وار گیم ختم : جو ہوا ، جیسا ہوا ، اچھا ہوا

 

ڈاکٹر سلیم خان

ڈونلڈ ٹرمپ اس صدی کا سب سے بڑا جادوگر ہے ۔ اس نے دو جوہری اسلحہ سے لیس ممالک کے درمیان ’وار گیم‘ کو اس آسانی سے بند کروا دیا کہ جیسےآج کل کے بچے اپنا ’ویڈیو گیم‘ بھی ختم نہیں کرپاتے ۔ سچ تو یہ ہے کہ امریکی صدر کے لیے دنیا بھر کے لڑائی بچوں کے کھیل سے کم نہیں ہے۔ وہ یوکرین اور روس کے درمیان تین سال سے جاری جنگ کو تین دن میں بند کروا سکتا ہےتو ہندو پاک کے درمیان نومولودتین روزہ جنگ کی کیا بساط ہے۔ یہ کس قدر مضحکہ خیز بات ہے کہ جنگ ہندوستان اور پاکستان کے درمیان ہورہی تھی اور جنگ بندی کا اعلان امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کردیا ۔ خود کو وشو گرو سمجھ کر کسی کی ثالثی پر تیار نہیں ہونے والی مودی سرکار نے ٹرمپ کاایک ایکس میسیج پر پچک گئی ۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا وہ سحر انگیز ٹویٹ میں لکھا تھا ’’ امریکہ کی ثالثی میں ہونے والی طویل بات چیت کے بعد مجھے یہ اعلان کرتے ہوئے خوشی ہو رہی ہے کہ ہندوستان اور پاکستان نے مکمل اور فوری جنگ بندی پر اتفاق کیا ہے ‘‘۔ اس کے بعدٹرمپ جیسے لابالی انسان نے دونوں ممالک کو دانشمندی کے استعمال پر مبارک دے کر تو گویا مشاعرہ لوٹ لیا ۔

یہ نویدنشاط اس وقت و ارد ہوئی جب ہندو پاک سرحد پر مسلسل ڈرون حملوں اور گولہ باری کے سببحالات کشیدہ تھے اور علاقائی اور عالمی سطح پر تشویش کا اظہار کیا جارہا تھا ۔ ہندوستانی اور پاکستانی حکومتوں نے امریکی فرمان کی بلا چوں چرا تصدیق کرکے اپنی خود داری و خود مختاری پر سوالیہ نشان لگا دیا ۔ پاکستان پر امریکہ کی کٹھ پتلی ہونے کا الزام پہلے بھی لگتا رہا ہے لیکن اب مودی جی نے اس اعزاز ہندوستان کو بھی نواز کر خود گویا امریکی ’ڈیپ اسٹیٹ‘ کا حصہ بن گئے ۔ مذکورہ اعلان سے چند گھنٹے قبل وزیراعظم مودی نے ایک اعلیٰ سطحی نشست میں قومی سلامتی کے مشیراجیت ڈوبھال اوروزیر دفاع راجناتھ سنگھ، کے ساتھ سی ڈی ایس انل چوہان نیز تینوں افواج کے سربراہان سے ملاقات کی ۔اس میٹنگ کی ایک ویڈیو جاری کرکے بتایا گیا کہ وزیر دفاع اور فوجی سربراہ نے تازہ حالات کے بارے میں وزیراعظم مودی کو جانکاری دی اور آگے کی حکمت عملی کے بارے میں بتایا۔ اس ویڈیو کے ساتھ گودی نے قیامت کی رات کا اعلان کرکے یہاں تک کہہ دیاکہ اگلے دن پاکستان صفحۂ ہستی سے مٹ جائے گا لیکن کسے پتہ تھا کہ اس کے بعد لال آنکھوں والے وزیر اعظم کی پلکیں بھیگ جائیں گی اور وہ جنگ بندی پر بلا چوں و چرا راضی ہوجائیں گے ۔ ایسے میں عازم کوہلی کے دو اشعار یاد آتے ہیں؎

جو ہوا جیسا ہوا اچھا ہوا، جب جہاں جو ہو گیا اچھا ہوا بات تھی پردے کی پردے میں رہی،ٹل گیا اک حادثہ اچھا ہوا

امریکی صدر نے اپنے پیغام میں جس طویل ثالثی گفت و شنید کا حوالہ تو دیا اس سے متعلق حکومتِ ہند کے وزیر نے یہ بتانے کی زحمت نہیں کی کہ آخر اس مشق میں کون لوگ شریک تھے ۔ دونوں فریقوں کی جانب سے کیا شرائط رکھی گئیں اور پلک جھپکتے وہ رضامندی کیسے ہوگئی ؟ وزیر اعظم نریندر کی بابت بی جے پی کے سابق وزیر خارجہ و خزانہ یہ قیاس آرائی کرچکے ہیں کہ مبادہ انہیں بلیک میل کیا جارہا ہے۔ ان کے کچھ پوشیدہ راز امریکی حکومت کے پاس ہیں ۔ اس کے علاوہ اڈانی کے خلاف وارنٹ اور شاہ و ڈوبھال کو عدالت میں حاضر ہونے کا نوٹس بھی وزیر اعظم کی کمزور نبض ہے۔ بعید نہیں کہ ہندوستانی وزیر خارجہ ایس جے شنکر کے اس ایکس پیغام کا سبب یہی سب ہو جس نے پورے ملک کو چونکا دیا۔ اس میں لکھا تھا کہ ’ہندوستان اور اور پاکستان نے آج فائرنگ اور فوجی کارروائی روکنے پر مفاہمت کی ہے۔‘خارجہ سیکریٹری وکرم مسری نے بھی اپنے بیان میں جنگ بندی کی تائیدکرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کے ڈائریکٹر جنرل ملٹری آپریشنز کاہندوستان کے ڈائریکٹر جنرل ملٹری آپریشنز سے سہ پہر 3 بج کر 35 منٹ پر رابطہ ہوا۔ انہوں نے اتفاق کیا ہے کہ دونوں فریق تمام قسم کی فائرنگ اور زمینی، بحری اور فضائی فوجی کارروائیاں روک دیں گے۔ جنگ بندی کے حوالے سےیہ بھی کہا گیا کہ اس جنگ بندی کا اطلاق آج شام 5 بجے سے ہوگا، دونوں فریقین کو ہدایت جاری کر دی گئی ہیں۔بھارتی سیکریٹری خارجہ کا مزید کہنا تھا کہ دونوں ممالک کے ڈائریکٹر جنرل ملٹری آپریشنز دوبارہ 12 مئی کو بات کریں گے۔

اس معاملے پاکستان کے اندر زیادہ شفافیت دکھائی دی ۔ وہاں پر نائب وزیر اعظم اسحاق ڈار نے تصدیق کی کہ پاکستان اورہندوستان نے فوری جنگ بندی پراتفاق کیاہے۔اپنے ٹویٹ میں انہوں نے لکھا کہ پاکستا ن نے ہمیشہ خطے میں امن اورسلامتی کے لئے کوشش کی ہے۔پاکستان نے امن کی کاوشوں میں اپنی خودمختاری اورعلاقائی سالمیت پرکبھی سمجھوتہ نہیں کیا۔ جنگ بندی بھنک صبح گیارہ بجے اس وقت لگ گئی تھی کہ جب پاکستانی وزیرِ خارجہ اسحاق ڈار نےجیو ٹیلی ویژن چینل کو بتایا کہ’میری آج صبح دو گھنٹے پہلے امریکی خارجہ سیکریٹری مارکو روبیو سے بات ہوئی ہے۔ میں نے ان کو کہا کہ جو کچھ انہوں نے کل رات کیا ہم نے اس کے جواب میں کیا ہے اور بین الاقوامی قانون کےتحت اپنی مدافعت ہمارا حق ہے ۔‘ اسحاق ڈار نے یہ انکشاف روبیو کی اس خواہش کا اظہار پر کیا کہ ’ہم چاہتے ہیں کہ دو ایٹمی ملکوں کے درمیان کشیدگی میں کمی ہو، دنیا اس کی متحمل نہیں ہو سکتی۔‘ اس پر موصوف کا جواب تھا کہ ، ’یہ ان کو آپ سمجھائیں۔‘۔

امریکی وزیر خارجہ مارک روبیو پاکستانی ہم منصب سے کہا کہ ، ’میں ان سے بات کرتا ہوں۔‘ ڈار نے جواب دیا ، ’گیند ان کے کورٹ میں ہے۔ ہم نے اس وقت جو جواب دینا تھا وہ کم سے کم جواب دے دیا ہے۔ اگر وہ یہاں رک جاتے ہیں تو ہم رکنے پر غور کریں گے۔ یہ کوئی مسئلہ نہیں لیکن اگر انہوں نے اگلا حملہ کیا تو ان کو بتا دیں کہ ہمارا اگلا جواب آئے گا۔‘ اسحاق ڈار کے مطابق امریکی وزیرِ خارجہ نے یقین دلایا کہ ’میں ہندوستان میں اپنے ہم منصب سے بات کرتا ہوں، اور ہم اس بات کو یقینی بنائیں گے کہ ادھر سے کوئی کارروائی نہ ہو۔‘اس بیچ فوج کی ترجمان نے وزارتِ امورِ خارجہ کی پریس کانفرنس کے دوران کہہ دیا کہ ’ہندوستانی مسلح افواج ایک بار پھر اس عزم کا اظہار کرتی ہیں کہ وہ کشیدگی میں اضافہ نہیں کریں گی، بشرطیکہ پاکستانی فوج بھی ایسا کرے۔‘یہ بیانات اندر ہی اندر کھچڑی پکنے کا اشارہ تھے۔ایک طرف امن کی فاختہ اڑائی جارہی تھی اور دوسری جانب مودی جی کے دفتر میں مکمل سناٹا چھایا ہوا تھا ۔

اس دوران اچانک شہباز شریف کے دفتر سے یہ بیان جاری ہوگیا کہ ہندوستان نے پاکستان پر میزائل اور ڈرون حملے کیے لیکن پاکستان نے انتہائی تحمل سے کام لیا۔ہندوستانی حملوں میں نہتے اور معصوم شہریوں کو نشانہ بنایا گیامگر پاکستانی افواج نے بھرپور جواب دیا۔انہوں نے دعویٰ کیا کہ ’آج ہم نے ہندوستان کو منہ توڑ جواب دیا اور بے گناہوں کے خون کا بدلہ لے لیا۔‘ اس بیان میں بھی جنگ بندی کا بلا واسطہ اشارہ موجود تھا کہ جس طرح پہلے ہندوستان نے پہلگام کا انتقام لیا اور پھر پاکستان نے بدلہ لے لیا یعنی اب کہانی اختتام کی جانب رواں دواں ہے۔ اسی کے ساتھ یہ خبر بھی آگئی کہ پاکستان کی فضائی حدود ہر قسم کی پروازوں کے لیے مکمل طور پر بحال کر دی گئی ہے۔ مسافروں سے اپنی پروازوں کے تازہ ترین شیڈول کے لیے متعلقہ ایئرلائن سے رابطہ کرنےکی گزارش کی گئی۔ اس طرح گویا حالات کے معمول پر آنے کا اعلان ہوگیا۔

دنیا کی کوئی جنگ مستقل نہیں ہوتی ۔ یہ جنگ بھی بہت جلد ختم ہو گئی ۔ امریکہ ثالث بن کر سامنے آیا اور اس کی پیشکش پر دونوں ممالک فون پر ہی امن کا معاہدہ کرنے کے لیے راضی ہوگئے۔ سیاسی مبصرین نے اب اندازہ لگانا شروع کردیا ہےکہ وزیر اعظم اس کا کتنا فائدہ اٹھائیں گے بلکہ کچھ لوگوں تو اندرا گاندھی کی مانند وسط مدتی انتخاب کروا کر اکثریت حاصل کرنے کا مژدہ بھی سنا دیا اور کچھ ا ن کے خسارے کا حساب لگانے لگے ؟ ہتھیاروں کے تاجر گوشواروں میں اپنے فائدے نقصان کا حساب کرنے میں مصروف ہوں گے ؟ میڈیا والے اپنا جائزہ لے کر دیکھ رہے ہوں گےکہ اس شور شرابے میں کتنے اشتہارات ملے، سبسکرائبرس اور ناظرین کی تعداد میں کتنا اضافہ ہو ا اور کمائی کتنی بڑھی لیکن اس کی اصل قیمت تو ان ماؤں چکائی جن کے بیٹے سرحد سے نہیں لوٹےیا بمباری شکار ہوئے ۔ اس کی قیمت چکانے والوں میں وہ بچے بھی شامل ہیں کہ جن کے سر سے والدین کا سایہ اٹھ گیا ۔ ایسا ہر جنگ میں ہوتا ہے اور اس بار بھی ہوا اسی لیے ساحر لدھیانوی نے کہا تھا؎

بم گھروں پر گریں کہ سرحد پر،روح تعمیر زخم کھاتی ہے

کھیت اپنے جلیں کہ اوروں کے،زیست فاقوں سے تلملاتی ہے

ٹینک آگے بڑھیں کہ پیچھے ہٹیں،کوکھ دھرتی کی بانجھ ہوتی ہے

فتح کا جشن ہو کہ ہار کا سوگ،زندگی میتوں پہ روتی ہے

Comments are closed.