئز کمپٹیشن کا مواد (Content) اس طرح تیار کیا جائے کہ اس میں اسلام کے بنیا دی عقائد، سیرت رسول ﷺ، شرک وکفر کی قباحت و مذمت، علما کی عظمت و اہمیت، وغیرہ کا اچھا مطالعہ ہو جائے۔
۴۔ علمائے کرام ایک ہی جگہ رہ کر یا ایک ہی نظام کے تحت اگر خدمات انجام دیتے ہیں تو زیادہ بہتر نتائج برآمد ہوتے ہیں۔ اس لیے منتظمین مدارس ومساجد اور عام مسلمانوں کی دینی ذمہ داری ہے کہ تعمیرات کے نام سے فضول کام یعنی سنگ و سیمنٹ اور خاک و خشت پر روپیہ پھونکنے کے بجائے علما اور خدام دین پر خرچ کریں اور انہیں معقول مشاہرہ دیں، اور انہیں اپنی متعلقہ جگہ یا نظامِ عمل میں رُ کے رہنے کے لیے اُن کی ضروریات کو پوری کرنے کی کو شش کریں۔ نیز علماء کرام کی تعظیم و تکریم کے لیے خود علماء عظام بھی اپنے خطبات ومواعظ میں عوام کو ترغیب دیں اور آمادہ کریں۔
۵۔ جو علماء مکاتب وغیرہ میں خدمات کے لیے ما مور ہوں وہ دلجمعی کے ساتھ لوجہ اللہ، جم کر اپنی صلاحیتوں کو استعمال کریں۔ وہ اپنے کو ملازم یا محض مدرس نہ سمجھیں! بلکہ جس بستی میں مامور ہوں وہاں وہ قائدانہ رول ادا کریں؛ کیوں کہ علما ہی امت کو دین وملت سے جوڑنے کا واحد ذریعہ ہیں۔ ع
ترے علم و محبت کی نہیں ہے انتہا کوئی
نہیں ہے تجھ سے بڑھ کر ساز فطرت میں نوا کوئی
کتبہ: محمد اشرف قاسمی
خادم الافتاء شہر مہدپور
ضلع اجین (ایم پی)
31 جولائی 2019ء
[email protected]
۔
Comments are closed.