ارتداد سے حفاظت کی تدبیریں( قسط نمبر4)

 

بقلم : مفتی محمد اشرف قاسمی

عالم ہمہ ویرانہ زچنگیزئ افرنگ
معمارحرم باز بہ تعمیر جہاں خیز

مکاتب کا قیام
اقامتی مدرسوں کی نگرانی میں بستی واطراف میں مکاتب قائم کیے جائیں ، مکاتب کوئ معمولی ادارے نہیں ہیں ۔
’’ حضرت بنوریؒ سے ڈھابیل میں تقریر کے دوران سنا کہ مکتب میں جو اساتذہ پڑھاتے ہیں ، وہ حضرت ابن عباس ؓ کی تفسیر کے مطابق علمائے ربانی ہیں:ولکن کونوا ربانین بما کنتم تعلمون الکتب وبما کنتم تدرسون۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ فرما تے ہیں : الذی یعلم الصغار قبل الکبار۔ وہ لوگ جو بچوں کو بڑا ہونے سے پہلے (دین)سکھا تے ہیں وہ ربانی عالم ہیں ۔۔۔۔حضرت شیخ الا سلام مولانا مدنی رحمۃ اللہ علیہ نے ۱۹۴۸ء میں ممبئی میں دینی تعلیم کا نفرنس میں تقریر فرمائی تھی ،اس میں حضرت رحمۃ اللہ علیہ نے یہ جملہ ارشاد فرمایا کہ یہ مکاتبِ دینیہ اور مدارس اسلامیہ امت اسلا میہ کی ریڑھ کی ہڈی ہیں ۔‘‘
حضرات اہل علم کے لیے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کے فرمان کی تخریج سطورذیل میں پیش کی جاتی ہے۔
ـ’’والربانیون واحدھم ربانی، منسوب الی الرب ، والربانیُّ: الذی یربی ا لناس بصغار العلم قبل کبارہ(۴) وکانہ یقتدی بالرب سبحانہ فی تیسیر الا مور(۵) روی معناہ عن ابن عباس ؓ(۶)۔
وفی الحواشی المرقومۃ: (۴)تفسیر الطبری ج ۶ ص۵۳۹؍ واسباب النزول للواحدی ص ۱۰۸؍۔(۵) احکام القر آ ن لابن العربی ج ۱ ص۳۲۷۸؍و۲۷۹؍ وانظر تفسیر البغوی ج ۱ص۳۲۰؍۔(۶) ذکرہ البخا ری، باب العلم قبل القول والعمل، فتح الباری ج ۱ص۱۶۰؍‘‘ ۔( الجا مع لا حکام القر آن ابی عبد اللہ محمد بن احمد بن ابی بکر القُرطُبی، جلد خامس صفحہ۱۸۴؍ سورۃ ال عمران لاٰ یَتان۷۸؍ و۷۹؍ تحقیق الدکتور عبداللہ بن عبد المحسن الترکی ومحمد رضوان العرقسوسی۔)

مسلما نوں کی اکثریت اپنے بچوں کو اقا متی مدرسوں میں داخل کرا نے کے بجائے اسکولی نظام سے جو ڑتی ہے۔اِس سا دہ لوح نسل کو الحا دوبد دینی سے محفوظ رکھنے کا واحد ذ ریعہ صباحی و مسا ئی مکا تب ہیں۔ چار پانچ سال کی عمر میں بچہ ماں باپ کی سر پرستی میں دین ومذہب کا پکا معتقد ہوجاتا ہے۔ اسی طرح مکا تب کے تھوڑے سے وقت میں بچوں کو دینی تعلیمات فراہم کرکے ہم سماج میں رائج مختلف قسم کے الحا دی فتنوں سے بچا کر دین کے لیے قر بانیاں دینے والی نسل کھڑی کرسکتے ہیں۔اس کا یہ بھی فائدہ یہ ہو گا کہ اقا متی مدرسوں کا فیض عا م ہوگا۔جس کالا زمی نتیجہ یہ ہو گاکہ عوام زیا دہ سے زیاد ہ تعداد میں مدرسوں سے جڑے گی۔اس طرح اقا متی مدرسوں کی نگرانی میں مکا تب کے قیام سے علماء کو عوام میں کام کرنے کا وسیع مو قع ہاتھ آ ئے گا۔
ملت کی بچیاں کفریہ فتنوں کے نشا نے پرہیں۔ اس لیے خا ص طور پر انھیں مکا تب سے جو ڑنے کی کو شش کی جا ئے۔مکاتب میں شرعی لباس کا اہتما م کرایا جائے۔ مکا تب میں بچوں کو ٹو پی اور بچیوں کوخاص طور پر برقع کا اہتمام کرایا جائے۔ اس سے یہی نہیں ہو گا کہ ہما رے مکتب کی ایک پہچان بنے گی، بلکہ اس کی وسا طت سے اسلامی تمدن(ISLAMIC CULTURE) کو فروغ ملے گا اور غلط سما جی اثرا ت سے جوعورتیں نقاب وغیرہ نہیں پہنتی ہیں، بچیوں کو اسلامی وضع میں دیکھ کر وہ بھی بر قع وغیرہ پہننے کی طرف را غب ہو ں گی۔
مکا تب میں قرآ ن خوا نی(RAEDING) اور بنیادی دینی تعلیم کے علا وہ بچوں کواسلامی نہج پر ذہن سا زی کے لیے ضروری ہے کہ سیرت رسولﷺ اور خلفاء اسلا م کی تاریخ کے ساتھ ہی فتوحات ِ اسلا میہ سے بھی واقف کرایا جائے۔اس سے ان کے ذہن میں پا کیزگی کے ساتھ بلند خیا لی اور اعلی اسلامی اقدار و اہداف کے حصول کی سوچ پیدا ہو گی۔ اس طرح مکا تب سے ایک طرف اگر کچھ تعداد میں بچے، اقا متی مدرسوں میں آ ئیں گے تو دوسری طرف بڑی تعداد میں مدرسوں میں دا خلہ نہ لینے والے بچے، دین و مذہب سے یہی نہیں کہ جُڑے رہیں گے، بلکہ دین کی خا طر محنت ومجاہدے کے لیے تیا ر ہوں گے۔ان شاء اللہ

*معیا ری اسکولوں کا قیام*

اعلی معیا ر کے عصری اسکولس نہ ہو نے کی وجہ سے ہما رے اکثرمتمول طبقہ کے بچے کانوینٹ اسکولوں(CONVENT SCHOOLS) میں داخل کئے جاتے ہیں۔ تعلیم کے نام پر جہاں ان کے سر پرستوں سے خطیر رقمیں وصول کی جا تی ہیں، وہیں انھیں دین و مذہب سے بر گشتہ بھی کر دیا جا تا ہے ۔ انجام کاروہ اسلام اور مسلمانوں کے ہمدرداورخیرا خوا ہ بننے کے بجائےحریف بن کر نکلتے ہیں ۔ اس لیے اقامتی مدرسوں کے ساتھ، کم از کم مقا می بچوں کے لیے،
عر بک انگلش میڈیم ا سلامک اسکولس
(ISLAMIC SCHOOLS ARABIC ENGLISH MEDIUM)
بھی شروع کئے
جائیں
اور اُن کی فیس(FEES) بھی منا سب رکھی جائے۔ اس سے اس طبقہ کا پیسہ غیروں کی جھو لی میں جا نے کے بجا ئے مدرسوں کے خزانے میں آئے گا۔ جس سے مدرسوں کی دوسری ضروریا ت پوری کی جا سکتی ہیں۔ ہما رے پا س انگلش میڈیم کے معیا ری اسکولس ہو ں گے تو ہما را یہ طبقہ اعلی عصری تعلیم کے ساتھ ہی دین و مذہب سے بھی رو آ شنا ہو گا۔

*کوچنگ کلاسزاور سمر کیمپ*

ہائرسکینڈری کے بعد کے درجات پر مشتمل اسکولس قائم کرنے میں عموما کا فی دشواری ہوتی ہے ، اور اوپر کی کلا سوں میں اسباق کے علاوہ دوسری بہت سی اور بے ضرورت سرگرمیاں (Activities) ہو تی ہیں، عموما اوپر ی کلاسوں میں ہی ہما ری بچیا فتنوں کا شکار ہو تی ہیں ۔ اگر اوپر ی کلاسوں کی بچیوں کے لیے بنیادی مضامین کی کو چنگ کلا سز شروع کردی جائیں تو یہی نہیں کہ انہیں فتنوں سے بچایا جا سکتا ہے بلکہ کو چنگ کلاسز کے ذریعہ جہاں ان کی تعلیم کا معیار بلند ہو سکتا ہے وہیں ان کے اندر دینی سوچ بھی پید اکی جا سکتی ہے ۔
عوام کو مدرسوں سے فیضیا ب کر نے کا ایک اورطریقہ ہے ؛ وہ یہ کہ اسکولوں کی گر مائی تعطیلا ت(SUMMER VACATIONS) میں اقامتی مدرسوں میں گرمائی کیمپ(SUMMER CAMPS) لگا ئے جائیں جن میں اسکولی بچوں کو مدرسہ کے بچوں کی طرح باجماعت پنج وقتہ نما زوں کا اہتمام کرا یا جا ئے اور نماز وروزہ اور اسلام کی بنیا دی تعلیمات کے ساتھ سیر ت رسول ﷺ اور اسلا می تا ریخ سے روشناس کرایا جا ئے۔ اس کا فا ئدہ یہ بھی ہو گا کہ عصری تعلیم یا فتہ طبقہ کے سامنے مدرسوں کی ما لی مشکلا ت کے ساتھ اربابِ مدا رس کی بے پناہ قر بانیاں اور مخلصا نہ محنتیں واضح ہو ں گی۔انجام کار مدرسوں کے تعلق سے ان کے اندر ہمدردی و خیر خوا ہی کا جذبہ پیداہو گا۔
کتبہ: محمد اشرف قاسمی
خادم الافتاء شہرمہد پور
ضلع اجین ایم پی
[email protected]

Comments are closed.