طلاق بل بہانہ شریعت میں مداخلت اصل نشانہ

نازش ہما قاسمی
شریعت مخالف ’طلاق ثلاثہ بل‘ لوک سبھا اور راجیہ سبھا دونوں جگہ سے پاس ہوچکا ہے۔ راجیہ سبھا سے پاس ہوجانے کے بعد اب یہ بل صدر جمہوریہ کی منظوری کے بعد قانون بھی بن گیا ہے ۔ اب جو مسلمان بھی ایسی طلاق دے گا جو شرعاً فورا واقع ہوجاتی ہے، چاہے وہ تین طلاق ہو یا ایک وہ مجرم ہوگا اور اسے تین سال کی جیل ہوگی۔۔۔لیکن۔۔۔لیکن کیا۔۔۔؛ لیکن یہ کہ طلاق دینے سے طلاق واقع نہیں ہوگی۔۔۔وہ تین سال جیل سے آنے کے بعد اپنی بیوی کے ساتھ رہ سکتا ہے۔۔۔اور اس کی بیوی ’بہارو پھول برسائو میرا محبوب آیا ہے‘ گاتے ہوئے اس کا استقبال کرے گی؟ اس تین سال میں اس کی بیوی کو نان ونفقہ کون دے گا؟وہ شوہر دے گا لیکن سوچئے جو شوہر جیل میں ہے وہ کیسے خرچ اُٹھائے گا ؟
اسلامی نقطہ نظر سے جب طلاق واقع ہوگئی تو وہ بیوی کے ساتھ نہیں رہ سکتا۔ رہنے کی صورت میں وہ زنا کہلائے گا۔۔۔اور اس صورت میں جو بچے ہوں گے وہ ولدالزنا ہوں گے اور ’حرامی ‘کہلائینگے۔۔کیا کسی مسلمان کےلیے گوارہ ہوگا کہ وہ اس صورت میں آپس میں ساتھ رہیں گے۔ نہیں لیکن حکومت اس پر پابندی لگا کر بہت خوش ہورہی ہے کہ اس نے مسلم خواتین پر احسان کیا ہے اور ملک کا میڈیا مودی حکومت کی بڑی کامیابی کے طور پر اسے پیش کررہا ہے۔ جس وقت سے یہ بل پاس ہوا ہے سوشل میڈیا پر کچھ لوگ خوب خوش ہورہے ہیں ایسا لگ رہا ہے کہ ان کی مائیں بہنیں مسلمانوں سے بیاہی ہوئی تھیں اور وہ انہیں طلاق دے کر کنارہ کشی اختیار کررہے تھے، جو اب اس کے پاس ہونے کے بعد نہیں کریں گے، ان پر شکنجہ کس چکا ہے۔۔۔درحقیقت وہ اس لیے خوش ہورہے ہیں کہ ہندوراشٹر کی طرف یہ بڑھتا قدم ہے اور انہوں نے شریعت میں مداخلت کرکے مسلمانوں کو اسلام سے دور کرنے کی طرف پہل کرلی ہے۔ یہاں یہ بھی واضح کرتا چلوں کہ حکومت نے جو قانون بنایا ہے وہ اہل حدیث کے بھی خلاف ہے، ان کے یہاں بھی ایک مجلس کی تین طلاق سے ایک واقع ہوجاتی ہے اور حکومت نے جو قانون بنایا ہے اس میں تین طلاق سے ایک بھی طلاق واقع نہیں ہوگی اور مزے کی بات یہ ہے کہ تین طلاق دینے سے تین سال کی سزا بھی ہوگی، یعنی حکومت ایک ایسے جرم کی سزا دے گی جو ہوا ہی نہیں ہے ، اسلئے کسی بھی مسلک کے مجتہد اعظم کو خوش ہونے کی چنداں ضرورت نہیں ہے، یہ سراسر شریعت میں مداخلت ہے، طلاق ثلاثہ بل بہانہ ہے شریعت میں مداخلت اصل نشانہ ہے۔
مسلمانوں میں شرح طلاق بہت کم ہے پھر بھی اس کی روک تھام کےلیے مسلم پرسنل لا بورڈ اور دیگر تنظیمیں جگہ جگہ اجلاس وکانفرنس کرکے مسلمانوں کو شریعت مطہرہ کی روشنی میں خود کو ڈھالنے اور خوش گوار ازدواجی زندگی کے رہنما اصول بتاتی رہتی ہیں ۔ بہار اڈیشہ وجھارکھنڈ میں جگہ جگہ دارالقضا کا نظام ہے جہاں سے مسلمان اپنے عائلی مسائل حل کراتے ہیں۔ یہ طلاق بل ا ن نام نہاد مسلمانوں کی وجہ سے پاس ہوا ہے جو اسلامی حصار سے نکل کر لبرلی زندگی گزار رہے تھے۔ جب پہلی بار طلاق بل پاس کرنے کی کوشش کی گئی تو مسلم پرسنل لا بورڈ نے پورے ہندوستان کی مسلم خواتین سے ان کی آراء طلب کی تھی اور تقریباً تین کروڑ مسلم خواتین نے ’شریعت ہماری جان سے پیاری‘ کا نعرہ دے کر حکومت کو یہ پیغام دیا تھا کہ ہم اپنی شریعت سے خوش ہیں ہماری شریعت میں کسی قسم کی مداخلت نہ کی جائے؛ لیکن مسلم دشمنی میں حکومت نے مسلمانوں کے گھروں کو اجاڑنے ، آپسی نفرت پیدا کرنے، اور خاندان برباد کرنے کے لیے یہ قانون بنایا اور اسے مسلم خواتین کو بااختیار بنانے کا ڈھونگ رچا کہ اس قانون سے مسلم خواتین بااختیار ہوں گی۔ الحمدللہ ہماری خواتین پہلے سے بااختیار ہیں۔ انہیں مزید کسی اختیارات کی ضرورت نہیں جسے ضرورت تھی جن گنتی کے چند لوگوں کی آواز پر حکومت نے یہ قانون بنایا ہے انہیں یہ قانون مبارک ہو، مسلم خواتین کی اکثریت اس کے خلاف ہے اور وہ ان شاء اللہ ہمیشہ شریعت پر عمل پیرا رہیں گی اور اپنے عائلی مسائل اسلامی اصول وضوابط کے تحت دارالقضاء سے حل کرائیں گی ۔
طلاق بل کے پاس ہونے میں جہاں ایک طرف حکومت کی ہٹ دھرمی تھی تو وہیں دوسری طرف نام نہاد سیکولر پارٹیوں نے مسلمانوں کو فریب دے کر اپنا حقیقی چہرہ واضح کرتے ہوئے سرعام ان کی پیٹھ میں خنجر گھونپا ہے۔ ان پارٹیوں کے ممبران نے واک آئوٹ کرکے اس بل کو پاس کرایا ہے،انہوں نے جان بوجھ کر ایسی سچویشن پیدا کی کہ یہ بل پاس ہوجائے۔ خیر دیر سویر اسے پاس ہونا ہی تھا کیونکہ جلد ہی راجیہ سبھا میں بھی برسراقتدار پارٹی کو اکثریت حاصل ہوجائے گی؛ لیکن جلد بازی میں پاس کیاگیا بل حکومت کی منشا پر سوال کھڑا کرتا ہے۔ کیا واقعی حکومت مسلم خواتین کی ہمدرد ہے؟ کیا واقعی انہیں طلاق دی ہوئی خواتین سے الفت ومحبت ہے۔ نہیں ایسا نہیں ہے۔ آپ دیکھ سکتے ہیں جس پارٹی کے کارکنان عورتوں کے استحصال میں ملوث ہیں ، جن کے قائد اپنی بیوی کو چھوڑ کر زندگی گزار رہے ہوں، وہ کہہ رہے ہیں کہ یہ تاریخی دن ہے ہم نے مسلم خواتین سے انصاف کیا ہے۔ جس کے وزارت اعلیٰ کے دور میں دوہزار مسلمانوں کو مارا گیا، حاملہ عورتوں کاپیٹ چاک کرکے بچوں کو نیزوں کی اَنی پر اچھالا گیا اور اب جس کے دور حکومت میں مسلم خواتین کوبیوہ بنانے کی اسکیم جاری ہے، جس کی قیادت میں ہجومی دہشت گرد کھلے سانڈ کی طرح پھر کر کسی ماں کو اولاد سے محروم تو کسی بیوی کو اس کے شوہر سے محروم کررہے ہوں کیا وہ واقعی مسلم خواتین کا ہمدرد ہے۔۔۔؟ نہیں! یہ دجل ہے، جھوٹ ہے، فریب ہے، دھوکہ ہے۔ ہمیں اس سے ہوشیار رہنا ہوگا۔ ان کا کام تھا شریعت میں مداخلت کرنا وہ کرگئے ۔۔۔ہوسکتا ہے اس بل کے بعد کچھ اور بل پاس کیے جائیں جو راست شریعت میں مداخلت ہو۔۔؛ لیکن ہمیں اپنی شریعت پر عمل پیرا رہنا ہوگا۔ہمارا اعتقاد ہے کہ ہم دین کامل کے ماننے والے ہیں اور اس دین کامل کی تکمیل خود خدا نے کی الیوم اکملت لکم دینکم ۔۔۔الی آخرہ۔۔۔اس دین میں ذرہ بھی کمی وبیشی کی گنجائش نہیں خدا نے اسے کامل ومکمل بھیجا ہے اور ہمیں یہ تسلیم ہے اگر کوئی حکومت اس طرح مداخلت کرتی ہے تو ہم اسے خارج کرتے ہیں ، انہیں جو کرنا ہے کریں ، ہمیں اپنی شریعت پیاری ہے اور ہم اپنی شریعت پر مرتے دم تک عمل کرتے رہیں گے۔ اس موقع پر اب ہمیں مسلکی نفرت سے دور ہوکر ایک ہونا ہوگا۔ باطل مسلمانوں کو مٹانے کےلیے ایک ہوچکا ہے۔ ہمیں آپسی نااتفاقی کو دور کرکے باطل کے خلاف لڑنا ہے۔ قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے اور ملک کی سالمیت برقرار رکھتے ہوئے ہمیں اُٹھنا ہوگا؛ ورنہ وہ دن دور نہیں جب خدا ہمیں دین اسلام کی حفاظت نہ کرنے اور کامل مسلمان بن کر نہ رہنے کے جرم میں نیست ونابود کردے ۔
(بصیرت فیچرس)
Comments are closed.