کشمیر : دیو استبداد جمہوری قبا سے بے نیاز

 

ڈاکٹر سلیم خان

آئین کی دفعہ 370 کے خاتمہ کا کشمیر پر اثر فاروق عبداللہ کے انٹرویو میں دیکھا یا محبوبہ مفتی کے بیان کے اندر پڑھا جاسکتا ہے۔ ایوان پارلیمان میں غلام نبی آزاد و پی چندمبرم کی آہ و بکا یا اسدالدین اویسی اورراہل گاندھی کے موقف سے بھی اس کا اندازہوسکتا ہے ۔ علاقائی جماعتوں کے اکھلیش اور اسٹالن نے تو اس کے خلاف صدائے احتجاج بلند کی یہاں تک کہ این ڈی اے میں شامل جنتا دل یو کےرکن پارلیمان کے سی تیاگی نے کہا چونکہ رام منوہر لوہیا آئین کی دفعہ 370 کو کالعدم قرار دینے کے خلاف تھے اس لیے وہ بھی سرکار کےمخالف ہیں جبکہ کانگریس کےجناردھن دویدی کا نے رام منوہر لوہیا کو دفع ۳۷۰ کامخالف بتاکر اس کے خاتمہ کو ایک تاریخی غلطی کی اصلاح قرار دیا۔ کانگریس کے چیف وہپ بھوبانیشور کلیتا نےاس کو سیاسی خودکشی بتا کر پارٹی سے استعفیٰ دے دیا۔ راہل گاندھی کے دست راست جیوتر دتیہ سندھیا 370 کے خاتمہ کی ذاتی سطح پر حمایت فرما دی ۔ بی جے پی کے علاوہ مختلف علاقائی جماعتیں بشمول بی ایس پی نے اس سرکار ی فیصلے کو بڑھ چڑھ کرسراہااور دونوں ایوانوں میں یہ بل منظور ہوگیا ۔

ایوان پارلیمان کے اندر اور باہر بیشترلوگوں نے طریقۂ کار کو لے کر مخالفت کی ۔ یعنی جو کچھ ہوا وہ سرے سے غلط نہیں تھا بلکہ جس طرح سے کیا گیا اس میں کجی تھی ۔عام الزام یہ لگا کہ سیاستدانوں کو نظر بند یا گرفتار کرنا درست نہیں ہے۔ کرفیو کے سبب عوام کے آمد ورفت یا ضروری سہولیات کی رسائی سے محرومی کو زیادتی بتایا گیا۔ ذرائع ابلاغ پر قدغن لگا کر اظہار رائے کی آزادی کو سلب کرنا یا احتجاج درج کرانے پر روک لگانے کو نامناسب کہا گیا۔ صوبائی انتخاب کے بعد ریاستی اسمبلی کے مشورے سے اس کو اعتماد میں لے کر اسے انجام دینے پر زور دیا گیا وغیرہ وغیرہ ۔ اس پر حکومت کی دلیل یہ ہوسکتی ہے کہ افہام تفہیم یا اعتماد میں لے کر کرنے کا مشورہ ناقابلِ عمل تھا۔کرفیو اور گرفتاری احتیاطی تدابیر تھیں ۔ ذرائع ابلاغ یہ باور کرا رہے ہیں کہ بی جے پی نے اپنے منشور میں ایک وعدہ کیا تھا جسے عوام کی تائید حاصل کرنے کے بعد شرمندہ ٔ تعبیر کردیا تو اس میں غلط کیا ہے؟ ماحول سازی اس طرح سے کی گئی گویا ایک نیا صوبہ فتح کرلیا ہو حالانکہ ایسا کچھ بھی نہیں ہوا۔

عام آدمی بشمول عام آدمی پارٹی جب ان دونوں موقف کا موازنہ کرتاہے تو اسے حکومت زیادہ صحیح لگتی ہے اس لیے کہ وہ روز مرہ کی زندگی میں اپنے مقاصد حاصل کرنے کے لیے صحیح اور غلط طریقہ میں تفریق کرنا ضروری نہیں سمجھتا۔ حرام و حلال کا پاس و لحاظ کیے بغیر اپنے اہداف کو حاصل کرتا رہتا ہے۔ اس لیے جب وہ اپنی منتخبہ سرکار کو یہی عمل کرتا ہوا دیکھتا ہے تو اس حیرت نہیں ہوتی بلکہ وہ عمل اس کے لیے نہ صرف قابلِ قبول بلکہ قومی مفاد میں پسندیدہ ہوجاتاہے ۔ اس طرح اس کے اندر غم وغصہ پیدا ہونے کے بجائے سرکار کے تئیں عقیدت و احترام میں اضافہ ہوجاتا ہے۔ بھانو پرسادمہتا، فیضان مصطفیٰ اور پریم شنکر جھا جیسے دلیر دانشور اس کو دھوکہ دھڑی، اور غیر اخلاقی قراد دیتے ہیں۔ ان کے نزدیک یہ جمہوریت کا قتل ہے۔ عوام کے نزدیک چونکہ جمہوریت کی بنیادی تعارف یہ ہے کہ: عوام کی حکومت ، عوام کے ذریعہ اور عوام کے لیے اس لیے وہ اس فیصلے کو غیر آئینی نہیں سمجھتے ۔ ویسے بھی جمہوریت کی اس تعریف میں اخلاقیات کا کہیں عمل دخل نہیں ہے اوراس کی شریعت میں دھوکہ دہی بھی معیوب فعل نہیں ہے۔

آئین کی دفعہ 370 کو مسترد کرنے والی بی جے پی سرکار عوام کی ہے کیونکہ لوگوں کے ووٹ سے قائم ہوئی ہے ۔ اس کا دعویٰ ہے کہ اس کام کو عوام کے فلاح و بہبود کی خاطر کیا جارہاہے ۔ اس پر حزب اختلاف کا اعتراض ہےکہ یہ عوامی مفاد کے منافی ہے ۔ اس اختلاف کو ختم کرنے کا جمہوری طریقہ یہ ہے کہ عوام کے نمائندوں کی رائے شماری کی جائے ۔ ایسا کیا گیا تو دفعہ 370  کو مسترد کرنے کے حق میں بہت زیادہ رائے آگئی۔ ایسے میں کون سا غیرجمہوری کام ہوگیا ؟سچ تو یہ ہے کہ جمہوری نظام سیاست مستقل اقدار کی پابند ی کا قائل نہیں ہے ۔ اس میں عوام اور ان کے نمائندے حسبِ ضرورت اپنی اخلاقی قدریں طے کرنے کے لیے خودمختار ہیں ۔ وہ کسی بھی وقت اتفاق رائے سےحق و باطل کا تعین کرسکتے ہیں۔ ان کے لیے کثرت رائے سے حلال و حرام کا فیصلہ کرنے میں کوئی رکاوٹ نہیں ہے۔ جمہوری پارلیمان بھی کسی ظالم بادشاہ کی مانند جبر و ظلم کا وطیرہ اختیار کرنے کے لیے آزاد ہے۔ اسی لیے علامہ اقبال فرماتے ہیں؎

جلالِ پادشاہی ہوکہ جمہوری تماشہ ہو

جدا ہو دیں سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی

یہاں پر دین سے مراد وہ الہامی یعنی قرآنی تعلیمات ہیں جن پر تصرف کا اختیار کسی بادشاہ ، کسی آمر، عوام یا ان کے نمائندوں کو بھی نہیں ہے۔ ان مستقل اقدار کا تقدس اس لیے ہے کہ انہیں انسانوں نے ازخود نہیں بنایا ۔ آئین کی ان بنیادوں کو انسان اپنے فہم و ادراک سےنہیں وضع کرتا اورنہ وقتِ ضرورت پامال کردیتا ہے۔ عوام یا ان کے نمائندوں کو اس سے روگردانی کا حق نہیں ہوتا۔ اس کی خلاف ورزی کرنے والے حکمراں قابلِ گرفت ہوتے ہیں ۔ لادینی جمہوریت کی مانند قومی مفاد کے نام پر اس سے کھلواڑ نہیں کیا جاسکتا ۔ان ناقابلِ تغیر آفاقی اقدار کانفاذ و احترام ہی عدل و انصاف کی اولین شرط ہے ۔ ایک طرف فسطائی وطن پرستوں نے قومی مفاد کے نام پر کشمیر میں ظلم و جبر کا بازار گرم رکھا ہے اور دوسری جانب پورا ملک اس پراحتجاج کرنے کے بجائے جشن منا رہا ہے کیونکہ ان دونوں کے نزدیک ؎

ان تازہ خداوں میں بڑا سب سے وطن ہے

جو پیرہن اس کا وہ مذہب کا کفن ہے

جمہوریت کی بابت عام لوگوں کے نزدیک بہت خلط مبحث (confusion) پایا جاتا ہے ۔ اس کو بہت خوشنما بناکر پیش کردیا گیا ہے۔ جس طرح مختلف لطائف کو مشہور کرنے کے لیے بیربل سے منسوب کردیا جاتا ہے اسی طرح اعلیٰ انسانی اقدار کو بلا وجہ جمہوری قدروں کا نام دے دیا جاتا ہےحالانکہ ان کا ایک دوسرے سے کوئی واسطہ نہیں ہوتا۔ ارشادِ ربانی ہے ‘‘ ہم نے ان پر ایسے ساتھی مسلط کردیئے تھے جو انہیں آگے اور پیچھے ہر چیز خوشنما بنا کر دکھاتے تھے۔ آخر کاران پر وہی عذاب چسپاں ہوکر رہا جو ان سے پہلے گذرے ہوئے جنوں اور انسانوں کے گروہوں پر چسپاں ہوچکا تھا۔ یقیناً وہ خسارے میں رہ جانے والے تھے‘‘(۴۱:۲۵)۔ جمہوریت کی مدد سے جبر و استبداد کا مقابلہ کرنے والوں کو یاد رکھنا چاہیے کہ فسطائیت کو اس سے کوئی خطرہ نہیں ہے۔ وہ تو اس نظام کو اپنا آلۂ کار بناکر اقتدار پرمسلط ہوجاتی ہے ۔ بی جے پی نے جس طرح آئین کی دفعہ 370 کی پہلی شق کا استعمال کرکے پوری دفع کو ساقط کردیا اسی طرح پہلے جمہوری طریقہ سے سرکار بنائی اور پھر اس کو سولی پر لٹکا دیا ۔جو نظام سیاست خود اپنا دفاع کرنے پر قادر نہ ہو وہ بھلا اپنے ہمنواوں کی حفاظت کیسے کرسکتا ہے؟ قوم پرستانہ فسطائیت کو تو صرف خدا پرستانہ اسلامی نظام سیاست ہی زیر کرسکتی ہے۔ لادینی جمہوریت کے سہارے فسطائیت کا مقابلہ کرنے والوں کو شاعر خبردار کرتا ہے؎

اگر اے ناخدا طوفان سے لڑنے کا دم خم ہے

ادھر کشیر نہیں لانا یہاں پانی بہت کم ہے

Comments are closed.