رام پور میں جوگیانہ دہشت گردی، نونہالان قوم کا مستقبل نشانہ پر

احمد خان پٹھان رام پور
یوگی سرکار کو مبارک ! ہمیں اس سرکا رپر فخر ہے کہ:’ یہ سرکار بقول عدالت ِ عظمیٰ :’یوپی سرکار متاثرہ کو انصاف فراہم کرنے میں ناکام ہے‘، عین اس وقت رامپور’ ریاست ‘میں دفعہ 144نافذ کرکے اس کی سرحدیں سیل کردینے کا’ جرات مندانہ ‘ اقدام کیا ہے ۔ احتجاج ہمارا آئینی حق ہے ؛ لیکن سرکار دفعہ 144نافذ کرکے یہ باور کرانا چاہتی ہے کہ :’ کوئی بھی شخص صدائے احتجاج بلند نہیں کرسکتا ہے ‘ ۔ ایک طرف تو ملک کی سب سے بڑی عدالت یہ کہہ رہی ہے کہ :’ اناؤ عصمت دری کیس میں یوپی سرکار کی کاروائی مشکوک ہے ، اس کے ’کاروائی‘ پر بھروسہ نہیں کیا جاسکتا ہے،مگر وہی یوپی پولیس مولانا محمد علی جوہر ؒ یونیورسٹی کی لائبریری اور اس کی تحویل میں قطعۂ اراضی کے کاغذات کی تفتیش کررہی ہے۔یہ بھی اس ملک کی تاریخ میں لکھا جائے گا کہ :’جب اناؤ عصمت دری کی متاثرہ خاتون کو انصاف فراہم کرنے کا وقت تھا ، تو یوپی پولیس نوابوں کی ریاست رام پور کی خاک میں چھپے ’’نایاب‘‘ دفینوں کی تلاش میں تھی،اور مولانا محمد علی جوہرؒ یونیورسٹی کی اینٹ کو کریدا جارہا تھا ‘ ۔وہ سرکار جو گورکھپور میں مرتے بچوں کو آکسیجن فراہم نہ کرسکی ، وہی حکومت اب جوہر یونیورسٹی کے نام پر مسلمانوں کے تعلیمی آکسیجن کی ’’ہوا‘‘ نکالنے پرآمادہ ہے ۔ بات اس حد تک درست ہے کہ :’ اعظم خان نے جو زمین حاصل کی ہے ، اس کے کاغذات کہاں ہیں ؟ ‘ لیکن جس طرح سے یونیورسٹی کے اندر یوگی سرکار کی نکمی پولیس نے ’ہڑدنگ‘ مچائی ہے ، طلبہ و طالبات کے ساتھ بدسلوکیاں کی ہیں ،وہ آمریت کی صاف جھلک ہے ۔ نہ تو اعظم خان اس کی وجہ ہیں ، نہ ہی محمدعلی جوہر یونیورسٹی اس جو گیانہ دہشت گردی کی وجہ ہے؛بلکہ اس کی اصل وجہ ہماری’قوم‘ اور مسلمان ہیں ۔ اعظم خان کی سب سے بڑی غلطی یہی ہے کہ:’اعظم خان نے مسلمان کے بچوں کو پنچربنانے ، جوتے پالش کرنے، مزدوری کرنے ، بیڑی بنانے اور نوجوان بچوں اور بچیوں کو آوارگی سے بچا کر تعلیم سے آراستہ کرنے کا بیڑا اٹھایا تھا ۔ اعظم خان نے ریاست رامپور کے باشندگان کو ماضی کے روزِ روشن ایام لوٹانے کی ’جرات‘ کی تھی ۔ بس یہی غلطی اعظم خان کے لئے گلے کی ہڈی بن گئی ‘۔ اعظم خان کی یہی غلطی تھی کہ :’ انہوں نے ریاست رامپور کے باشندگان کو زمانے سے ہم آہنگ ہوکر عصری تقاضوں سے کندھا سے کندھا ملاکر چلنے کے لیے آمادہ کیا تھا ۔اعظم خان نشانے پر اس لیے ہیں کہ :’ اعظم خان نے بھارتی مسلمانوں کے لیے دوسرا علی گڑھ مسلم یونیورسٹی فراہم کیا ہے ‘۔ریاست رامپور کے نوابین’ نواب علی محمد خان سے لے کر آخر نواب ، نواب رضا علی خان‘ کی روحیں اگر مضطرب ہیں تو وہیں راجا رام سنگھ کی روح بھی مضطرب ہو گی ۔ اضطراب کی وجہ یہ ہے کہ :’ ان کی سرزمین میں آج حکومتی طاقت کے سہارے ہڑبونگ مچائی جارہی ہے، طلبہ و اساتذہ کو زدو کوب کیا جارہا ہے ‘۔ اسی سرزمین سے خاک سے اٹھنے والے عظیم مجاہد آزادی مولانا جوہر علی ؒ کی روح مضطرب ہو گی کہ:’ محض ستر سال گزرجانے کے بعد ہی ہماری جاں سپاری ، اولوالعزمی کی لاج نہ رکھ کر ہماری قربانیوں او ر ایثار کو جوتوں تلے روند دیا گیا ‘۔
آج ریاست رامپور کی سرحدیں اس لیے سیل کردی گئی ہیں کہ کوئی شخص مولانا محمد علی جوہر یونیورسٹی کے خلاف ہورہی جوگیانہ دہشت گردی کے خلاف اٹھ کھڑ ا نہ ہو ۔ رامپور کے چپے چپے میں یوگی کی نکمی پولیس کا پہرہ ہے ، پورے شہر میںدفعہ 144نافذ ہے ۔ یہ شہر چونکہ مسلم اکثریتی شہر ہے ، خصوصاً مسلم اکثریتی علاقوں میں پولیس کی نفری اور گشت بڑھادی گئی ہے ، تاکہ ان کے خیال سے کوئی شخص جوگیانہ دہشت گردی کے خلاف صدائے احتجاج نہ کریں ۔ اس جوگیانہ دہشت گردی سے تمام لوگوں کو دقتوں کا سامنا ہے ۔ الغرض ان کو ہماری پریشانیوں سے کیا سروکار؟ ان کا واضح عندیہ ہے کہ :’ مسلمانوں کے بچے بچے کو محرومی، احساس کمتری ، ناخواندگی اورذلت کا شکارکردیا جائے ، اور یہ سوچ رکھنے والی طاقت آج خوش ہوگی ؛بلکہ اس خوشی میں ’’رقص شرر ‘‘بھی انجام دے رہی ہوگی ۔مولانا محمدعلی جوہر یونیورسٹی میں جو کچھ ہورہا ہے ، یہ انصاف کا ہر گز تقاضا نہیں ہوسکتا ہے ۔ کیا یہ بی جے پی کے انتخابی منشور کے موافق ہے ، ہرگز نہیں !خود بی جے پی نفاق ، سیاسی خودغرضی ،مفاد پرستی اور اہرمنی افکار کا آئینہ اور مثال ہے ۔اور جو کچھ ہورہا ہے بی جے پی اپنے مخفی افکار کے تحت ہی کر رہی ہے ۔آر ایس ایس کا یہی نظریہ ہے کہ مسلمانوں کو غربت ، افلاس ، ناخواندگی، احساس کمتری اور زندگی کے تمام شعبہ میں حاشیہ بردار بنا کر رکھ دیاجائے ۔بی جے پی اپنے دورِ اقتدار میں یہی کررہی ہے اور بھلا اس سوچ کو ہمارے ساتھ کون سی ہمدردی ہوسکتی ہے ، کہ جس کا مطمح نظر ہی ہماری بربادی ہو! ۔اور یہ کہنے کی ضرورت نہیں ہے کہ:’ یوگی جیسے ہندوستان کے سب سے بڑی ریاست کے وزیر ِ اعلیٰ کو مسلمانوں کی ترقی سے خدا واسطے بیر ہے ، یوگی نے ایک انٹرویو میں پیشرو حکومت پر مسلمانوں کی ترقی کا ذکر کرتے ہوئے تنقید کی تھی کہ:’گزشتہ سرکار کو صرف مسلمانوں کی ترقی اور ’اتھان‘ سے سروکار تھا ‘۔ جب ایک ایسا شخص جو آئینی عہدہ پر بیٹھا ہے ، وہ اس طرح کی زبان استعمال کررہا ہے تو پھر قیاس لگائے جاسکتے ہیں کہ :’ اندرونِ خانہ کیا کیا چل رہا ہے ‘ اور اندرونِ خانہ سازشیں ہزار بار طشت از بام ہوچکی ہیں ۔
ایک مؤدبانہ التماس :
اب جب کہ یوپی کی سرکار کی نظر میںمولانا جوہر یونیورسٹی کھٹک گئی ہے ،اس کی آنکھوں میں مولانا محمد علی جوہر یونیورسٹی کانٹا بن کر چبھ رہا ہے ۔ ہمارے انجینئر ،ڈاکٹر ، پروفیسر ، تاریخ داں ، حق گو ، قوم کے لیے اپنے جان نچھاور کردینے والے نونہالانِ قوم ہمارے دشمنوں کو پسند نہیں ، قو م کی رہبری کرنے والے ، قوم کو بہتر زندگی کی طرف رہنمائی کرنے والے مستقبل کے رہنما ان کی نظروں میں نہیں جچتے ، بلکہ ان کو (دشمنوں کو ) پنچر بنانے والے ، مزدوری کرنے والے ، رکشہ چلانے والے ، ڈرائیوری کرنے والے اور ناچنے اور گانے والے پسند ہیں۔ اسی لیے تواعظم خان کے نام پر اتنا سارا ڈرامہ رچا جارہا ہے ۔ وقت کے’ میر جعفر‘ اور’ میر صادق ‘غولِ بیابانی کی شکل میں ظاہر ہور ہے ہیں ۔ اور اسی لیے اس کے بانی فخر ملت محترم اعظم خان کے نام پر یونیورسٹی میں ہڑدنگ مچانے ،طلبہ و طالبات کو زدو کوب کرنے، اساتذہ کے ساتھ بدتمیزی کرنے ، اودھم مچانے ، نایاب کتابوں کے مبینہ’ سرقہ‘ کے نام پر لائبریری کو کھنگالنے اورمقدس قدیم مخطوطات (جن میں قرآن کے ساتھ رامائن اور مہابھارت کے علاوہ دیگر ادیان کے مذہبی صحائف بھی تھے )کو بے حرمتی کرنے کا واضح اشارہ کردیا گیا ہے ،حتیٰ کہ وہ اتنے سفاک نکلے کہ :’ نادر نایاب قرآنی نسخے جن کو ریاست کے رامپور کے علم دوست نواب نے خطیر صرفہ کے ساتھ کتابت کروائی تھی، کو بھی اٹھا کرچلتے بنے‘۔ جوہر یونیورسٹی کو زمین بوس کر نے کیلئے تمام مشنریاں حرکت میں لائی جاچکی ہیں ۔گلابی رنگ کے پیسوں پر وقت کے ’میر جعفر‘ اور’ میر صادق‘ کو بھی خریدا جا چکا ہے ۔ وقت کا ناسور بھی اپنا دائرۂ کار وسیع کرنے میں لگ گیا ہے ۔ تو ایسے وقت میںضرورت ہے کہ :’ تمام بہی خواہانِ ملت اپنے تمام سیاسی و نظریاتی اختلاف کو بھلاکر اعظم خان اور مولانا محمدعلی جوہر یونیورسٹی کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑے ہوں ، قوم کی متحدہ آواز بن کر اس جوگیانہ بربریت کے خلاف محاذ بنائیں ،متحدہ آواز بن کر وقت کے ظالم ڈٹ جائیں ۔یاد رکھئے ! اس جوگیانہ دہشت گردی کا اصل نشانہ قوم کا مستقبل اور ہمارے نوجوان ہیں ۔اگر اس سخت آزمائش کی گھڑی میں ہم عظیم مجاہد آزادی مولانا محمد علی جوہر یونیورسٹی کے نام پر قائم کردہ یونیورسٹی کے ساتھ کھڑے نہ ہوئے تو پھر تاریخ ہمیں کبھی فراموش نہیں کرپائے گی۔کل قیامت میں بھی ان عظیم رہنماؤں کے سامنے ہمیں شرمسار ہوناپڑے گا کہ ہم اتنے بزدل اور خودغرض ٹھہرے کہ :’ ہم نے ان کے مقدس نام کی لاج نہ رکھ سکے ‘ ۔ یاد رکھئے ! یہ مسئلہ اعظم خان کا نہیں ؛بلکہ قوم کے مستقبل کا ہے ۔آئیے! متحد ہوکرقوم کے نہالوں کے مستقبل کو دشمنوں کے دست ِ برد سے محفو ظ کریں ۔یاد رکھئے ! ہم اب نہ جاگیں تو پھر تاریخ کے حاشیہ میں بھی ہمیں جگہ نہ مل سکی گے ۔
(بصیرت فیچرس)
Comments are closed.