اسلام کی تعلیمات روشن اور ہرزمان و مکان کے لئے سود مند ہیں

عمیر کوٹی ندوی
تین طلاق بل”Muslim Women (Protection of Rights on Marriage) Bill "کے راجیہ سبھا سے پاس ہو جانے کے بعد وزیر اعظم نے اپنے ٹوئٹر اکاؤنٹ” Narendra Modi” میں اس بل کے پاس ہوجانے پر اپنی خوشی ومسرت کا اظہار کیا ہے،اسے تاریخی اور بہت بڑا قدم بتایا ہے، اسے مسلم خواتین کی جیت سے تعبیر کیاہے اور ممبران پارلیمنٹ کو بل کے پاس ہونے پر مبارک باد دی ہے ۔ اس کے علاوہ بھی انہوں نے بہت سی باتیں کہی ہیں۔ ان باتوں میں ایک بات یہ بھی ہے کہ” قدیم اور قرون وسطیٰ کا ایک عمل بالآخر تاریخ کے کوڑے دان تک ہی محدود ہوگیا” وزیر اعظم کے الفاظ یہ ہیں کہ ” An archaic and medieval practice has finally been confined to the dustbin of history”۔ اسی ٹوئٹ میں انہوں نے یہ بھی کہا ہے کہ ” ہندوستان آج خوش ہے””India rejoices today”۔ اس ٹوئٹ میں بات آئی قرون وسطیٰ کی۔قرون وسطیٰmedieval / middle ages) )تین حصوں میں منقسم یورپ کی روایتی تاریخ کا درمیانی عہد ہے۔یورپ کی تاریخ عام طور پر عہد عتیق کی قدیم تہذیب، قرون وسطیٰ اور زمانہ جدید کے درمیان تقسیم کی جاتی ہے۔ تقریباً ایک ہزار سال کا دور ہے جسے ازمنۂ وسطیٰ یا قرون وسطیٰ کہا جاتا ہے۔قرون وسطی ٰ کا دور طلوع اسلام اور اسلامی عروج وارتقاء کا دور ہے۔ اس دور میں مسلمانوں نے دنیا کو انسانیت کا سبق دیا ، انسان کو انسان کی غلامی سے نکالا، جھوٹی آن بان اور مال ودولت کے ڈرسے بچووں کے قتل کے چلن کو روکا۔ ایک انسان کے قتل کو ساری انسانیت کا قتل قرار دیا۔
قرون وسطیٰ میں عالمگیر نظام امن کی فراہمی کے ساتھ ساتھ اس کا نفاذ بھی دنیا نے دیکھا۔ مسلمانوں نے اس دور میں سیاسی اورعسکری فتوحات کے علاوہ ایک عالم کو اس نظام سے فیضیاب کیا ۔ اس دور میں مسلمانوں نے علم اور تہذیب کے میدان میں نمایاں ترقی کی۔اس کی کوئی دوسری مثال تاریخ پیش کر نے سے قاصر ہے۔ ساتویں صدی عیسوی کے اوائل میں مدینہ طیبہ میں اسلامی ریاست کی ابتدا ء ہوئی اور نویں صدی عیسوی کے وسط تک اسلامی سلطنت کی حدود شمال میں بحیرہ اسود ، جنوب میں ملتان ،مشرق میں سمرقند اور مغرب میں فرانس اور ساحل اوقیانوس تک پھیلی ہوئی تھی۔ اس زمانے میں بغداد ، ایران ، مصر ، اسپین اور سسلی سے اسلامی علوم و فنون اور تہذیب و تمدن کی نورانی لہریں اٹھ رہی تھیں اور ایک عالم کو بقعہ نور بنا رہی تھیں۔ مسلمان جہاں گئے وہاں خوبصورت عمارتوں ، رنگا رنگ پارکوں ، سڑکوں ، نہروں ، باغات ، پلوں ، تالاب ، مدرسوں اور کتب خانوں کا جال بچھا دیا۔ انہوں نے دنیا بھر سے علمی شاہپارے جمع کے ۔ خود ہمارا ملک بھی اس دور میں اسلامی تعلیمات سے فیضیاب ہوا۔ہمارے ملک میں حضورصلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے دور ہی میں اسلام کی کرنیں پہنچ گئی تھیں۔ جنوبی ہند کے بحری راستوں سے آئے عرب تاجرین کے ذریعہ یہاں اسلام کاپیغام پہنچنا شروع ہوا۔ صحابی مالک بن دینار جنوبی ریاست کیرلہ کے ساحلی علاقہ میں تشریف لائے اور وہاں کے علاقائی بادشاہ سے ملاقات کی، بعد میں اس بادشاہ نے اسلام قبول کر لیا۔
تاریخ شاہد ہے کہ بر صغیرہند اور عرب کے درمیان تجارتی تعلقات بہت پرانے ہیں۔ اسلام سے قبل ہی عرب جنوبی ہند کے مالاباری علاقوں میں آتے تھے۔ ساتویں صدی عیسوی کے قریب مسلمان عرب آنے لگے۔629ء میں تعمیر شدہ چیرامن مسجد،ہندوستان کی پہلی جامع مسجد ہے۔ مالابار کی موپلا قوم نے سب سے پہلے اسلام قبول کیا۔ عربوں اور موپلاؤں کے درمیان بہترین تعلقات تھے۔ قرون وسطیٰ میں اسلام نے ہمارے ملک میں تہذیب و تمدن سے لوگوں کو روشناس کرایا۔ انسانوں کو پیدا کرنے والے کا پیغام ان تک پہنچایا۔یہی وہ دور ہے جب پوری دنیا میں پہلی بار خواتین کو انسان تصور کیا گیا، ان کے حقوق تسلیم کئے گئے۔ورنہ اس سے پہلے دنیا میں عورتوں کی جو حالت تھی وہ سب کے سامنے ہے۔ اسے سب حقیر تصور کرتے تھے اور ہر حق سے محروم تصور کیا جاتا تھا۔ مال ودولت میں اس کا کوئی حق نہیں تھا۔ وہ مردوں کی ملکیت تصور کی جاتی تھی۔شوہر کا اس پر پورا کنٹرول تھا ۔ اس سے علاحدہ ہٹ کر اس کی زندگی کا کوئی تصور بھی نہ تھا۔ شوہر کے مرنے کے بعد وہ زندہ رہنے کے بنیادی حق سے بھی محروم کردی جاتی تھی۔ قرون وسطیٰ میں اسلام کی تابناک آمد نے عورت کو اس کا مقام بلند دیا بلکہ کئی موقع پر مردوں سے بھی وہ فوقیت لے گئی۔ یہ خواتین کے لحاظ سے بھی تاریخ کا روشن ترین دور ہے۔ اسی دور میں عورت کی مستقل حیثیت تسلیم کی گئی ۔ اسے ہر طرح کےحقوق دئے گئے ۔ ان ہی حقوق میں طلاق بھی ہے کہ اگر شوہر اور بیوی میں نباہ کی گنجائش نہ ہو تو دونوں ایک نظام کے تحت ایک دوسرے سے پر امن طریقہ پر الگ ہوسکتے ہیں۔ کوئی کسی کی جان نہ لے گا۔ اسلام کے عطا کردہ تصور طلاق کو پوری دنیا نے اختیار کیا ، اس پر اعتراض کرنے والوں نے بھی اس سے استفادہ کیا ہے۔ ان باتوں کو مد نظر رکھ کر یہ سوچنا چاہئے کہ اسلام کی روشن اور ہر زمان ومکان کے لئے سود مند تعلیمات کو” قرون وسطیٰ کا ایک عمل” قرار دیا جاسکتا ہے اور کیا انہیں ” تاریخ کے کوڑے دان” کے حوالے کیا جاسکتا ہے۔ یہ بھی سمجھنے کی ضرورت ہے کہ یہ "کوپرتھا” نہیں انسانوں خاص طور پر عورت کے لئے رحمت ہے۔
(بصیرت فیچرس)
Comments are closed.