ارتداد سے حفاظت کی تدبیریں( قسط نمبر2)

 

بقلم: مفتی محمد اشرف قاسمی

عالمِ ہمہ ویرانہ زچنگیزئ افرنگ
معمارحرم باز بہ تعمیر جہاں خیز

ارباب ِمدا رس کی خدمت میں!

شو کت سنجرؔ وسلیمؔ تیرے جلال کی نمود
فقر جنیدؔ وبایزیدؔتیرا جمال بے نقاب

تاریخی طور پر اسلام کی اشاعت واستمرار کے لیے مدارس کی خدمات اور کا وشوں کے لیے دوخطے بطورِ مثال پیش کئے جاسکتے ہیں۔ ایک اندلس( اسپین) دوسرے غیر منقسمہ ہندوستان۔
اول الذکرمقام پر سلا طین وحکمرانوں کی تو جہا ت سے، علمائے اسلام تعلیمی و تدریسی اور تبلیغی خدمات میں مصروف تھے۔ حکومتوں کے زوال کے ساتھ ہی ان کی خدما ت کا سلسلہ بھی مو قوف ہو گیا۔ اسی کے ساتھ وقتی طور پر وہاں سے اسلام کا سورج بھی غروب ہوگیا۔ دوسری جگہ ایسا نہیں ہوا ،انتہائی درجہ نا خو شگوارحالات آ تے رہے لیکن اسلام سے امت کو جوڑے رکھنے اور دین کی حفا ظت و اشاعت کے لیے جانی وما لی قر بانی دینے وا لے مخلص رجال ِکار تیا ر ہو کر برا بر میدان عمل میں آتے رہے ۔اس کی وجہ یہ تھی یہاں مدا رس کا نظام مسلمانوں کے چندے سے جاری کیا گیا۔ اللہ کی رضا و خو شنودی کے لیے فضلاء مدارس دین کی اشاعت و تبلیغ میں لگے رہے ،اور وہ اپنی معاشی ضرو ریا ت کے تکفُّل کے لیے حکومتوں کے اشارۂ چشم و ابروکا اسیربننے کے بجائے عام مسلمانوں کی عطیات سے انتہا ئی عسرت وافلا س کے ساتھ فا نی زندگی گذار نے کے تقریباً عادی ہو گئے۔ اس ماحول سے جڑے ہو ئے افراد ،امت کی فلاح و بہبو د کے لیے بڑی سے بڑی قر بانی دینا اپنی سعادت سمجھتے ہیں۔ع

حنا بندِ عروس ِلالہ ہے خونِ جگر تیرا
تری نسبت برا ہیمی ہے معمارِجہاں تو ہے

چوں کہ مدارس ہی ایسے مرکزی مقاما ت ہیں جہاں سے امت کی دینی رہنمائی کے ساتھ، عمو می قیادت و رہبری کا فریضہ ادا کرنے والے، با حو صلہ افراد پیدا ہوتے ہیں۔اس لیے حا لاتِ زما نہ کی منا سبت سے مدارس کی ذمہ داریوں میں اضا فہ ہو اہے ۔ بنا بریں کچھ معروضات اربا بِ مدارس کی خد مت میں پیش ہیں ۔ امید ہے کہ ان پر سنجید گی سے غور کیا جا ے گا۔

*ہندی انگریزی وغیرہ زبانوں کی تعلیم*

دعوتی لحاظ سے ملک کے حالا ت جس قدر ساز گا ر ہیں اسی قدر اِس کام سے غفلت برتی جارہی ہے۔ اس سلسلے میں بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے ۔لیکن اگر بروقت مدارس میں صرف یہ کرلیا جائے کہ قرآن و سنت اوراسلام کی وا حد زبان ’’عر بی‘‘ کے ساتھ سماج میں رائج سرکاری اورعلمی زبان، فضلا ء مدارس کو سیکھا دی جائیں تو بھی دعوت کی ہوا چل پڑے گی۔ یو رپ میں اشاعتِ اسلام کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ علما ء اسلام ، قرآ ن وسنت کی زبان میں مو جود تعلیماتِ اسلامی سے مقا می،مروج، علمی زبان میں وہاں کے مسلمانوں کو واقف کراتے ہیں ۔ لسانی لحاظ سے قوموں کی تفریق کے بجا ئے، مروج سرکا ری اور علمی زبان میں ہو نے کے سبب اُن کے بیا نات سے غیر مسلم بھی مستفید ہو تے ہیں اوراسلام کو سمجھ کر کسی بھی وقت وہ اسلا م کی طرف سنجیدگی سے متوجہ ہوجاتے ہیں ۔ اس لیے قر آ ن وسنت کی زبان ’’عر بی ‘‘کے ساتھ دعوتی لحا ظ سے ضروری و مفید ہندی، انگریزی وغیرہ زبانیں بھی طلبا ء مدارس کو سکھا ئی جائیں تو بہت مفید نتا ئج حا صل ہو سکتے ہیں ۔

کتبہ: محمد اشرف قاسمی
خادم الافتاء شہرمہد پور
ضلع اجین ایم پی
[email protected]

Comments are closed.