بلیٹ ٹرین اور بلیٹ زندگی!!

محمد صابر حسین ندوی
[email protected]
7987972043

سفر میں ہر ایک ایسی سواریوں کو ترجیح دینا چاہتا ہے، جو سرعت انگیز ہو، براق کی رفتار رکھتا ہو اور منزل مقصود پر پلک جھپکنے کی دیر میں پہونچا دے، مسافت کی تکان، دوری کا احساس اور مشقت کم سے کم ہو، جس کےلیے ہوائی جہاز، ٹرین اور بسوں کی مختلف قسمیں وجود پذیر ہیں، ان میں بلیٹ ٹرین کی رفتار حیران کن ہے، کہیں چار سو، تو کہیں پانچ سو کلو میٹر فی گھنٹے کی رفتار والی یہ ٹرین ایسی ہے جو ہوا نہیں؛ بلکہ طوفان سے آنکھ مچولی کھیلتی ہے، ارد گرد تمام اشیا کو ہوا میں اڑاتی ہوئی، ایسے چلتی ہے جیسے افق پر کوئی بجلی چمکی ہو، اور اسے دیکھ کر ہر ایک کی آنکھ چکا چوند جائے، اور دل دہل جائے۔ اس ٹرین کا وجود بہت سے ترقی یافتہ ممالک کےلیے قابل زینت اور فخر ہے، خصوصا جاپان اس سلسلے میں اپنی پہچان آپ رکھتا ہے، اسی کے ساتھ مل کر ہندوستانی سرزمین پر بھی بلیٹ ٹرین دوڑانے کا جملہ پھینکا گیا، اور عوام نے اس کا استقبال دل کھول کر کیا، یہ سب جانتے اور بوجھتے ہوئے کہ ہندوستان کی مٹی اس کی رفتار کے لائق نہیں اور اسے اس لائق بناتے ہوئے ملک کا دیوالیہ نکل جائے گا، یا پھر غریب ممالک کی فہرست میں اور بھی نچلے درجے پر چلا جائے گا، نیز عوام کی ایک مختصر تعداد جو سمندر میں قطرہ کے برابر بھی نہ ہو، صرف وہی لوگ اس گاڑی سے لطف اندوز ہو سکیں گے، مہنگائی اور بڑھے گی، ٹیکس کا بار عوام پر اور زائد ہو جائے گا، ایک بڑی دقت یہ ہے کہ غلامانہ ذہنیت کی قوم ہمیشہ دور کے ڈھول کو سہانا سمجھ بیٹھتی ہے، بالخصوص اندھی تقلید میں وہ سارے حدود عبور کر لینا چاہتی ہے۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ ہندوستانی حکومت اپنے اندرونی مسائل کو سلجھانے اور عوام کے حق میں رفاہی کام کو تیز رفتار سے کرنے کے بجائے رفتار کی سحر میں مبتلا کردینا چاہتی ہے، اور ترقی یافتہ ممالک کا مقابلہ دکھا کر اپنے غریب عوام کے منہ کا نوالہ بھی چھین لینا چاہتی ہے۔
ہمیں بلیٹ ٹرین سے کوئی اعتراض نہیں، لیکن سرجری کی نازک کنڈیشن میں دواوں کی دہائی پر اعتراض ہے، کہ کہیں مریض مر نہ جانے اور زندگی کی جیتی ہوئی بازی ہار نہ جائے۔ دراصل سمجھنے کی بات یہ ہے کہ زندگی کا اصل محور انسان کی اصل ضروریات اور ترجیحات ہیں، ایک طرف جہاں لاکھوں نہیں بلکہ کروڑوں لوگ بنیادی سہولیات سے محروم ہیں، اور بڑی تعداد ہر سال خود کشی کر لیتی ہے، جن میں بچے، عورتیں، اور کسان سے لیکر نوجوان تک شامل ہیں، ان میں آپ لگزری زندگی کا تصور کیسے کر سکتے ہیں؟ عام ٹرینیں ایسی ہیں کہ عوام ان میں جانوروں کی طرح ٹھوس ٹھوس کر بھرے جاتے ہیں، وہ اپنی استطاعت سے کہیں زیادہ بوجھ لیتا ہے جس کی وجہ سے ہر سال کئی حادثات بھی پیش آتے ہیں، لیکن ایسا بہت کم ہوا ہے کہ حکومت نے ان بنیادی مسائل پر توجہ دی ہو۔ یہ بات سمجھنے کی ہے کہ زندگی میں میانہ روی اور اعتدال کا شاہراہ انسان کو اور انسانی معاشرے کو نئی بلندیاں عطا کرتا ہے، ضرورت اگر مکمل ہو رہی ہو اور انسان کے ہاتھ پھیلتے چلے جائیں، تو وہ رسوائی کا باعث بنتے ہیں، بڑے بزرگوں کا کہنا تھا: جتنی چادر ہو پیر بھی اتنے ہی پھیلانا چاہیے، غلامانہ ذہنیت اور کورانہ تقلید کسی بھی معاشرے کو دیمک کی طرح چاٹ جاتی ہے، اس کا مغز نکل جاتا ہے اور وہ معاشرہ کھوکھلا ہوجاتا ہے، ترقی یافتہ اور اہل دانش کی نگاہ میں وہ اب نادان قرار پاتے ہیں، اور بہت سے لوگ انہیں قابل رحم سمجھتے ہوئے ترس کھاتے ہیں، بہتر ہے کہ زندگی اور رفتار پر لگام لگایا جائے، ان پر اعتدال کا جامہ ڈال کر اساس مظبوط کی جائے؛ تاکہ اس بنیاد پر آئندہ بہتر سے بہتر عمارت قائم ہوسکے۔

Comments are closed.