ارتداد سے حفاظت کی تدبیریں( قسط نمبر3)

 

 

بقلم: مفتی محمد اشرف قاسمی

عالم ہمہ ویرانہ زچنگیزئ افرنگ
معمارحرم باز بہ تعمیرجہاں خیز

علاقہ پرستی

ان تازہ خدا ؤں میں بڑا سب سے وطن ہے
جو پیرہن اس کا ہے، وہ مذہب کا کفن ہے
یہ بت کہ تراشیدۂ تہذیب نوی ہے
غارت گر کاشانۂ دینِ نبویؐ ہے

بعض متمول مدا رس میں علا قہ واد کا کفر اور نفا ق انتہا ئی ڈھٹا ئی اور بےحیا ئی کے ساتھ معصوم ذہنو ں میں بٹھا یاجا تا ہے۔ ایسا محسوس ہو تا ہے کہ ان مدا رس میں وسیع تر اخوۃ اسلامی اور مو اخاۃ دینی کے بر عکس، پورے خلو ص و تزَ نْدُقْ کے ساتھ اسلام کے نام پر بچوں کوصرف اور صرف عبدا للہ ابن ابی منا فق کا فلسفہ پڑھا یا اور سمجھا یا جاتا ہے۔ وہاں کچھ غریب ریا ستوں کے بچوں کا دا خلہ اور اساتذہ کا تقرر ممنوع ہے ۔ اگر کہیں ایسا صاف لفظوں و شکلوں میں نہیں ہے تو پھر اس سلسلے کا ایک الم ناک پہلو یہ بھی ہے کہ ایسے متمول علا قہ میں وا قع مد رسوں اور مسجدوں میں ،مالی لحا ظ سے کمزور علا قوں کے علماء اور بچوں کے خلا ف مختلف طرح کی سازشیں اور پریشانیاں کھڑی کرنے اوراستفادہ اور افادہ کا سلسلہ بند کرنے کی تبلیغ عام ہو تی جا رہی ہے ۔ اِن جیسے مدرسوں کے ناسمجھ منتظمین ، دین کے نام پربچوں کو اگر علا قہ واد کا کفر سکھا نا بند کردیں تو یہی ان کی طرف سے دین کی بڑی خدمت ہو گی۔ اس سلسلے میں خا ص طور پر مندرجہ ذیل دوباتیں قابل تو جہ ہیں۔
(الف)دارلاقا مہ کا مطلب یہ ہے کہ اس میں باہر کے طلباء قیام کریں گے۔ اس کا نمو نہ’’ صفہ درسگاہ نبوی علی صا حبھا الصلوۃ والسلام‘‘ ہے۔ اس درسگاہ میں ایک بھی مقامی طالب علم رہائش نہیں اختیا ر کر تا تھا ،سب باہر کے تھے اور کسی بھی علا قے کے طلبا ء پر پابندی نہیں تھی ۔ مقامی طلباء کے لیے مختلف رہائشی مکانات کے علا وہ مدینہ منورہ کی دوسری آ ٹھ مسجدوں میں حضرت رسول اللہ ﷺ نے منظم تعلیم کا سلسلہ جاری فرمایاتھا۔ اس لیے دار الا قامہ میں دوسرے علا قہ کے طلباء کے لیے دروازے بند کرنا سوفیصد سنت کے خلا ف ہے ۔ع

اقوام میں مخلوقِ خدا بٹتی ہے تو اسی سے
قومیت ِاسلام کی جڑ کٹتی ہے تو اسی سے

(ب) کچھ ارباب ِ مدارس مقا می مدرسین کے تقرر کے لیے غیر مقامی علماء کے راستے بند کرتے ہیں ، اس سلسلے میں حکیم الا مت حضرت تھا نوی رحمۃ اللہ علیہ کا یہ فرمان بہت ہی اہمیت کا حامل ہے ۔

’’ میری تو رائے ہے کہ مدرس بستی کے نہ رکھے جائیں بلکہ باہری رکھے جائیں، میں نے ایک مرتبہ طلباء کے متعلق یہ سمجھا کہ جیسے باہر کے طلباء کاوظیفہ ہو تا ہے، ایسے ہی بستی کے طلبا ء کاوظیفہ ہونا چاہئے، چنانچہ اس پر عمل کیا گیا مگر قواعد کی رو سے بعض طلباء کے وظائف بند کرنے کی ضرورت پیش آ ئی تو دس آ دمی ان کے حا می کھڑے ہو گئے، تب میں یہ سمجھا کہ بزرگوں کی باتوں میں دخل دینا ٹھیک نہیں ہے۔‘‘[اسی طرح مقامی مدرسین کے فتنوں کوروکنا دشوار ہو تا ہے]۔
( ماہنامہ ترجمان دیوبند صفحہ۱۳؍ ماہ اکتوبر نومبر۲۰۰۲ء ۔کالم: تبرکات ِاکا بر۔ عنوان: اصلاح ِمدارس)

ہو قیدِ مقامی تو نتیجہ ہے تبا ہی
رہ بحر میں آ زادِوطن صورتِ ماہی
ہے ترک وطن سنت محبوب الٰہی
دے تو بھی نبوت کی صداقت پہ گواہی

اس کفر ونفاق کو ختم کرنے کے لیے بنیا دی طور پر دو باتوں کا ضرور اہتمام ہونا چاہئے۔
اول: اقامتی مدرسوں میں مختلف صوبوں کے طلباء کے لیے فیصد کے تناسب سے سیٹیں محفوظ(Reserved) کی جائیں۔
دوم: مختلف صوبوں کے طلباء کی اقامت کے لیے الگ الگ رواق (Hostels) اور حجروں کے بجائے مخلوط رہا ئش کا انتظام کیا جائے ۔ مدرسوں میں الگ الگ علا قوں کے لحاظ سے لا ئبریریوں ،کتب خا نوں اور کھیلوں کا سلسلہ فورا بند کیا جائے ۔ دارالا قامہ میں ہرعلا قہ کے بچوں کی اپنے علاقہ والوں کے ساتھ رہا ئش ، علاقوں کی طرف منسوب لا ئبریریاں اور کھیلوں کے لیے علاقوں کی بنیا دپر گروپ بندی ؛علا قائی کفر ونفاق کو جنم دیتی ہیں۔ع

غبار آ لودۂ رنگ ونسب ہیں ،بال وپر تیرے
تواے مرغ حرم!اڑنے سے پہلے پرفشاں ہوجا
کتبہ : محمد اشرف قاسمی خادم الافتاء شہرمہد پور
ضلع اجین( ایم پی )
[email protected]

Comments are closed.