زمانے کی جنبش کا انتظار نہ کیجیے!!!

محمد صابر حسین ندوی
[email protected]
7987972043
مولانا ابوالکلام آزاد رحمہ الله مجاہد آزادی ہند، مفسر باکمال، اور مدبر و سیاست داں تھے، آپ کے دل میں امت اسلامیہ کےلیے جوش و جذبات اور احساسات کا سمندر ٹھاٹھیں مارتا تھا، امت کو جھنجھوڑنا اور ان کے ضمیر کو کچوکے لگا کر اسلامی تعلیمات کی احیا پر ابھارنا اور ہندوستانی ثقافت و تمدن پر اپنی گرفت کے ساتھ سیاسی محاذ پر خود کو مضبوط کرنے کےلیے بارہا تقریریں کرتے، مضامین لکھتے، علمی میدان میں ذہن سازی کرتے، لوگوں سے ملتے، ملاتے اور ہندوستان میں اسلامی تاریخ و وراثت کے ساتھ ساتھ نبی محمد ﷺ کے فرمودات کی دہائی دیتے، آپ اپنی سیاسی بصیرت اور دوربین نگاہوں کے طفیل وہ سب کچھ بیان کرتے؛ جنہیں عام آنکھیں صدیوں بعد دیکھتی ہیں، وہ یہ کہ کس طرح ہندوستان میں مسلمانوں کے ساتھ تقسیم کی پاداش میں خوف و ہراس اور نفرت و ستم کا سلوک کیا جائے گا، عام طور پر لوگوں نے آپ کی وہ تقریر سنی ہے، جو دہلی کی جامع مسجد میں کی گئی؛ جب کہ مسلمان ہندوستان چھوڑ کر پاکستان کا رخ کر رہے تھے، سچی بات یہ ہے کہ آپ کے اقوال و افعال میں امت اسلامیہ کی مصیبتوں کا حل اور زخموں کا مرہم چھپا ہوا تھا، جو کسی بھی بیمار کو شفایاب کر سکتا تھا؛ لیکن افسوس کی بات ہے کہ اس مرہم پر ہم مر گئے، لیکن زخم پہ لگا کر صحت یاب نہ ہوئے۔ ذیل میں دو اقتباسات پیش کیے جاتے ہیں، جو مختصر مگر جامع ہیں، روح و جگر میں حرارت پیدا کر دینے کےلیے کافی ہیں، کاش آپ کا پیغام کسی کے دل میں اتر جائے۔
مولانا نے اپنی ایک کتاب میں سستی و کاہلی کرنے والے اور بستر عیش پر دراز رہنے والوں کو مخاطب کرتے ہوئے لکھا ہے، اور کیا خوب لکھا ہے: "بڑوں بڑوں کا عذر یہ ہوتا ہے کہ وقت ساتھ نہیں دیتا اور سروسامان و اسباب کار فراہم نہیں ہے، لیکن وقت کا عازم و فاتح اٹھتا ہے اور کہتا ہے کہ اگر وقت ساتھ نہیں دیتا، تو میں اس کو ساتھ لوں گا، اگر سرو سامان نہیں تو اپنے ہاتھوں سے تیار کر لوں گا ،اگر زمین موافق نہیں تو آسمان کو اترنا چاہیے، اگر آدمی نہیں ملتے تو فرشتوں کو ساتھ دینا چاہیے، اگر انسانوں کی زبانیں گونگی ہیں، تو پتھروں کو چیخناچاہیے، اگر ساتھ چلنے والے نہیں تو کیا مضائقہ؟ تو درختوں کو دوڑنا چاہیے! اگر دشمن بے شمار ہیں تو آسمان کی بجلیوں کی بھی کوئی گنتی نہیں، اگر رکاوٹیں اور مشکلیں بہت ہیں بہت ہیں، تو پہاڑوں اور طوفانوں کو کیا ہو گیا کہ راہ صاف نہیں کرتے۔ وہ زمانے کا مخلوق نہیں ہوتا کہ زمانہ اس سے اپنی چاکری کرائے وہ وقت کا خالق اور عہد کا پالنے والا ہوتا ہے، وہ زمانے کے حکموں پر نہیں چلتا؛ بلکہ زمانہ آتا ہے تاکہ اس کی جنبش لب کا انتظار کرے، اور دنیا پر اس لیے نظر نہیں ڈالتا کہ کیا کیا ہے؟ جس سے دامن بھر لوں، یہ دیکھنے کےلیے آتا ہے کہ کیا کیا نہیں ہے جس کو پورا کروں۔”(تذکرہ: ۲۴۸)
آزادی ہند کے بعد سرزمین ہند پر سب سے بڑا زخم اس کی تقسیم کا تھا، جہاں صحیح اور غلط کے سارے امتیازات مٹی میں مل گئے تھے، دانشوروں کا طبقہ بھی حیران و ششدر تھا، ایسی ہماہمی تھی کہ نہ کچھ سوجھتا تھا اور نہ سمجھ آتا تھا، پورا ہندوستان اور بالخصوص مسلمان تسبیح کے دانے کی طرح بکھر کر رہ گئے تھے، چنانچہ ١٩٤٧ء میں ملک کی تقسیم کے بعد جو قیامت خیز واقعات پیش آئے تھے، اس نے مسلمانوں کو خوف زدہ کر رکھا تھا ایسے میں جب دہلی کی جامع مسجد میں مسلمانوں کا جلسہ عام ہوا تو مولانا نے خطاب کرتے ہوئے فرمایا تھا: "آج زلزلوں سے ڈرتے ہو۔ کبھی تم خود ایک زلزلہ تھے۔ آج اندھیرے سے کانپتے ہو۔ کیا یاد نہیں رہا کہ تمہارا وجود ایک اُجالا تھا۔ یہ بادلوں کے پانی کی سیل کیا ہے کہ تم نے بھیگ جانے کے خدشے سے اپنے پائینچے چڑھالیے ہیں۔ وہ تمہارے ہی اسلاف تھے جو سمندروں میں اُتر گئے۔ پہاڑوں کی چھاتیوں کو روند ڈالا۔ بجلیاں آئیں تو اُن پر مسکرائے۔ بادل گرجے تو قہقہوں سے جواب دیا۔ باد صرصر اُٹھی تو رُخ پھیر دیا۔ آندھیاں آئیں تو اُن سے کہا۔ تمہارا راستہ یہ نہیں ہے۔ یہ ایمان کی جانکنی ہے کہ شہنشاہوں کے گریبانوں سے کھیلنے والے آج خود اپنے ہی گریبان کے تار بیچ رہے ہیں اور خدا سے اِس درجہ غافل ہو گئے ہیں کہ جیسے اُس پر کبھی ایمان ہی نہیں تھا”۔
Comments are closed.