اب ہندو علاقوں میں چائے پینا بھی جرم!

تجزیہ خبر: نازش ہما قاسمی
حکومت کی سرپرستی میں مسلم ماؤں کی گود، بچوں کو یتیم اور سہاگنوں کا سہاگ اجاڑنے کی جو اسکیم شروع ہوئی ہے اس پر پابندی سے عمل ہورہا ہے۔ یکے بعد دیگرے، مسلسل، پے درپے ہر دن ملک میں کوئی نہ کوئی ایسا واقعہ رونما ہوتا ہے جس سے مسلم مائوں کی گود سونی کردی جاتی ہے، دوشیزائوں سے ان کا سہاگ چھین لیاجاتا ہے، بہنوں کی آس توڑ دی جاتی ہے۔ اخلاق، پہلو، نعیم انصاری، نجیب، حافظ جنید وغیرہ اسی اسکیم کے تحت اپنے خالق حقیقی سے جاملے؛ لیکن آج تک ان کے اہل خانہ کو انصاف نہیں ملا، انصاف تو دور الٹا ان کے اہل خانہ کے ہی خلاف مقدمہ درج کرکے ظالموں کو چھوٹ دی گئی۔ گزشتہ روز چندولی میں خالد کو زندہ جلانے کا معاملہ سامنے آیا تھا جس میں وہ زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے اسپتال میں دم توڑ گیا ، مرنے کے بعد اسے اسپتال سے گھر آنے کےلیے ایمبولینس تک نصیب نہیں ہوئی، ٹرک کے ذریعے لاش گھر لائی گئی، اس معاملے میں نامزد مجرم کوپکڑنے کے بجائے انتظامیہ نے خالد کو ہی قصور وار ٹھہرایا اور کہاکہ تنتر منتر کی وجہ سے اس نے خود کی جان لی؛ لیکن اس کے والد اور وہ خود مرتے دم تک کہتا رہاکہ مجھے ’مسلمان‘ ہونے کی وجہ سے مارا گیا، مجھے جے شری رام نہ کہنے کی وجہ سے آگ کے حوالے کیاگیا؛ لیکن اس کی ایک نہ سنی گئی، ان کی والدہ سے جبراً دوسرا بیان دلوایا گیا اور اسی کو میڈیا نے نشر کیا ۔ جن لوگوں نے خالد کی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل کی ان کے خلاف کارروائی شروع کردی گئی ، جن سماجی کارکنان نے مخالفت کی انہیں دھمکایاگیا، جو لوگ اس کا مقدمہ آگے لے جاناچاہتے تھے ان کے خلاف کارروائی ہوئی جس میں خالد کے چچا محمد زاہد پر بھی مقدمہ قائم کیاگیا۔ ابھی یہ معاملہ ٹھنڈا بھی نہیں ہوا تھا کہ گزشتہ روز گجرات کے گودھرا (یہ وہی گودھرا ہے جہاں ۲۰۰۲ میں مسلم کش فسادات میں ننگا ناچ ہوا تھا اور سرکاری اعدودشمار کے مطابق دو ہزار سے زائد مسلمانوں کو ماردیاگیا تھا) میں مکتب میں پڑھنے والے بچوں کی لنچنگ کی کوشش کی گئی وہ تو شکر ہے کہ ان کی جان بچ گئی صرف زخم آئے۔ حافظ سمیر، حافظ سہیل اور حافظ سلمان کا قصور اتنا تھا کہ وہ چائے پینے ہندو علاقے میں کیوں گئے؟ اور جب ہندو علاقے میں گئے تو جب فرقہ پرستوں نے ان لوگوں سے جے شری رام کا نعرہ لگانے کو کہا تو ان حفاظ نے کیوں نہیں لگایا ؟ اور جب نہیں لگایا تو سزا تو بنتی ہی ہے؛ اسلیے انہیں اتنا مارا کہ سر سے خون رسنے لگا اور کپڑے خون میں لت پت ہوگئے۔
کیا اب واقعی ملک تقسیم کے دہانے پر ہے مسلمانوں کا ہندو علاقوں میں جانا جرم ہوگیا ہے اور کوئی غلطی سے چلاگیا تو کیا اسے مارا جائے گا۔ جے شری رام کے نعرے لگانے کےلیے مجبور کیاجائے گا؟ ان تینوں مدرسوں کے بچوں کی پٹائی سے تو ایسا ہی لگ رہا ہے کہ اب یہی ہوگا؛ کیوں کہ نظم ونسق اور تحفظ کی ذمہ داری جس پر عائد ہوتی ہے ان پولس والوں نے ان لڑکوں کو ہی پھٹکار لگائی ہے اور ان سے کہا کہ تم ہندو علاقوں میں کیوں آئے ؟ وہ بھی رات کے گیارہ بجے چائے پینے ۔۔۔تمہیں نہیں آناچاہئے تھا۔ گودھرا سے قریب کے رہنے والے فرحان سلام کے مطابق اس کا گائوں گودھرا سے چالیس کلو میٹر کی دوری پر واقع ہے ایک بار وہ لوگ ہائیوے سے گزر رہے تھے گرمی کی وجہ سے ایک جگہ ٹھہر گئے (جو ہندو علاقہ تھا) وہاں پولس نے ان لوگوں کی گاڑیاں چیک کیں اور سب سے تین سو روپیہ بطور جرمانہ یہ کہہ کر لیا کہ اس علاقے میں تمہیں داخل نہیں ہوناچاہئے تھا تم اپنے علاقے میں گھوموں پھرو۔ کیا واقعی اب ہندو علاقوں میں مسلمانوں کو نہیں جاناچاہئے ؟ اگر گئے تو جان جاسکتی ہے، حملے ہوسکتے ہیں۔ ہوسکتا ہے یہ ابھی گجرات میں نافذ ا ہوا ہو اور مستقبل میں پورے ملک میں اسے نافذ کردیاجائے کہ کوئی مسلمان ہندو علاقوں میں نہیں جائے گا، وہاں سے خریدوفروخت نہیں کرسکتا، وہاں راستوں سے بھی نہیں گزرسکتا خود کا راستہ الگ بنائیں اور ادھر سے چلیں ۔۔نہ ماننے کی صورت میں جو مسلمان ہندو علاقوں میں جائے گا اس کی خیر نہیں ۔۔۔اس سے جرمانہ بھی وصولا جائے گا اور جے شری رام بھی کہنا پڑے گا، اگر نہیں کہے گا تو جان سے بھی ہاتھ دھونا پڑسکتا ہے۔لیکن ہندو مسلم علاقے میں بلا خوف وخطر گھومے گا کیو ںکہ مسلمان مذہب کے نام پر کسی کا قتل نہیں کرتے ، وہ کسی سے جبراً اللہ اکبر کے نعرے نہیں لگواتے۔ وہ کسی کی ماں کی گود سونی کرنا گوارہ نہیں کرتے او رنہ ہی دوشیزائوں کا سہاگ اجاڑتے ہیں ایسا تو وہ لوگ کرتے ہیں جو انسانیت سے عاری ہوتے ہیں۔جنکے اندر حیوانیت بھری ہوتی ہے اور یہ انسانی درندے مسلمانی خون کے پیاسے ہوتے ہیں اسلئے جہاں بھی مسلمانوں کو کمزور اور نہتہ دیکھتے ہیں بغیر کسی رحم کے مسلمانوں کے خون سے ہولی کھیلنے لگتے ہیں ۔
Comments are closed.