فضائل عشرہ ذوالحجہ

ڈاکٹر مفتی عرفان عالم قاسمی
(ایڈیٹر ہفت روزہ آب حیات بھوپال ایم پی)
اسلام کے سارے ہی مہینے محترم اور قابل عظمت ہیں، لیکن اللہ تعالیٰ نے بعض مہینوں کو خاص فضیلت اور عظمت سے نوازا ہے۔ ان میں سے ہی ایک اسلامی سال کا آخری مہینہ ذوالحجہ ہے۔ جس کا احترام شروع زمانہ سے ہی چلتا آرہا ہے۔ زمانۂ جاہلیت میں بھی اس ماہ کو محترم و متبرک سمجھا جاتا تھا اور لوگ اس ماہ کی عظمت کی وجہ سے قتل و قتال سے باز رہتے تھے۔ یہاں تک کہ دور جاہلیت میں اس ماہ میں کسی کے سامنے کوئی اس کے والد کا قاتل بھی گزرتا تو وہ اس مہینے کی عظمت کی وجہ سے اس کو چھوڑ دیتے تھے۔ قرآن کریم میں جن چار مہینوں کو اشہرم حرم قرار دیا ہے انمیں ایک ماہ ذوالحجہ ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: سید الشہور رمضان و اعظمہاحرمۃ ذوالحجہ۔ (فضائل الاوقات للبیہقی 89) ذوالحجہ کا پورا مہینہ ہی قابل احترام ہے لیکن اس کے ابتدائی دس دن تو بہت ہی فضیلت اور عظمت والے ہیں۔ حج بھی ان ہی ایام میں ادا کیا جاتا ہے۔ اس ماہ کی ابتدائی دس راتیں لیلۃ القدر کا مرتبہ رکھتی ہیں۔ (مشکوٰۃ 128)، قرآن و حدیث میں عشرہ ذوالحجہ کی عظمت و اہمیت کو بیان کیا گیا ہے۔ قرآن کریم میں ارشاد ہے: وَالْفَجْرِ وَلَیَالٍ عَشْرٍ وَّالشَّفْعِ وَالْوَتْرِ وَالَّیْلِ اِذَا یَسْر۔ قسم ہے فجر کی اور دس راتوں کی جفت اور طاق کی اس رات کی جب وہ رات کو چلے۔ اس آیت میں فجر سے مراد صبح اور عشر سے مراد نہر ہے یعنی ذوالحجہ کا پہلا عشرہ جس میں قربانی کا دن بھی شامل ہے، وتر سے مراد یوم عرفہ یعنی نویں ذوالحجہ اور شفع سے مراد دسویں ذوالحجہ ہے۔ (شعب الایمان ص352، ج:3) اللہ جل شانہ کی عبادت و بندگی اور حسن عمل کے لئے عشرہ ذوالحجہ سے بہتر کوئی زمانہ نہیں یہ وہ خاص عشرہ ہے جس میں کیا جانے والا عمل اللہ رب العزت کو بے حد محبوب ہے اور اس کی بڑی قدر و قیمت ہے۔ (معارف الحدیث ص:417، ج:3) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: ان العشرۃ عشرۃ الاضحی والتر یوم عرفہ والشفع یوم النحر (دار المنثور ص:399، ج:15) کہ عشرہ ذوالحجہ یہ تمام سال کے دنوں میں سب سے افضل ہے۔ حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اللہ رب العزت کو نیک عمل جتنا ذوالحجہ کے ابتدائی دس دنوں میں محبوب ہے اتنا کسی اور دنوں میں نہیں۔ (صحیح بخاری) ایک اور حدیث میں ارشاد ہے کہ اللہ عز وجل کے نزدیک کوئی عمل زیادہ پاکیزہ اور اجر و ثواب کے اعتبار سے زیادہ عظیم نہیں ہے، اس نیک عمل کے مقابلہ میں جس کو انسان ذوالحجہ کے پہلے عشرہ میں کرتا ہے، عرض کیا گیا کہ اللہ کے راستے میں جہاد کرنا بھی افضل نہیں ہے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کے راستے میں جہاد کرنا بھی (اس سے) افضل نہیں ہے۔ سوائے اس آدمی کے کہ جو اپنی جان و مال کے ساتھ نکلا پھر ان میں سے کوئی چیز بھی واپس لے کر نہ آئے۔ (سب اللہ کے راستے میں قربان کر دے ور شہید ہوجائے یہ ان دنوں کے نیک عمل سے بہتر ہے بڑھ کر ہے) (ترمذی، سنن دارمی) راوی کہتے ہیں کہ حضرت سعید بن جبیر رضی اللہ عنہ (جو اس حدیث کے راوی ہیں) جب ذوالحجہ کا پہلا عشرہ داخل ہوجاتا تھا تو انتہائی جد و جہد کرتے تھے۔ یہاں تک کہ بعض اوقات اس کی قدرت بھی نہیں ہوتی تھی۔ (سنن دارمی حدیث نمبر 1727) سعید بن جبیرؒ فرماتے ہیں: ذوالحجہ کی پہلی دس راتوں میں اپنے چراغ نہ بجھایا کرو (یعنی رات میں قیام اور قرأت کا اہتمام کرو) آپ کو ان ایام میں عبادت بہت پسند تھی اور آپ فرمایا کرتے تھے کہ اپنے خادموں کو اٹھایا کرو تاکہ وہ سحری کریں اور عرفہ کے دن کا روزہ رکھیں۔ (حلیت الاولیاء ص:281، ج:4، سیر اعلام النبلاء ص:236، ج:4)
عشرہ ذوالحجہ میں کثرت ذکر
عشرہ ذوالحجہ میں تسبیح و تہلیل اور ذکر کی کثرت کی تلقین بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمائی ہے۔ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا وَیَذْکُرُوا اسْمَ اللّٰہِ فِیْٓ اَیَّامٍ مَّعْلُوْمٰتٍ۔ (الحج 28) اور چند مقررہ دنوں میں اللہ کا نام لیں۔ ان مقررہ دنوں سے بعض حضرات نے ذوالحجہ کا عشرہ مراد لیا ہے۔ (روح المعانی: 145، ج:17) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کوئی دن بھی اللہ تعالیٰ کے نزدیک زیادہ عظیم اور پسندیدہ نہیں ہے جن میں کوئی عمل کیا جائے، ذوالحجہ کے ان دس دنوں کے مقابلے میں، تم ان دس دنوں میں تہلیل، تکبیر اور تحمید کی کثرت کیا کرو، (مسند احمد، حدیث نمبر 5294) ایک اور حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم ان دس دنوں میں تسبیح، تکبیر اور تہلیل کی کثرت کیا کرو۔ (المعجم للطبرانی: س10960)
اللہ تعالیٰ نے عشرہ ذوالحجہ کو مختلف عبادتوں کے ذریعہ خصوصیت بخشی ہے۔ اس پورے عشرہ میں اسلام کے اہم ترین اعمال انجام دئے جاتے ہیں اور عبادتوں کا اہتمام کیا جاتا ہے۔
عرفہ کا روزہ
امام مسلم نے اپنی صحیح مسلم میں حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد نقل فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ سے میں امید رکھتا ہوں کہ عرفہ یعنی نویں ذوالحجہ کا ایک روزہ ایک سال گزشتہ اور ایک سال آئندہ کا کفارہ ہوجائے گا۔ (صحیح مسلم) ایک روایت میں ہے کہ عرفہ کا روزہ ہزار روزوں کے برابر ہے۔ دوسری جگہ ارشاد ہے کہ جس نے عرفہ کا روزہ رکھا اس کے پے در پے دو سال کے گناہ معاف کر دئے جاتے ہیں۔ (الترغیب والترہیب) ایک حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: عشرہ ذوالحجہ میں ایک دن کا روزہ رکھنا سال بھر کے روزہ رکھنے کے برابر ہے اور اس کی ایک رات کی عبادت شب قدر کی عبادت کے برابر ہے۔ (ترمذی ص:150ج: 1) غیر حاجیوں کے لئے عرفہ کا روزہ رکھنا مستحب ہے۔ احادیث میں اس کی بڑی فضیلت وارد ہے۔ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرفہ کے روزے کی بابت سوال کیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: گزشتہ اور آئندہ سال کے گناہوں کا کفارہ بن جاتا ہے۔ (صحیح مسلم کتاب الصیام) یوم عرفہ کے دن کی عظمت کو بیان کرتے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کوئی دن ایسا نہیں جس میں اللہ تعالیٰ عرفہ (نویں ذوالحجہ) کے دن سے زیادہ بندوں کو جہنم سے نجات دیتے ہوں اور اللہ تعالیٰ عرفہ کے دن بندوں کے سب سے قریب ہوتے ہیں پھر فخر سے فرشتوں سے فرماتے ہیں کہ یہ بندے کیا چاہتے ہیں؟ (مسلم حدیث نمبر 2410) حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا، اللہ تعالیٰ عرفہ کے دن (نویں ذوالحجہ) اپنے بندوں پر نظر فرماتا ہے اور جس کے دل میں ذرا سا بھی ایمان ہوتا ہے وہ ضرور بخش دیا جاتا ہے۔ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے ان کے شاگرد حضرت نافع رحمۃ اللہ علیہ نے دریافت فرمایا کہ یہ مغفرت تمام لوگوں کیلئے یا عرفات والوں کیلئے خاص ہے۔ انہوں نے فرمایا یہ مغفرت تمام لوگوں کے لئے ہے۔ حضرت طلحہ بن عبید اللہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ شیطان کو کسی بھی دن اتنا ذلیل و خوار، اتنا دھتکارا ہوا اور اتنا جلا بھنا ہوا نہیں دیکھا گیا جتنا کہ وہ عرفہ کے دن ذلیل و خوار اور سیاہ غضبناک دیکھا جاتا ہے اور یہ صرف اس لئے کہ وہ اس دن رحمت کو (موسلادھار) برستے ہوئے اور بڑے بڑے گناہوں کی معافی کا فیصلہ ہوتے ہوئے دیکھتا ہے۔ (شعب الایمان) حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ نے غنیہ میں لکھا ہے کہ جو شخص ذوالحجہ کے دس دنوں کی عزت کرتا ہے اللہ تعالیٰ اسے دس چیز مرحمت فرما کر اس کی تکریم کرتا ہے۔ (۱) عمر میں برکت (۲) مال میں برکت و اضافہ (۳) اہل و عیال کی حفاظت (۴)گناہوں کا کفارہ (۵)نیکیوں میں اضافہ (۶)نزع میں آسانی (۷)ظلمت میں روشنی (۸)میزان میں وزن (۹)دوزخ کے طبقات سے نجات (۱۰)جنت کے درجات پر عروج۔
صحیحین میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک یہودی نے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کہا، اے امیر المؤمنین! تم ایک آیت قرآن مجید میں پڑھتے ہو اگر وہ آیت ہم یہودیوں پر نازل ہوتی تو ہم اس دن کو عید کا دن بناتے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے پوچھا وہ کونسی آیت ہے؟ اس نے کہا: الیوم اکملت لکم دینکم الخ آیہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرمانے لگے، ہمیں اس دن اور جگہ کا بھی علم ہے، جب یہ آیت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوئی وہ جمعہ کا دن تھا اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم عرفہ میں تھے۔ ایک روایت میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: سب سے بہتر دعا عرفہ کے دن کی ہے (خواہ عرفات کے میدان میں مانگی جائے یا کسی بھی جگہ) اور ان کلمات میں جو میں نے یا مجھ سے پہلے انبیاء نے بطور دعا مانگے سب سے بہتر کلمات یہ ہیں لا الٰہ الا اللہ وحدہ لاشریک لہٗ لہ الملک ولہ الحمد وہو علی کل شی قدیر۔ اللہ تعالیٰ اس دن کی دعا کو رد نہیں فرماتا۔
بال اور ناخن نہ کاٹنا
عشرہ ذوالحجہ کی آمد کے ساتھ سب سے پہلا حکم اس شخص کے لئے عائد ہوتا ہے جو قربانی کا ارادہ رکھتا ہو کہ وہ اپنے ناخن و بال نہ کاٹے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے اذا رایتم ہلال ذی الحجۃ واراد احدکم ان یضحی فلیمسک عن شعرہ و اظفارہ۔ (مسلم، حدیث نمبر 3662) کہ جب کسی شخص کا قربانی کا ارادہ ہو تو وہ ذی الحجہ کا پہلا عشرہ شروع ہوتے ہی اپنے بال و ناخن کٹوانے سے پرہیز کرے۔ یہ حکم مستحب ہے اور ان لوگوں کے لئے جو قربانی دینے والے ہوں، ذوالحجہ کا چاند دیکھنے سے لیکر جب تک کہ ان کی طرف سے قربانی نہ ہوجائے۔ اس وقت تک سر کے بالوں اور دیگر بالوں کو نکالنے اور ناخن کاٹنے سے احتیاط کرنا چاہئے، جو لوگ قربانی دینے والے نہیں ہے ان کے لئے یہ حکم نہیں ہے۔ اگر کوئی شخص قربانی دینے سے پہلے ایسا کر لے تو کوئی گناہ نہیں اور اس سے قربانی میں خلل نہیں آتا۔ (ذوالحجہ اور قربانی کے فضائل و احکام: 34)
تکبیر تشریق
عشرہ ذوالحجہ میں تکبیر و تہلیل اور تسبیح کے ورد رکھنے کی تلقین فرمائی گئی اور بطور خاص ایام تشریق میں تکبیرات تشریق کے پڑھنے کا حکم دیا گیا۔ تکبیر تشریق کے الفاظ یہ ہیں اَللّٰہُ اَکْبَرُ اَللّٰہُُ اَکْبَرُ لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَاللّٰہُ اَکْبَرُوَلِلّٰہِ الْحَمْدُ تکبیر تشریق کی تاریخ یہ ہے کہ جب حضرت ابراہیم علیہ السلام کو حضرت جبرئیل علیہ السلام نے نہایت تیزی میں اپنے بیٹے کے گلے پر چھری پھیرتے ہوئے دیکھا تو کہا اللہ اکبر جب حضرت ابراہیم علیہ السلام نے آسمانی مینڈھا دیکھا تو فرمایا لَااِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَاللّٰہُ اَکْبَرُ اور حضرت اسمٰعیل علیہ السلام نے جب یہ منظر دیکھا تو فرمایا َاللّٰہُ اَکْبَرُوَلِلّٰہِ الْحَمْدُ ۔ اللہ تعالیٰ کو یہ الفاظ اتنے پسند آئے کہ ان کو مسلمانوں کے دینی تہوار کا ترانہ بنا دیا۔ اس لئے نویں ذوالحجہ کی صبح کی نماز سے تیرہویں ذوالحجہ کی عصر تک ہر فرض نماز کے فوراً بعد یہ تکبیریں مردوں کے لئے بآواز بلند اور عورتوں کے لئے آہستہ ایک مرتبہ کہنا واجب ہے، نماز عیدالاضحی کو ملا لیا جائے تو کل 24 نمازیں ہوجاتی ہیں جن میں تکبیر تشریق پڑھنا واجب ہے یہ تکبیر مقیم، مسافر منفرد، جماعت عورت اہل شہر اور اہل دیہات سب پر واجب ہے۔(درمختار ص:180،ج:2) اگر کوئی امام تکبیر کہنا بھول جائے تو مقتدی کو بلند آواز سے پڑھ کر یاد دلا دینا چاہئے۔ (درمختار ص:2280)
قربانی
عشرۂ ذوالحجہ کی دس تاریخ کو عید منائی جاتی ہے۔ عید الاضحی کا دن مسلمانوں کے لئے بہت ہی تاریخی اور عظمت کا حامل دن ہے، اس دن صاحب حیثیت اور مالک نصاب افراد اپنی جانب سے قربانی انجام دیتے ہیں۔ اضحی قربانی کو کہتے ہیں کیوں کہ بقرعید کے دن جانوروں کی قربانی دی جاتی ہے اس لئے اس کو عیدالاضحی کہا جاتا ہے۔ عیدالاضحی کی رات بھی نیکیوں کے کمانے اور اجر و ثواب کو حاصل کرنے کی رات ہے خلاصہ یہ کہ عشرہ ذوالحجہ بڑی ہی اہمیت اور عظمت والا عشرہ ہے اس کی خصوصیت اور فضیلت احادیث میں بکثرت آئی ہیں لہٰذا اس کی تعظیم اور احترام بجا لاتے ہوئے ان دنوں میں عبادات کا خصوصی اہتمام کرنا چاہئے اسی طرح بالخصوص ان دنوں میں معاصی اور گناہوں کے کاموں اور نافرمانی والے اعمال سے بچنے کا اہتمام بھی ضروری ہے کیوں کہ ان دنوں کی بے حرمتی کے ارتکاب پر سزا اور عتاب میں بھی اضافہ ہوجائے گا۔ (روح المعانی ص92، ج 10)
(بصیرت فیچرس)
٭٭٭
Comments are closed.