حج کا پہلا دن ؛ حجاج کرام کی روانگئ منی

ساجد حسین قاسمی
ماہ ذی الحجہ کے فضائل اور عنداللہ اس کی مقبولیت و معتبریت مسلم اور کتاب و سنت سے ثابت شدہ ہیں ، داستان عشق و شیفتگی سے پر یہ ماہ مسعود توجہ الہی حاصل کرنے کا بہترین ذریعہ ہے ، راز و نیاز عبد و معبودی کا موسم بہار ہے ، قربت خداوندی حاصل کرنے کا بہانہ ہے ، ابتغائے فضل اللہ کا سبب اور رضائے الہی کا باعث ہے.
اس میں شبہ کی گنجائش نہیں کہ اللہ جل جلالہ نے اپنی کتاب مقدس میں باربار قابل احترام چیزوں کی قسم کھائی ہے ، جس کا مقصد سوائے سبق تقدس و تفوق دینے کے اور کیا ہوسکتا ہے ، اسی سلسلے میں سورة الفجر کی شروع کی چند آیتیں ہیں ، کماقال اللہ : "والفجر . ولیال عشر ” اکثر مفسرین کے نزدیک ” لیال عشر ” سے ذوالحجہ کی پہلی دس راتیں ہیں ، ایک دوسری جگہ ارشاد ہے : ” وَيَذْكُرُوا اسْمَ اللَّهِ فِي أَيَّامٍ مَّعْلُومَاتٍ ” ابن عباسؓ سے مروی ہے: ان "معلوم ایام” سے مراد ذوالحجہ کا پہلا عشرہ ہے ﴿ صحیح بخاری﴾.
ذوالحجہ کے پہلے عشرے کی فضیلت میں کوئی کلام نہیں ، تسلیم شدہ اور چودہ سو سال سے اس پر عمل ہوتا آرہا ہے ، بےشمار احادیث اس عشرے کی فضیلت پر کتب احادیث میں مذکور ہیں کماقال رسول اللہ صلى الله عليه وسلم : "فضل أيام الدنيا أيام العشر ” یعنی دنیا کے تمام ایام پر ذوالحجہ کے پہلے عشرے کو فضیلت حاصل ہے. ﴿ الحدیث ﴾ "ما من أيام العمل الصالح فيها أحب إلى الله من هذه الأيام ـ يعني أيام العشر ـ قالوا: يا رسول الله، ولا الجهاد في سبيل الله ؟ قال: ولا الجهاد في سبيل الله ، إلا رجل خرج بنفسه وماله ثم لم يرجع من ذلك بشيء” ﴿رواه البخاري﴾ اللہ کے نبی صلى الله عليه وسلم نے فرمایا : ان ایام ﴿ ذوالحجہ کے ابتدائی دس روز ﴾ کے اعمال صالحہ ، دوسرے ایام کے اعمال صالحہ کے مقابلے میں اللہ کے نزدیک زیادہ محبوب و پسندیدہ ہیں ، صحابہ کرام رضوان اللہ علھیم نے عرض کیا : اللہ کے راستے میں جہاد کرنے سے بھی ؟ آپ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا: ﴿ ہاں ﴾ اللہ کے راستے میں جہاد کرنے سے بھی ؛ الا کوئی شخص اپنی جان مال اللہ کے راستے میں لٹانے کی غرض سے نکلا ہو اور وہ ان میں سے کچھ لےکر نہ لوٹے.﴿ الحدیث ﴾ عبداللہ ابن عمرؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ” کوئی دن اللہ تعالیٰ کے ہاں ان دس دنوں سے زیادہ عظمت والا نہیں اور نہ ہی کسی دن کا عمل اللہ تعالیٰ کو ان دس دنوں کے عمل سے زیادہ محبوب ہے پس تم ان دس دنوں میں کثرت سے "تحلیل” ﴿لا الہ الا اللہ﴾ "تکبیر” ﴿اللہ اکبر﴾ اور "تحمید” ﴿الحمدللہ﴾ کہو! ﴿ مسند احمد ﴾ امام بخاریؒ نے بیان کیا ہے : کہ ” ان دس دنوں میں ابن عمرؓ اور ابوہریرہ ؓ تکبیر کہتے ہوئے بازار میں نکلتے اور لوگ بھی ان کے ساتھ تکبیرات کہنا شروع کردیتے”. اور بھی دیگر احادیث سے اس عشرے کی فضیلت واضح طور پر ملتی ہیں.
اس عشرے کے آٹھویں دن کو عربی میں ” یوم الترویہ ” کہتے ہیں ، سعودی عرب کی تاریخ کے اعتبار سے آج ہی ” یوم الترویہ ” ہے ، اس دن کا خصوصی امتیاز یہ ہےکہ: اسلام کے پانچ بنیادی فرائض میں سے ایک انتہائی مقبول و معروف ، اور تمام بنیادی رکنوں کے مجموعہ یعنی "حج ” کا آغاز اسی دن سے ہوتا ہے.
آج بعد نماز فجر تمام حجاج کرام منی کےلیے نکلیں گے ، تلبیہ یعنی ” لَبَّیْکَ اَللّٰھَمَّ لَبَّیْکَ، لاَشَرِیْکَ لَکَ لَبَّیْکَ، اِنَّ الْحَمْدَ وَالْنِّعْمَۃَ وَالْمَلْکَ، لَاشَرِیْکَ لَک ” کثرت سے پڑھتے رہیں گے ، اس سفر کا عنداللہ سب سے پسندیدہ کلمات ہیں ، ساتھ ساتھ استغفار اور درود شریف کا ورد بھی ضروری ہے ، ظہر سے قبل تک منی پہنچ جائیں گے ، جہاں آٹھ ذی الحجہ کی چار نمازیں ﴿ ظہر _جمعہ_ عصر مغرب عشا ﴾ اور نویں ذی الحجہ کی نماز فجر ادا کریں گے ، رسول اللہﷺ سے بھی پانچ نمازیں منیٰ میں ادا کرنا ثابت ہے ، "یوم الترویہ” یعنی آج کا سارا دن پہنچنے کے بعد اور ساری رات منی ہی میں عبادت و ریاضت اور مکمل توجہ و استحضار قلب کے ساتھ دعا و استغفار میں مشغول رہیں گے ، شب گریہ و زاری اور اپنے مالک حقیقی کی یادوں میں بسر ہوں گی اور آنے والی صبح نو مژدہ رضائے الہی لےکر نمودار ہوگی ﴿ ان شاء الله ﴾
اللہ تمام حجاج کرام کے حج کو قبول فرمائے اور ہم سب کو حج مبرور کی سعادت اور زیارت دیار حرم کی توفیق بخشے ﴿ آمین ﴾
Comments are closed.