حوصلہ شکنی یا حوصلہ افزائی…….

ایم ودود ساجد
ان دنوں آسنسول کا واقعہ زبان زد خاص وعام ہے۔۔۔ ایک گروپ پر ایک صاحب نے مندرجہ ذیل تبصرہ کیا:
"جرم تو اس نے (آسنسول کے نوعمر لڑکے نے) بھی کیا. کسی نعرے پر مجبور کرنے کی سزا سر کاٹنا ہرگز نہیں ہوسکتی…..ایسے جذبے کی سراہنا (ہمت افزائی ) کرنے والوں کو اپنی اخلاقیات کا از سر نو جائزہ لینا چاہئے….
دونوں پارٹیوں کے تشدد میں کوئی فرق نہیں…”
اس پر میں نے جواب لکھا:
"زیر بحث معاملہ میں مذکورہ بالا تبصرہ عدم معلومات پر مبنی ہے۔۔۔۔
1- کیا جے شری رام کا نعرہ لگانے سے انکار کرنا کوئی ایسا جرم ہے کہ جس پر قتل کردیا جائے ۔۔۔۔؟ کتنے ہی معاملات میں یہی ہوچکا ہے۔۔۔
2- مذکورہ معاملہ صرف نعرہ لگانے پر اصرار تک ہی محدود نہیں رہ گیا تھا بلکہ ماخوذ نوعمر لڑکے کے مطابق حملہ آور نے اسے اینٹ سے زدوکوب کرنا شروع کردیا تھا۔۔۔۔۔ ایسے میں قانون اپنے دفاع کے لئے ردعمل کی پوری اجازت دیتا ہے۔۔۔۔ لیکن آپ کے مطابق مسلم نوجوان کو پٹتے رہنا چاہئے تھا تا آنکہ وہی قتل کردیا جائے ۔۔۔۔
3- اس نوعمر نے خود کہا ہے کہ اس کا ارادہ اسے (حملہ آور کو) قتل کرنے کا نہیں تھا۔۔۔۔
لیکن اب ایک سوال ہے کہ ملک میں جتنے بھی اس طرح کے واقعات ہوئے ہیں ان میں کیا حملہ آوروں نے اپنے شکار کو زندہ چھوڑ دیا ہے۔۔۔۔؟
تبریز انصاری کے معاملے میں تو جے شری رام کا نعرہ لگانے کے باوجود اسے ماردیا گیا۔۔۔۔ یہی نہیں چینلوں نے تبریز کو اس طرح چور ثابت کیا گویا چور کو جان سے ماردینا درست تھا۔۔۔۔
اگر حملہ آوروں سے یہ سوچ کر ضروری اور ممکن مزاحمت نہ کی گئی کہ نعرہ لگوانے کی سزا سر کاٹنا تو نہیں تو ابھی کتنے ہی تبریز قتل ہوں گے۔۔۔۔
واقعہ یہ ہے کہ اسے سزا نہیں کہا جائے گا’ اسے مقابلہ اور دفاع کہا جائے گا۔۔۔ آپ بنیادی غلطی اسے سزا کہہ کر کر رہے ہیں ۔۔۔۔ سزا ماورائے عدالت نہیں دی جاسکتی۔۔۔۔ لیکن اپنی جان بچانے کے لئے حملہ آور سے پوری قوت کے ساتھ مقابلہ کیا جاسکتا ہے۔۔۔۔ قانون ہاتھ میں لے کر خود سزا دینا جرم ہے ۔۔۔۔ لیکن چاروں طرف سے گھِر جانے کی صورت میں اپنے دفاع کے لئے حتی المقدور مقابلہ کرنا قانوناً روا ہے۔۔۔۔ دونوں میں زمین آسمان کا فرق ہے۔۔۔ اس فرق کو پہچاننا ہوگا۔۔۔۔
Comments are closed.