بابری مسجد تنازعہ : معاملہ حساس ہے، مسئلہ انصاف و امن سے حل ہو

چودھری آفتاب احمد
( سابق وزیر حکومت ہریانہ )
جیسا کہ اندیشہ تھا،بابری مسجد اراضی تنازعہ پر ثالث کار کوئی نتیجہ نہیں نکال پائے،اب سپریم کورٹ میںاس کیس پرکل 6؍اگست سے متواتر سماعت ہوگی،اب بابری مسجد اراضی کی ملکیت پر عدالت کو ہی فیصلہ لینا ہے،مسلمان اور ہندو فریق دونو ہی عدالت سے جلد فیصلہ آنے کی امید لگا رہے تھے،لیکن عدالت نے ثالث کمیٹی بناکر معاملہ کو عدالت سے باہر سلجھانے کی کوشش کی ،اس کوشش میں دو ماہ کا وقت ضائع ہوگیا، اور معاملہ وہیں کا وہیں ہے،
عدالت نے ملک کی تین بڑی شخصیتوں کو پینل میں شامل کیا تھا،ان میں سری رام پنچو،سری سری روی شنکر اور جسٹس محمد ابراہیم کلیف اللہ کے نام شامل ہیں،عدالت نے انھیں ایک مہینہ کا وقت دیا تھا،تب یہ سوال اٹھایا گیا تھا، کہ جو تنازعہ دہائیوں سے چلا آرہا ہے،کیا اسے ایک مہینہ میں سلجھایا جا سکتا ہے؟وہ بھی تب جب فریق کاروںمیں سے ایک فریق کار رام للا وراجما ن عدالت کے اس قدم کی مخالفت کر رہا تھا،اور مسلم فریق کو سری سری روی شنکر کی منصفی پر شک تھا،
آپسی رضامندی سے عدالت کے باہر بابری مسجد اراضی تنازعہ کو سلجھانے کی یہ کوئی پہلی کوشش نہیں تھی،اس سے پہلے بھی ایسی کوششیں ہوتی رہی ہیں،2010میں جب الٰہ آباد ہائی کورٹ کی لکھنؤ بنچ نے فیصلہ سنایا تھا،تب اس سے پہلے عدالت کے باہرآپسی رضامندی کی بات کہی گئی تھی،لیکن تب بھی سبھی فریقوں نے اس سے انکار کردیا تھا،ثالثی سے معاملہ کو سلجھانے کی کوشش چندر شیکھر کے دور میں بھی ہوئی تھی،چندر شیکھر نے تب راجستھان کے وزیر اعلیٰ بھیرو سنگھ شیخاوت،مہاراشٹر کے وزیر اعلیٰ شرد پواراور یوپی کے وزیر اعلیٰ ملائم سنگھ یادو کو یہ ذمہ داری سونپی تھی،تینوں ثالث کاروں نے ہندو اور مسلمانوںسے مسئلہ کے حل کے لئے بات چیت کی تھی،لیکن بات نہیں بنی تھی،
1992میںبابری مسجد شہید کئے جانے کے بعد نرسمہا راؤ نے بابری مسجد کی 67ایکڑ زمین ایکوائر کرلی تھی،نرسمہا راؤ حکومت کا وہاں مندر۔مسجد،لائبریری اور پارک بنانے کا منصوبہ تھا،لیکن وہ بھی فریق کاروں کی نا اتفاقی سے سرے نہیں چڑھا تھا،اٹل بہاری واجپئی نے بھی ایودھیا پرکوسٹ بنایا تھا،لیکن آگے کی بات نہیں بنی،دو سال پہلے جسٹس کھیہر سنگھ نے بھی ثالث کار بن کر معاملہ کو عدالت سے باہر سلجھانے کی کوشش کی تھی،انھوں نے خود عدالت میں کہا تھا،کہ وہ ثالث کار بننے کو تیار تھے،لیکن تینوں فریقوں میں اتفاق نہیں ہوا،
سپریم کورٹ نے کہا تھا،کہ عدالتوں میں عقیدوں پر فیصلے نہیں دئے جاتے،عدالت کو یہ طے کرنا ہے،کہ بابری مسجد کی اراضی پر مالکانہ حق کس کا ہے،معاملہ عقیدہ کا ہونے کی وجہ سے ہی عدالت نے اسے ثالثی پینل کو سونپا تھا،تاکہ اس مسئلہ کو عدالت سے باہر آپسی رضامندی سے حل کرلیا جائے،مگر یہ حل نہیں ہوسکا،ممکن ہے کہ عدالت نے اسے ثالثی سے سلجھانے کا ایک موقع دیا ہو،ورنہ آخر میں تو بابری مسجد کی اراضی کا مالکانہ حق ہی طے ہونا ہے،اور اب اس حق کو عدالت کو ہی طے کرنا ہے،
کسی نے کہا تھا ،کہ عدالت اس مسئلہ پر صاف فیصلہ نہیں سناسکتی،اور اگر ایسا ہوا تو اس پر عمل کرنا بڑا دشوار ہوگا،2010میں الٰہ آباد ہائی کورٹ کی لکھنؤ بنچ نے بھی ایسا ہی مبہم فیصلہ سنایا تھا،دراصل جب کسی مسئلہ کو ثالثی سے سلجھایا جاتا ہے،تو اس میں بیچ کا راستہ نکالا جاتا ہے،دونوں ہی فریق کو تھوڑا تھوڑا جھکنا پڑتا ہے،ثالث کار دونوں ہی فریق کو سمجھاکر معاملہ کو حل کرتے ہیں،مگر یہاں بیچ کا راستہ کیا ہوسکتا ہے؟بابری مسجد اپنی جگہ پر بنی تھی مسلمان ہٹنے کو راضی نہیں ہوں گے،ہندو مسجد کی جگہ پر مندر بنانے کو بضد ہیں،ایسے میں بیچ کا راستہ کیا نکلے گا؟ یہ تو عدالت ہی حل کرے گی،کہ مسجد کی زمین کس کی ملکیت ہے؟عدالتوں میں ثبوتوں اور قانون کی بنیاد پر فیصلے ہوتے ہیں،لیکن ہندو فریقوں کے تیور کو دیکھتے ہوئے عدالتیں بھی فیصلہ سنانے میں احتیاط سے کام لے رہی ہیں،کیونکہ عدالتیں جانتی ہیں ،کہ بابری مسجد کی اراضی پر مالکانہ حق سنی سینٹرل وقف بورڈ کا ہے،ظاہر ہے،عدالت جس کی زمین ہے اسی کی بتائے گی،ایسی صورت میں مسلمانوں کی سکیورٹی کا معاملہ درپیش آئے گا،اور ملک کے حالات شرپسند خراب کرنے میں کسر نہیں چھوڑیں گے،
سوال اٹھتا ہے،کہ ثالثی ناکام کیوں ہوئی؟جبکہ ملک کی سب سے بڑی عدالت سپریم کورٹ نے اسے بنایا تھا،ثالثی کے ناکام ہونے کی وجہ یہ رہی ہے،کہ تین فریقوں میں سے ایک فریق بالکل بھی ساتھ آنے کو تیار نہیں ہوا،نرموہی اکھاڑہ اور سنی سینٹرل وقف بورڈ ہی ثالث کاروں کے رابطہ میں رہے،اور دونوں ہی معاملہ کو سلجھانے کے حق میں تھے،لیکن رام للا وراجمان اس سے دور ہی رہا،اس کے علاوہ ثالث کار سری سری روی شنکر کا کردار مشکوک رہا،وہ کہہ رہے تھے،کہ مسلمانوں کو اپنا دعویٰ چھوڑ دینا چاہئے،انھیں بڑا دل دکھاتے ہوئے اراضی ہندؤوں کو سونپ دینی چاہئے،میڈیا میں اس طرح کی خبریں بھی آئی تھیں،کہ سری سری روی شنکر نے کہا ہے ،کہ جو فریق مقدمہ ہارے گا،وہ عدالت کے اس فیصلہ کو نہیں مانے گا،اور شدت پسند ہوجائے گا،
عدالت بھی واضح کرچکی تھی،کہ ثالثی سے جو حل نکلے گا،اسے ضروری نہیں،کہ قانونی شکل دیدی جائے،سپریم کورٹ نے ثالثی کمیٹی کو کم وقت دیا تھا،جو معاملہ دہائیوں سے نہیں سلجھا ہو،اسے ثالثی کمیٹی بھلا ایک مہینہ میں کیسے سلجھا سکتی تھی،یہ بھی اس معاملہ میں ایک فیکٹر رہاہے،بعض لوگ اس ثالثی کمیٹی سے مطمئن ہی نہیں تھے،رامللا وراجمان کے علاوہ ہندو مہا سبھا نے اسے مان نے سے ہی انکار کردیا تھا،یہاں تک کہ آر ایس ایس بھی سپریم کورٹ کے اس فیصلہ سے مطمئن نہیں تھا،آر ایس ایس کو لگتا تھا،کہ سپریم کورٹ ترجیحات کی بنیاد پر اس کیس کی سماعت نہیں کر رہا ہے،سنگھ کا کہنا تھا کہ ہندؤوں کو ملک میں نظر انداز کیا جا رہا ہے،
پچھلے دنوں سپریم کورٹ نے بابری مسجد کی شہادت کے ذمہ داروں لال کرشن اڈوانی،مرلی منوہر جوشی،اوما بھارتی اور ونے کٹیار وغیرہ پر مقدمہ چلانے کا حکم صادر کیا،اور کہا کہ اس کیس میں جلد سے جلد فیصلہ آنا چاہئے،بابری مسجد کی ملکیت اور شہادت دونوں پر ہی عدالتیں سماعت کے بعد فیصلہ سنائیں گی،بابری مسجد پر رام مندر کے دعوے نے ملک میں جانی اور مالی دونوں طرح کے نقصان کرائے ہیں،سیاست دانوں کو بھی سیاست کرنے کا موقع دیا ہے،سچ تو یہ ہے،کہ ملک کی سیاست کو اس تنازعہ نے نیا موڑ دیا ہے،آج کے حکمراں اسی تحریک کی پود سے بڑے ہوئے ہیں،معاملہ حساس ہے،دعا کرتے ہیں مسئلہ انصاف اور امن سے حل ہو،خوں ریزی نہ ہو،بد امنی نہ ہو،جان و مال کا نقصان نہ ہو،اور یہ معاملہ دو سماجوں میں منافرت نہ پیدا کرے نہ ہی سیاسی ایشو بنے۔
Comments are closed.