ماہ ذی الحجہ اور اس کا پیغام

قاضی محمد حسن ندوی
دارالعلوم ماٹلی والا بھروچ گجرات
ذی الحجہ کا مہینہ اسلامی سال کا آخری مہینہ ہے یہ مہینہ کٸ پہلو سے اہمیت کے حامل ہےیہ یہ وہ مہینہ جس میں حج جیسا اہم فریضہ اسلام کاایک رکن ادا کیا جاتا ہے یہ وہ موقع ہوتاہے جس میں پورے دنیا کے مسلمان لاکھوں کی تعداد میں مکة المکرمہ کاسفر کرتے اتحادواتفاق کا مظاہرہ کرتے حرمین شریفین کی زیارت کرتے بیت اللہ کو قریب سے دیکھر آنکھوں کو سرور دلوں کوجلا بخشتے اور ایمان کو تازگی۔ صفا اورمروہ کے درمیان سعی کرکے حضرت ہاجرہ کی سنت کو یاد کرتے اور بیت اللہ پر نظریں اٹھاکر دعاکرتے اور نیکیوں کو بٹوڑنے سے تھکتے نہیں۔ بالخصوص ٨ ذی الحجہ کے بعد حجاج کرام کے معمولات میں بڑا فرق آجاتا ہے عشق الہی میں تلبیہ لبیک اللہم لبیک پڑھتے ہوۓ معرفت اور تقرب کی تحصیل میں محو ہوتے ایک ہی جگہ پر خیمہ زن نہیں رہتے بلکہ محبوب حقیقی اللہ تعالی کے حکم کوبجالانے کے لۓ کبھی منی میں ہوتے تو کبھی عرفہ میں کبھی مزدلفہ میں ہوتے تو (دسویں ذی الحجہ کو جمرٸہ عقبہ پر دیوانہ وار ہوکر کنکری مارنے کے لۓ) منی میں ہوتٕے پھر حج کاآخری رکن طواف زیارت کو اداکرنے کے لۓ مکہ آجاتے واقعی حجاج کرام کا مجاہدہ اوربے لوث ایثاروقربانی وہ تابناک کردارہے اور امتثال امرکا ایک درخشاں باب ہے جس پر رسول اللہﷺ نے نہ صرف ثواب کا وعدہ کیا ہے بلکہ حجاج کرام کی بخشش ومغفرت کی بشارت دی ہے
”من حج فلم یرفث فلم یفسق رجع کما ولدتہ امہ (مسلم شریف)جس نے حج کیا کوٸ بے حیاٸ اور گناہ کا کام نہیں کیا اور نہ اللہ کی نافرمانی کی تو وہ اس طرح گھر وابس آتا ہے گویاکہ وہ تمام گناہ سےپاک ہوگیا جیسے کوٸ نامولود بچہ ہے جسے اس کی ماں نے ابھی جنا ہے)
اس کے علاوہ سب سےز یادہ فخرونیک بختی کی بات یہ ہے کہ سفر حج کے بہانے دیارے نبوی کی زیارت نصیب ہوتی ہے روضہ اقدس پر درودوسلام پڑھنے اور مسجد نبوی میں پینتالیس اوقات کی نماز ادا کرنے کی سعادت حاصل ہوتی ہے جہاں ایک نماز پڑھنے کا ثواب پچاس ہزار نماز کے برابر عطا کیاجاتا ہے جہاں سے ایسی محبت ہوجاتی ہے اس طرح لطف آتا ہے کہ دل نہیں بھرتا بلکہ آنے کے بعد دل اسی کی طرف اٹکا رہتا ہے کسی نے بجا کہا ہے
طیبہ سے ابھی آیا پھر جانے کی حسرت ہے
اس مہینہ کاتعلق حضرت ابراہیم ﷺ کی قربانی اور ان کے لخت جگر کی امتثال آداب فرزندی سے بھی ہے جس میں انہوں نے عملی طور پر حکم الہی عشق الہیی کو محبت جگر گوشہ کی محبت پرترجیح ہی نہیں دی بلکہ بیٹے کی گردن پر چھری چلانے میں کسی کی پرواہ نہیں کی ۔یہ وہ واقعہ ہے کہ اس جیسا نہ اس سے پیشترکبھی پیش آیا اور نہ آٸندہ کبھی پیش آۓگا
زمین سہمی پڑی تھی آسماں ساکن تھا بیچارہ
نہ اس سے پیشتر دیکھاتھا یہ حیرت کا نظارہ
اسی وجہ سے اللہ تعالی کو ان کی امتثال امر کی ادا اتنی پسند آٸ کہ اس کے بدلہ میں اللہ نے جنت سے میندھا عطا کیا اور حضرت ابراہیم ﷺ کوقربانی کا حکم دیا اوراسے قیامت تک امت کے کۓ یادگار بنادیا ”وترکنا علیہ فی الاخرین(“سورہ صافات )اور امت محمدیہ میں سے صاحب نصاب کو اپنی طرف سے جانور کی قربانی کا حکم دیا اور رسول اللہﷺ نےبھی اسے باعث ثواب قرار دیا
ایک بار صحابہ کرامؓ نے اللہ کے رسول ﷺ سے استفسار کیا ”ماھذہ الاضاحی؟ قال سنة ابیکم ابراہیم علیہ السلام قالوا مالنا فیہ ؟قال فی کل شعرة حسنة“(یہ کیاہے ؟اللہ کے رسولﷺ نے کہا یہ تمہارے والد حضرت ابراہیم کی یادگار ہے پھر کہا اس میں ہمیں کیا ملے گا؟ کہا ہر بال کے بدلہ میں ایک نیکی ملیگی
اس مہینہ کی عظمت اس وجہ سے بھی دوچند ہوجاتی کہ رسول اللہ ﷺ نے اس میں عبادت کی محبوبیت اور مقبولیت کا ذریعہ قرار دیا
مامن ایام العمل الصالح فیھن احب الی اللہ من ھذہ الایام العشرة(الحدیث)
اس لۓ اس عشرہ کو غنیمت جان کر اپنے لۓ حرز جان بنانا چاہۓ اس میں خاص طور پر درج ذیل اعمال کثرت سے کرنا چاہۓ
فرض نماز کے علاوہ تلاوت دعا صدقہ اور ذکر کریں ۔نویں ذی الحجہ کو روزہ رکھیں ۔اور اسی دن فجر کی نماز کے بعدسے بلند آواز سے تکبیر تشریق ” اللہ اکبر اللہ اکبر لاالہ الااللہ واللہ اکبر اللہ اکبر ولللہ الحمدا“ پڑھیں البتہ عورت آہستہ آواز سے اس کو تیرہ ذی الحجہ کی عصر نماز تک جاری رکھیں
ایام نحر میں قربانی کریں لیکن یاد رہے کہ جن حضرات کو اللہ نے کافی مال عطا کیا ہے وہ اپنے نام کے علاوہ مردہ مومنین اور متعلقین کے نام سے کرتے ہیں جو یقینا باعث ثواب ہیں مگر اس وقت نفلی قربانی کے علاوہ سیلاب زدہ غریب بے سہارہ لوگوں پر وہ مال صرف کریں انشإ اللہ اس سے زیادہ ثواب ملےگا یہ وقت تقاضہ ہے
مہرباں ہو فرش زمیں پر
خدا مہربان ہوگا عرش بری پر
Comments are closed.