اگر چین سے جینا چاہتے ہو تو خود کو۔۔!

محمد صابر حسین ندوی
[email protected]
7987972043
ہندوستان کی خوبصورتی اس بات میں تھی کہ اس کے اندر مختلف مذاہب اور رنگ و نسل کے لوگ ہم آہنگ ہو کر رہتے آئے تھے، یہ ملک اختلاف میں اتحاد کی عمدہ مثال اور اپنی قدیم روایات و طرز بود و باش کےلیے اپنی پہچان آپ رکھتا تھا؛ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ اس ملک پر آریہ سماج اور برہمن سماج کا راج ہمیشہ سے رہا ہے، اگرچہ مسلم حکمران نے ان کی زعفرانیت پر سبزہ پھیر دیا تھا، اور دیومالائی کہانیوں و قصوں میں انہیں الجھا کر اپنی ایک الگ راہ بنائی، ہندوستان کو نئی اونچائیاں عطا کی اور اسے سونے کی چڑیا بنا دیا، مگر رنگ کی یہ خاصیت ہوتی ہے کہ وہ کبھی بھی اپنا وجود ختم نہیں کرتا، وہ اگرچہ مخلوط ہو کر خود کو زمانے سے پوشیدہ کر سکتا ہے، اور ممکن ہے کہ اس کی غیر موجودگی عدم موجودگی کی دلیل بن جائے؛ لیکن جب کبھی اسے معقول فضا دستیاب ہو جائے، ایسے میں یقینا وہ اپنا اصل رنگ ظاہر کر دے گا۔
ان دنوں بھی یہی قاعدہ جاری ہے، جس ہندتو کے ایجنڈے کو ترقی پذیر دماغوں نے رد کردیا تھا، زعفرانی فکر و سوچ کو پس پشت ڈال کر جدید دور کی کھلی فضا میں سانس لینے کا تہیہ کر لیا تھا، اب وہی تنگ گلیاں اور بے سود رنگ اپنے اصل رنگ کے ساتھ کھڑا ہے، وہ بہروپیے تھے، انہوں نے اپنا روپ دکھا دیا، ان سب نقاب پوشوں نے اب اپنا نقاب اتار پھینکا ہے، اب ان کے ہاتھوں کا خون صاف نظر آتا ہے، ان کے دلوں کی بدی سورج سے بھی زیادہ عیاں ہے، وہ پلٹ کر اس مردہ طاقت کو دفن کرنا چاہتے ہیں، جس نے ان سے ہزاروں سال دیومالائی قصوں اور بد عقیدتوں سے دور رکھا، جنہوں نے ملک کو سفلی حیثیت سے نکال کر بلندی عطا کی اور ان کے پیروں میں اطاعت کی زنجیر ڈالے رکھا۔ اب انتقام ہے، اور بس انتقام۔
آج 5/اگست 2019ء کو کشمیر سے خصوصی صوبے (دفعہ 370) کا درجہ ہٹا دیا گیا، وہاں کی املاک کی خصوصیت کہ اسے غیر کشمیری نہ خرید سکیں (دفعہ 35A) بھی ہٹا دی گئی، اس سے قبل متعدد معروضات پاس کی گئی، اگر ان سب کا خلاصہ پیش کیا جائے، تو سوائے اس کے اور کیا بنے گا کہ ملک سے ان سبزہ وادیوں کا خاتمہ کردیا جائے۔ ایک سینئر رپورٹر جناب ونود دعا صاحب نے بڑے صاف لفظوں میں کہا تھا؛ کہ بی جے پی یہ تو کہتی تھی کہ ملک کو کانگریس مکت کرنا ہے، لیکن اس نے کبھی یہ نہیں کہا تھا، کہ اسے مسلم مکت بھی کرنا ہے، جس کا کام بڑی تیزی کے ساتھ کیا جارہا ہے، اپریل/2019ء سے نیشنل رجسٹریشن کا کام شروع ہو جائے گا، جس کا مطلب یہ ہے کہ تقریباً دو کروڑ سے زائد مسلمان ریفیوجی قرار پائیں گے، ان کا کوئی پرسان حال نہ ہوگا، تو وہیں کشمیر میں اب تمام اسلامی اقدار ختم کردیے جائیں گے، کارپوریشن کی تعداد بڑھ سکتی ہے، مسلمانوں کو در بدر کیا جا سکتا ہے۔
اس جنت نما قطعہ کو جہنم کی زد میں دھکیلا جا سکتا ہے، نیز طلاق ثلاثہ بل کے بعد اس کے علاوہ بہت سے پر سنل لا قوانین نشانے پر لیے جائیں گے، دہشت کے الزام میں مسلمانوں کی گرفتاریوں کا دور بھی اب پھر سے شروع ہوجائے گا، راستے پر بھیڑ مارے گی، گھر میں ملک کا قانون اور پھر بھی سکون نہ ملا تو قانون بلا واسطہ اپنی زد میں لے کر گھلا گھونٹ دے گا، رہی یہ بات کہ مسلمان کیا کر رہے ہوں گے؟ تو ان کے پاس جشن منانے، کانفرنس کرنے، مذمت کرنے اور چیخ و پکار کرنے جیسے بہت سے کام ہوں گے، اور ہاں ایک خاص بات یہ ہوگی کہ ہم سپریم کورٹ کے فیصلے کا انتظار کریں گے!!!
کاش مسلمان، مسلمان ہوتے، اتنی بے بسی تو تاریخ میں تاتاریوں ہی کے زمانے میں نظر آتی ہے؛ اور اگر یہی بات ہے تو ہر ایک اپنی گردن طشتری میں سجا کے پیش کرنے کو تیار رہے۔۔ اور اگر ایسا نہیں ہے، اور چاہتے ہو کہ چین سے جیو تو خود کو بے چین کرو!!! قبر میں اگر سکون چاہتے ہو؛ بلکہ دو گز قبر بھی اگر چاہتے ہو، تو کروڑوں گز میں پھیلے اس خطے کو بچاؤ۔۔۔!!!
Comments are closed.