اب بھی نہ جاگے تو ؟

محمد سفیان قاسمی سہارنپوری
(مدرسہ اسلامیہ حسینیہ، اغوانپور، میرٹھ)
حسنِ تعمیر کی شاہکار یہ دیدہ زیب دو عمارتیں پارلیمنٹ صدارتی محل پی ایم او یا مغل دور کی تعمیرات کا حصہ نہیں ہیں، بلکہ یہ ملک کے دو عظیم مسلمانوں کی حسنِ کاوش فکرِ صحیح اور تعلیم سے محبت کا مظہر ہیں۔جن دو اشخاص نے ان دونوں دانش گاہوں کے لئے بناء سے لیکر پایۂ تکمیل تک پہنچنے میں شب و روز محنت کی اور آج بھی ان تعلیم گاہوں کے وجود و بقاء کے لئے وقت کے ظالم و جابر حکمرانوں سے بر سرِ پیکار ہیں، وہ لوگوں کے درمیان سیاسی حیثیت اور سیاسی اثر و رسوخ سے زیادہ متعارف ہیں اور دونوں دو مختلف سیاسی پارٹیوں سے وابستہ ہیں۔ایک بہوجن سماج پارٹی سے ایم ایل سی رہے ہیں (حاجی محمد اقبال)تو دوسرے کا شمار سماج وادی پارٹی کے بانیان میں ہوتا ہے اور وہ اپنے پچاس سالہ طویل سیاسی سفر میں نو بار ممبر اسمبلی ایک بار راجیہ سبھا کے ممبر رہے ہیں اور فی الوقت ممبر آف پارلیمنٹ ہیں۔ (محمد اعظم خان)
لیکن سطورِ بالا میں ان دونوں حضرات کو جس وجہ سے عظیم مسلمان لکھا گیا ہے وہ ان کی سیاسی وابستگی نہیں، بلکہ بقول مولانا عطاء الرحمان وجدی (امیر وحدتِ اسلامی ہند سہارنپور)’’ ہر آدمی کی مختلف حیثیتیں ہوا کرتی ہیں، اعظم خان صاحب کی بھی مختلف حیثیتیں ہیں اور ہمارے لیے اعظم خان صاحب کی تعظیم و تکریم اور عزت افزائی کا معیار ان کی موجودہ سیاسی حیثیت نہیں، بلکہ ان کا وہ عظیم الشان تاریخی کارنامہ ہے جو مجاہد آزادی مولانا محمد علی جوہر کے نام سے منسوب جوہر یونیورسٹی کی شکل میں رامپور میں موجود ہے ۔‘‘(مولانا نے یہ بات اس وقت کہی تھی جب بتاریخ ۲۴ جنوری ۲۰۱۳ء مادرِ علمی مدرسہ سراج العلوم فتح پور بھادوں ضلع سہارنپور میں حکیم مولانا محمد عثمان قاسمی ثم المدنی (جنرل سکریٹری مدرسہ سراج العلوم فتح پور مقیم حال مدینہ منورہ) کی دعوت پر اعظم خان صاحب تشریف لائے تھے اور استقبالیہ جلسے کے اسٹیج سے خاں صاحب کو خراج تحسین ان کی سیاسی خدمات پر دیا جا رہا تھا اور ہر شخص ان کی سیاسی حیثیت پر ہی رطب اللسان تھا)
ہزاروں ایکڑ زمین میں پھیلے ہوئے یہ دونوں ادارے ایک قابلِ فخر تاریخی کارنامہ ہے جسے ہزارہا مخالفت کے باوجود جھٹلایا نہیں جاسکتا،جوہر یونیورسٹی اور گلوکل یونیورسٹی مسلمانوں کے ذریعے آزادی کے بعد قائم کیے جانے والے اداروں میں تو سرِ فہرست ہےہیں، ملکی اعتبار سے بھی ان دونوں اداروں نے اپنی الگ شناخت بنائی ہے۔ جوہر یونیورسٹی کے معیارِ تعلیم اور اسٹرکچر کا اندازہ اعظم خاں صاحب کے ان الفاظ سے کیا جا سکتا ہے کہ ’’محمد علی جوہر یونیورسٹی کا میڈیکل کالج اس ملک کا تاریخی میڈیکل کالج ہے اس کے معیار کا آپریشن تھیٹر ہندوستان میں تو نہیں البتہ نیویارک میں ہو سکتا ہے۔‘‘
حاجی محمد اقبال اور اعظم خاں سیاسی اعتبار سے اگرچہ دونوں کی راہیں جدا ہیں؛ لیکن حکومتی جبر و استبداد کے تعلق سے دونوں ایک ہی کشتی کے سوار ہیں ایک کو کھنن مافیا قرار دیا گیا ہے تو دوسرے کو زمین مافیا، اور دونوں کا گناہ بھی قدرِ مشترک یہی ہے کہ انہوں نے مسلمان ہونے کے باوجود تعلیمی ادارے قائم کرنے کی ہمت و جرأت کیوں کی؟ان لوگوں نے کیوں سوچ لیا کہ وہ قوم جس کے بچے پنکچر لگانے، سبزیوں کے ٹھیلے لگانے، پھلوں کی ریڑھی لگانے اور مزدوری کرنے کے لیے جانے جاتے ہیں، اس قوم کے بچے ڈاکٹر، انجینیر، وکلا اور جج بنیں؟انہوں نے قوم و ملت کے بچوں کے بہتر مستقبل کےلیے خوابوں کی حسین تعبیر گاہ کیوں بنا ڈالی؟حاجی اقبال جنہوں نے ناخواندہ ہونے کے باوجود گلوکل نامی یونیورسٹی کی شکل میں قوم کو ایک عظیم الشان مرکز تعلیم دیکر اپنی علم دوستی کا ثبوت دیا، ان پر حکومت وقت نے کیا کیا کرم فرمائیاں کی ہیں، کس کس طرح ان کے اثاثوں کو منجمد کیا گیا، ان کی جائیدادوں کو ضبط کیا گیااور وقتاً فوقتاً شر پسند عناصر کس طرح ان کے اور یونیورسٹی کے خلاف ریلیاں نکالتے رہتے ہیں اور ہمہ وقت ان کے سر پر گرفتاری کی تلوار لٹکی رہتی ہے۔اہلیان سہارنپور اس ظلم و بربریت سے بخوبی واقف ہیں۔
محمد اعظم خاں اور ان کی قائم کردہ مولانا محمد علی جوہر یونیورسٹی کے خلاف حکومت وقت جو ننگا ناچ کر رہی ہے وہ آج کل ہم سب کے سامنے ہے، اقتدار کے نشے میں چور بد مست ہاتھیوں نے کس ڈھٹائی اور بے شرمی کے ساتھ مرکز علم و فن کو پیروں تلے روند ڈالا ہے، اس کی نظیر کم ازکم آزاد ہندوستان کی تاریخ میں ملنا غیر ممکن ہے۔ اور یہ بھی تلخ حقیقت ہے کہ تعلیم گاہوں کو نشانہ وہی لوگ بنا سکتے ہیںجنہیں تعلیم سے الرجی ہو، جو خود بھی جاہل ہوں اور دوسروں کو بھی جاہل دیکھنا چاہتے ہوں، جہالت جن کے گھر کی لونڈی ہو، ناخواندگی جن کا امتیازی وصف ہو، علم و ادب سے جنہیں اللہ واسطے کا بیر ہو، حکمت و دانشمندی سے جو بچ کر چلتے ہوں، معرفت سے جو خوف زدہ رہتے ہوں، اس لیے ایسے نازک حالات میں ہماری ذمے داری دو چند ہوجاتی ہے کہ ہم اپنے ملی اداروں کے وجود و بقا کے لیے ظلم و بربریت کے خلاف متحد ہوں ،ہر سطح پر اس فرعونیت کے خلاف آواز اٹھائی جائے، اگر ہم نے سست روی اختیار کی اور چپی سادھے رہے تو پھر ہمیں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی ،جامعہ ملیہ اسلامیہ اور دیگر اداروں سے بھی ہاتھ دھونے کے لیے تیار رہنا چاہیے، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی تو ویسے بھی گذشتہ کئی سالوں سے ان کے نشانے پر ہے اور وقتاً فوقتاً شر پسند اور فرقہ پرست ٹولہ وہاں کے ماحول کو سبوتاژ کرنے کے درپے ہوتے ہیں۔ اس لیے خدارا آپسی اختلاف کو پس پشت ڈال دیں اور متحد ہو کر نا انصافیوں کا مقابلہ کریں، مشترکہ آواز لگائی جائے، یاد رہے کہ مسئلہ اعظم خاں یا حاجی اقبال نہیں؛ بلکہ آپ کی اپنی یونیورسٹیاں ہیں جو ہمارا قابل فخر قومی و ملی سرمایہ ہے جن کی حفاظت کرنا ہمارا قومی فریضہ ہے اور یہ بھی یاد رہے کہ ظلم سہنا ظلم کرنے سے بڑا گناہ ہے۔
کچھ نہ کہنے سے بھی چھن جاتا ہے اعجاز سخن
ظلم سہنےسےبھی ظالم کی مدد ہوتی ہے
Comments are closed.