ہم بھی ہیں قصوروار

مدثراحمد
ایڈیٹر ،روزنامہ آج کاانقلاب،شیموگہ۔9986437327
تین طلاق کے معاملے کو لیکر جہاں سیاسی اور مذہبی جماعتیں آمنے سامنے ہوچکی ہیںوہیں ایک طرف سے دیکھا جائے تو تین طلاق کے قانون کے نفاذ کے ذمہ دار خود مسلمان بھی ہیں۔پچھلے کچھ عرصے سے کچھ مسلمانوںنے قرآن وحدیث کو اپنی سہولتوں کے مطابق اُس کی تشریح کرتے ہوئے اُ س پر عمل کرنے کی پہل کی تو دوسری جانب طلاق،خلع اور حلالہ جیسے معاملات میں کچھ اہل علم حضرات نے اس کا غلط استعمال کیا۔سب سے زیادہ غلط استعمال کرنے والے وہ لوگ ہیں جو شادی رام گھڑ جوڑے یا شادی رام گھر توڑے کے زمرے میں شمار ہوتے ہیں۔ہمارے معاشرے میںکچھ ایسی کمیٹیاں و ادارے بھی ہیں جو ازدواجی زندگیوں کو بہتر بنانے کے بجائے اُس میں انتشار پیدا کرتے ہیں،اُس کیلئے یہ لوگ طرفین سے بھاری رقومات بھی وصول کرتے ہیں۔ایک طرح سے سماج کا ایک طبقہ ازداوجی زندگیوں کو بہتر بنانے کے بجائے اسے کاروبار کے طو رپر استعمال کرنے لگاہے۔مختلف علاقوںمیں یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ جب کوئی مردوعورت اپنے رشتے سے علیحدگی اختیارکرنے کی کوشش کرتے ہیںتو اس درمیان ایک گروہ ان کے درمیان پہنچ جاتا ہے اور وہ لڑکی کو یہ کہہ کر اکساتا ہے کہ کیونکر ایسے ہی تم خلع لے رہی ہو،اس معاملے کو عدالت میں لے جائینگے وہاں تمہیں نہ صرف خلع ملے گی بلکہ مینٹنس یا معاوضہ بھی ملے گا جس سے تم نئی زندگی کی شروعات کرپائوگی۔اس کیلئے یہ گروہ ملنے والی رقم میں سے ایک حصہ اپنے کمیشن کے طو رپر لیتا ہے،اسی طرح سے مرد کے دماغ میں بھی یہ ٹھونسا جاتا ہے کہ تمہاری بیوی کے گھر والے تم سے اتنے پیسے وصول کرنے والے ہیں یا پھر تمہاری املاک کاکچھ حصہ تم سے لینگے ،تم پر جہیز حراسانی کا معاملہ درج کروائینگے۔جس کی وجہ سے تمہاری زندگی اذیت ناک ہوجائیگی،اس لئے معاملے کو رفعہ دفعہ کرنے کیلئے اتنے پیسے لے آئواور ہمارے اخراجات کی اتنی رقم دے دو۔آج کل معاشرے میں طلاق وخلع کی وجوہات تلاش کئے جائیں تو سب سے زیادہ معاملات دنیائوی امور کو لیکر پیش آرہے ہیں،دینی امور کی وجہ سے طلاق یا خلع کے معاملات01.0 فیصد سے کم ہیں۔اکثر لڑکوں کاکہنا ہوتا ہے کہ بیوی کے خیالات اس سے نہیں ملتے،وہ پرانے خیالات کی ہے یا پھر یہ کہا جاتا ہے کہ وہ نہایت ماڈرن ہے،ہر وقت ٹی وی یا موبائل میں گھسی رہتی ہے اورضرورت سے زیادہ خرچ کرتی ہے۔اسی طرح سے بیوی کی شکایتیں ہوتی ہیں کہ شوہر اس کے اخراجات کو پورا نہیں کرتا،شوہر اپنے ماں باپ کی طرف داری زیادہ کرتا ہے ،اسے پردے میں رہنے کی بندش کرتا ہےیاپھر اس کے ساتھ سختی کے ساتھ پیش آتا ہے۔طلاق کی یہ وجوہات دنیائو ی وجوہات کہلاسکتی ہیں۔لیکن ماضی کے واقعات کا مطالعہ کیا جائے تو اکثر قاضیوں کے سامنے یہ باتیں آتی تھیں کہ شوہر بے دین ہے،بے نمازی ہے،والدین اور اس کے حقوق ادا کرنے والوںمیں سے نہیںہے،مشرک ہے یا پھر حقوق اللہ و حقوق العباد سے دور رہتا ہے۔اسی طرح سے شوہر کہا کرتا تھا کہ بیوی بے نمازی ہے،اپنے بچوںکی تربیت صحیح طریقے سے نہیں کرتی،اللہ ورسول کے احکامات سے دور رہتی ہے۔لیکن اب حالات بدل چکے ہیں،جس کی وجہ سے حکومت نے بھی طلاق کے قانون میں ترمیم لائی ہے اور ہم ان حالات کے خود ذمہ دار ہیں۔طلاق و خلع کے معاملات کے فیصلے وہ لوگ بھی کرتے ہیں جنہیں دین کی الف ب تک معلوم نہیں ہے۔مسجدوں اور مدرسوں کے احاطوں کو کچھ لوگوںنے فیصلوںکے گڑھ بنا رکھے ہیں جہاں پر غیر شرعی طریقوں سے فیصلے لئے جاتے ہیں۔کچھ ایسے مقامات بھی ہیں جہاں کے ذمہ داران دبنگ رویہ اختیار کرتے ہوئے اُن لوگوں کے حق میں فیصلے سناتے رہے جن کےہاتھوںمیں لاٹھی ہو،یعنی جس کی لاٹھی اُس کی بھینس۔ہم نے کچھ ایسے فیصلے بھی دیکھے ہیں جس میںراتوں رات طلاق ہوجاتی ہے اور دوسرے تیسرے دن مطلقہ خاتون کی شادی کسی اور جگہ پرہوجاتی ہے۔اسلام نے ہر معاملے کیلئے قانون بنایا ہے،نکاح،خلع،طلاق،حلالہ او رعدت جیسے معاملات کو کھل کر بیان کیا ہے۔مگر ان تمام قوانین کو نافذ کرنے کیلئے خود ہم مسلمان ذہنی طو رپر تیارنہیں ہیں۔کچھ ایسے واقعات بھی سنے ہیں کہ طلاق ہونے کے کچھ عرصے بعد بغیر حلالہ کے رجوع بھی کیا گیا ہے۔سماج کا عزت دار طبقہ کہہ جانے والے گھرانوں میں یہ معاملات عام ہیں۔شائد یہی وجہ ہے کہ اللہ نے تین طلاق قانون کے نام پر مسلمانوں کوذلیل کیا ہے۔اکثر ہمارے علماء یہ کہتے ہیںکہ ہم پر جو مصیبتیں و آفتیں اور عذاب نازل ہورہا ہے وہ دین سے دوری کے سبب ہورہا ہے،عام طور پر دین سے دوری کا فہم ہم نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ نماز نہ پڑھنا،روزہ نہ رکھنا،داڑھی نہ رکھنا،زکوٰۃ نہ دینا اور حج نہ کرنا ہی دین سے دوری ہے۔جبکہ دین ہر معاملے میں ہے۔پیدا ہونے سے لیکر کفن پہننے تک بھی ہمارا ہر کام دین کے دائرے میں ہی ہوتا ہے تو طلاق وخلع جیسے اہم معاملے ہمارے آنکھوں کے سامنے غیر شرعی طریقے سے انجام دئیے جارہے ہیں۔اگر مسلمانوںنے ایسے معاملات پربھی توجہ دی ہوتی تو شائد یہ حالات پیدا نہ ہوتے۔جن رشتوں سے ہماری نسلیں بڑھتی ہیں اُن رشتوں کو ہی ہم حرام کی جانب لے جائیں یا شریعت کو پامال کرتے ہوئے قائم رکھیں یہ تو کیسے ہماری نسلیں پاک دامن ہونگی؟۔ویسے دیکھا جائے تو طلا ق وخلع جیسے واقعات کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ آج ہمارے نکاح جیسی سُنت ہی بد سے بدتر طریقے سے انجام دی جارہی ہیں،ہمارے ہندوئوں و عیسائیوںکی تمام رسمیں اختیارکی جارہی ہیں،پہلے نکاح کے بعد لڑکی کو دعائوں کے ساتھ دلہا کے حوالے کیا جاتا تھا،لیکن آج دلہے کے ہاتھ میں دلہن کا ہاتھ دیتے وقت فلمی گانوں کے ساتھ رخصت کیا جارہا ہے۔ولیمہ کھانا سُنت ہے،لیکن ولیمہ کی پوری سُنت کوفوٹو سیشن میں تبدیل کیا گیا ہے۔ساتھ ہی میں کیک کاٹ کر عیسائیوںکی رسم کو پوری کیا جارہا ہے،کیک کے بغیر آج ولیمہ کرنا ایسا محسوس کیا جارہا ہے کہ ولیمہ ہی نہیں ہوگا۔شادی کے دو دن بعد لڑکے ولڑکی کے واٹس ایپ اسٹیس میں ایک دوسرے کے ساتھ گلے میں لپٹے چپٹے ہوئے تصویریں دیکھی جارہی ہیں۔سوال یہ ہے کہ جب ہمارے ازدواجی زندگیاں ہی پوری طرح سے دین سے دورہوچکی ہیں اور ہم نے ہماری شریعت پر عمل نہ کرتے ہوئے اپنے آپ کو دنیائوی بنا رکھا ہے تو غیر کیونکر چپ بیٹھیں گے،کس بنیاد پر غیر شریعت میں مداخلت نہیں کرینگے؟کیونکر مودی یوگی جیسے لوگ اسلامی قوانین کو ہٹا کردنیائوی قوانین نافذ نہیں کرینگے؟۔
Comments are closed.