کشمیر کی تقسیم کے بعد………..!

ڈاکٹر سید فاضل حسین پرویز
ایڈیٹر گواہ اردو ویکلی حیدرآباد
اور کشمیر تقسیم ہوگیا۔ اس کا خصوصی موقف ختم کردیا گیا۔ اپوزیشن کا حال مغل اعظم کے شہزادہ سلیم جیسا تھا جو انتہائی بے بسی کے عالم میں یہ کہنے کے لئے مجبور ہوا ”انارکلی قید کرلی گئی اور میں دیکھتا رہ گیا“۔ اور اگر وہ یہ ڈائیلاگ کہہ بھی لیتے تو ایک نہیں دو دو اکبر اعظم ایک آواز میں جواب دیتے ”اور تم کر بھی کیا سکتے تھے“۔
نوٹ بندی‘ تین طلاق بل پر کون کیا کرسکا! مودی حکومت نے جو چاہا وہ کیا۔ اپوزیشن کی حالت بکھرے تنکوں جیسی ہے۔ سب سے بڑی جماعت کانگریس وینٹی لیٹر پر آچکی ہے۔ مودی، امیت شاہ کی جوڑی نے 2014ء سے 2019ء تک جو جو وعدے کئے تھے انہیں پورا کیا سوائے اس کے کہ کسانوں کے بینک اکاؤنٹس میں 15۔ 15لاکھ روپئے نہیں آسکے۔ کالے دھن کی واپسی کا ابھی انتظار ہے۔ جموں و کشمیر سے متعلق فیصلہ اور عمل غیر متوقع تھا۔ اور جس انداز میں مودی امیت شاہ نے منصوبہ بندی کی اس کی مخالفت کے باوجود تعریف کرنی پڑے گی۔ جس ریاست کو دو حصوں میں تقسیم کرنے کا فیصلہ کیا گیا اس سے اس ریاست کے گورنر ستیہ پال ملک کو تک لاعلم رکھا گیا۔ جس طرح سے اپوزیشن سے خفیہ معاملت کی گئی‘ اور جس طرح سے نام نہاد سیکولر جماعتوں کے قائدین نے بی جے پی سے وفاداری نبھائی وہ ہمیشہ تاریخ میں یاد رکھی جائے گی۔ جموں و کشمیر کی تقسیم کا اگرچہ کہ فوری طور پر کوئی تصور نہیں تھا۔ لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ 1950ء سے ہی اس کی تقسیم کیلئے تجاویز پیش کی جاتی رہیں۔ ٹی راما کرشنن نے دی ہندو (7/اگست2019) میں اپنے ایک تجزیاتی مضمون میں انکشاف کیا ہے کہ 1950ء میں اقوام متحدہ کی جانب سے مسئلہ کشمیر پر مصالحت کار کی حیثیت سے ایک آسٹریلوی ماہر قانون Owen Dixen کا تقرر کیا گیا تھا جنہوں نے ستمبر 1950ء میں اپنی رپورٹ پیش کی جس میں جموں و کشمیر کو 3حصوں میں تقسیم کرنے کی تجویز پیش کی۔ لداخ کو ہندوستان میں شامل کرنے اور شمالی علاقہ کو پاکستان میں ضم کرنے اور جموں کو دو حصوں میں تقسیم کرنے کی تجویز پیش کی تھی۔ اسی طرح ڈاکٹر بی آر امبیڈکر نے پنڈت نہرو کی کابینہ سے استعفیٰ کے بعد تجویز پیش کی تھی کہ جموں و کشمیر کو تین زونس مقبوضہ کشمیر، وادی کشمیر، جموں اور لداخ پر مشتمل علاقوں میں تقسیم کیا جائے۔ حکومت ہند نے اس تجویز مسترد کردیا تھا۔
مودی حکومت کی جانب سے 5/اگست کو دستور کی دفعہ 370 کی برخواستگی اور کشمیر کے خصوصی موقف سے خاتمہ سے متعلق بل کی منظوری کے بعد ریاست کشمیر کے آخری راجہ ہری سنگھ کے بیٹے کرن سنگھ جو اس ریاست کے آخری یوراج تھے اور جو کانگریس کے سینئر قائدین میں شمار کئے جاتے ہیں۔ مودی حکومت پر کڑی تنقید کی کہ جس ریاست کو ان کے آباء و اجداد نے آباد کیا اسے تقسیم کردیا گیا۔ وہاں کے عوام کو مراعات سے محروم کردیا گیا۔ تاہم ٹی راما کرشنن نے اپنی رپورٹ میں یہ بھی انکشاف کیا کہ یہی کرن سنگھ تھے جنہوں نے اگست 1966ء میں ایک انگریزی اخبار کو دیئے گئے انٹرویو میں جموں کو کشمیر سے علیحدہ کرکے ہماچل پردیش میں ضم کرنے کی تجویز پیش کی گئی۔ 1983ء میں اُس وقت کے وزیر دفاع آر وینکٹ رامن نے جموں وکشمیر کو تین حصوں میں تقسیم کرنے کا مشورہ دیا تھا۔ جموں کو ریاست کا درجہ‘ لداخ کو مرکز کا زیر انتظام علاقہ اور وادی کو اس کی علیحدہ شناخت کے ساتھ برقرار رکھنے کا مشورہ دیا تھا۔ ایسی ہی تجویز مسٹر اندرجیت گپتا نے بھی پیش کی تھی جو مرکزی وزیر داخلہ تھے۔
ہندوستان کی آزادی اور تقسیم کے بعد سے کشمیر ہمیشہ سے ایک متنازعہ مسئلہ بنارہا۔ ہندوستان اور پاکستان کے درمیان تین جنگیں ہوچکی ہیں اور چوتھی جنگ کے آثار ہیں۔ کیوں کہ ہندوستان کے فیصلے سے پاکستان کو زبردست دھکہ لگا ہے۔ عمران خان کی ساکھ بھی متاثر ہوئی ہے۔ معاشی بدحالی کا شکار پاکستان جنگ کا متحمل نہیں ہے۔ امریکہ سے اگرچہ کہ اس کی مالی امداد کی بحالی کا وعدہ کیا گیا ہے۔ بعض عرب ممالک نے دست تعاون دراز کیا ہے۔ چین نے قرض کے احسان تلے اسے دبادیا ہے۔ اپوزیشن ایک بار پھر مستحکم ہونے لگا ہے۔ علیحدہ بلوچ ریاست کے مطالبہ میں شدت پیدا ہوئی ہے۔ اِن حالات میں کشمیر کے حالات نے اُسے اور کمزور کیا ہے۔ ہندوستان اور پاکستان دونوں کی سیاست کا مرکز اور محور کشمیر ہی رہا ہے۔ اور اب جبکہ ہندوستانی وزیر داخلہ امیت شاہ نے ایوان پارلیمنٹ میں یہ کہا ہے کہ مقبوضہ کشمیر بھی جموں و کشمیر ہی کا حصہ ہے۔ یہ دراصل اشارہ ہے کہ اگلا قدم کیا ہوگا۔ پاکستان کے خلاف جارحانہ فوجی کاروائی بھی ممکن ہے۔ یقینا پاکستان بھی جوہری طاقت کا حامل ہے مگر ہندوستانی دفاعی طاقت کا مقابلہ آسان نہیں ہے۔ اس کے علاوہ امریکہ نے وقتی طور پر پاکستان کو سہارا ضرور دیا مگر وہ بیچ بھنور میں کب تنہا چھوڑ دے کہا نہیں جاسکتا۔ پاکستان نے ہندوستان کے فیصلے کے خلاف تنظیم اسلام کانفرنس میں مسئلہ اٹھانے کا فیصلہ کیا ہے‘ مگر اس بات کا بہت امکان ہے کہ اسے خاطر خواہ مدد ملے گی۔ کیوں کہ متحدہ عرب امارات اور مالدیپ جیسی ممالک نے تو ہندوستان کی حمایت کی ہے۔ دیگر ممالک کی اکثریت بھی یا تو آپس میں بات چیت کے ذریعہ مسئلہ حل کرنے کا مشورہ دے کر اپنے آپ کو غیر جانبدار رکھے گی یا پھر ہندوستان کی حمایت کرے گی کیوں کہ آج کی تاریخ میں ہندوستان ہر اعتبار سے پاکستان کے مقابلے میں طاقتور ہے اور دنیا کا یہی دستور رہا ہے کہ وہ کمزور کی مدد ضرور کرتی ہے مگر طاقتور کا ساتھ دیتی ہے۔ پاکستان نے اپنا سفیر واپس بلانے کا فیصلہ کیا ہے اور ہندوستانی ہائی کمشنر کو واپس کردیا ہے۔ تجارتی تعلقات بھی منقطع کرلئے ہیں۔ سفارتی تعلقات بھی بہت ممکن ہے کہ ختم ہوجائیں۔
جہاں تک جموں و کشمیر کی تقسیم اور خصوصی موقف کو ختم کرنے کا تعلق ہے‘ مختلف جماعتوں نے جس جس طرح سے اپنے اپنے ردعمل کا اظہار کیا ہے اس سے یہی پتہ چلتا ہے کہ سبھی کے سینوں میں بغض تھا جس کے اظہار کا انہیں موقع نہیں مل رہا تھا۔ سبھی نے اپنے اپنے چہروں پر سیکولرزم کے نقاب ڈال رکھے تھے۔ جب وقت آیا تو سبھی ایک حمام میں نظر آئے۔
میڈیا نے بھی اسے کشمیر کی آزادی سے تعبیر کیا۔ اب دیکھنا ہے کہ اس نئی آزادی کے بعد کشمیر کے مسلمانوں کے ساتھ کیا سلوک کیا جاتا ہے۔ غیر مسلم آبادی کو تو نہ صرف آباد کیا گیا بلکہ انہیں باقاعدہ ان کی اعانت بھی کی جارہی ہے۔ جو کشمیری مسلمان تین دہائیوں سے آزمائشی دور سے گذر رہے ہیں‘ جن کے ماہ و سال سیکوریٹی فوج کے سائے اور کرفیو میں گزر گئے‘ کیا انہیں راحت ملے گی؟کیا ان کے ساتھ تعصب کا سلسلہ ختم ہوگا؟ کیا انہیں روزگار مل سکے گا؟ دوسری ریاستو ں میں جو کشمیری آباد ہیں‘ کیا اب ان کے ساتھ ویسا ہی سلوک کیا جائے گا جیسا عام ہندوستانی شہریوں کے ساتھ کیا جاتا ہے۔ یہ تو آنے والا وقت بتائے گا۔راجیہ سبھا میں کشمیر بل پر بحث کرتے ہوئے آر جے ڈی کے پروفیسر منوج جھا نے یہ اندیشہ ظاہر کیا کہ کشمیر کو فلسطین جیسا بنانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ پروفیسر کا اندیشہ کسی حد تک صحیح ثابت ہوسکتا ہے اور کسی حد تک اس سے اختلاف بھی کیا جاسکتا ہے۔ البتہ یہ ایک حقیقت ہے کہ ہندوستان اور اسرائیل کے درمیان دوستانہ تعلقات بہت زیادہ مستحکم ہوئے ہیں۔ اور اسرائیل ایک نکاتی فارمولہ پر عمل کرتی ہے۔ اور وہ ہے‘ مسلمانوں کا صفایا۔ فلسطین میں فلسطینیوں پر قابو پانے کیلئے اسرائیلی پولیس جو طریقہ کار اختیار کرتی ہے غیر مصدقہ اطلاعات کے مطابق کہا جاتا ہے کہ نرسمہا راؤ کے دورِ حکومت سے کشمیریوں سے نمٹنے کیلئے اسرائیلی پولیس کا تعاون حاصل کیا جاتا رہا ہے۔
مودی‘ امیت شاہ کی جوڑی نے جس منصوبہ کے ساتھ کشمیر پر ا پنی گرفت مضبوط کی اس کی تعریف کی جانی چاہئے۔ ایس گرو مورتی کے ایک مضمون (انڈین ایکسپریس۔7/اگست2019ء) کے مطابق بی جے پی نے پہلے پی ڈی پی کے ساتھ جموں و کشمیر میں مخلوط حکومت بنائی‘جس کے بعد سنگباری کے 3415 واقعات 2016ء میں پیش آئے تھے جو 2018ء میں 15 تک گھٹ گئے۔جب ا ڈمنسٹریشن کو پوری طرح سے سمجھ گئے‘ حالات بی جے پی کے قابو میں آگئے، پی ڈی پی سے رشتہ ٹوٹ گیا۔اِن دو برسوں میں بی جے پی نے جمو ں و کشمیر میں اپنی جڑیں مضبوط کیں۔ پھر بلدی انتخابات ہوئے جس کا پی ڈی پی اور نیشنل کانفرنس نے بائیکاٹ کیا بی جے پی کو 100، کانگریس کو 178نشستیں ملیں‘ جموں میں بی جے پی نے 43 اور کانگریس نے 18نشستیں حاصل کیں اس طرح بنیادی سطح پر بی جے پی نے اپنے آپ کو مستحکم کیا۔ کشمیر کی دفعہ 370کی برخواستگی کا وعدہ کیا گیا تھا۔ امریکہ اور دیگر مغربی ممالک کو پہلے ہی سے یہ واقف کروادیا گیا تھا کہ ہندوستان آنے والے دنوں میں کیا قدم اٹھانے والا ہے۔ کشمیری قائدین کو نظربند کیا گیا۔ حریت پسندوں کو جیل بھیجا گیا۔بعض کی سیکوریٹی برخواست کی گئی۔کشمیریوں کی طاقت کو منتشرکردیاگیا۔ NIA کے اختیارات میں اضافہ کیا گیاپھر 40ہزارفورسس کو کشمیر میں تعینات کیا گیا۔ امرناتھ یاترا روکی گئی۔ بیرونی ریاست کے شہریوں، کھلاڑیوں، سیاحوں کو واپس کیا گیا۔ ایک طرح سے خوف و دہشت کا ماحول پیدا کیا گیا۔ اور پھر ایوان پارلیمنٹ میں بل پیش کیا گیا۔ اسے منظوری ملی‘ جشن ہوا۔ مودی امیت شاہ ایک بار پھر ہیرو کے طور پر ابھرے۔ 2024ء کے الیکشن اور اقتدار کی برقراری کی راہ ہموار ہوگئی۔ کشمیر تو آزاد ہوگیا‘ اس آزاد کشمیر کی زمینات‘ یہاں کے قدرتی وسائل کشمیری عوام کے حصہ میں آتے ہیں یا ان پر اُن مٹھی بھر سرمایہ داروں کا قبضہ ہوتا ہے جن کی تجوریوں میں ہندوستانی بینکوں کو دھوکہ دے کر حاصل کی گئی رقومات یاتو محفوظ ہیں یا پھر بیرونی ممالک اکاؤنٹس میں ہیں۔
کشمیر‘ فلسطین بنے یا نہ بنے کشمیر کے بعض قائدین فلسطین کے قائدین سے مختلف نہیں‘ بھوکے اور مظلوم فلسطینیوں کے نام پر اربوں ڈالرس فلسطینی قیادت نے اکٹھا کی۔ یاسر عرفات مجاہد تھے‘ یہودن کی جال میں پھنسے، ان کی وفات کے بعد تین سو بلین ڈالرس کی رقم اس یہودن نے تیونس کے بھگوڑے صدر کے بھائی کے عشق میں اڑا دی۔ فلسطینی مظلوم کے مظلوم رہے۔ بعض کشمیری قائدین استحصال کرتے رہے‘ بعض مخلص رہے‘ بعض کی اولاد تو بیرونی ممالک میں محفوظ ہے۔ یہ کشمیری نوجوانوں کے جذبات کا استحصال کرتی رہی آج ان کے خطاؤں کی سزا کشمیری عوام کو ملی ہے۔ ہندوستان کے دیگر مسلم قائدین کیلئے وقت ہے کہ وہ بھی اب سنبھل جائیں‘ ورنہ آنے والے دنوں میں ان کا حال بھی کشمیری قائدین جیسا ہوسکتا ہے!
(بصیرت فیچرس)
Comments are closed.