حضرت مجدد الف ثانی رحمہ الله کا سب سے بڑا کارنامہ

 

محمد صابر حسین ندوی
[email protected]
7987972043

ہندوستان اکالۃ الامم سرزمین ہے، یہاں نہ جانے کتنی قوموں، تہذیبوں اور ثقافتوں نے دستک دی ہوگی؛ لیکن دوام کسی کو بھی نصیب نہ ہو سکا، کسی زمانے میں زرتشت یعنی وہ لوگ جو آگ کی پوجا کرتے تھے، اس کا مرکز ایران ہوا کرتا تھا، اس مذہب نے ہندوستان میں ایک طویل زمانہ گزارا، لیکن اب کہاں غائب ہے کہ اس کا اندازہ بھی مشکل ہے، اس کے علاوہ بودھ مذہب کی جڑیں ہندوستانی سرزمین میں پیوست تھیں، کہنا چاہیے کہ اس مذہب کا بانی بودھا اسی مٹی سے تعلق رکھتا تھا، اس مذہب کو آج بھی چین، جاپان، تبت، میانمار جیسے ممالک میں اکثریت حاصل ہے؛ لیکن ہندوستان اس کی جنم بھومی ہونے کے باوجود معمولی تعداد پر قانع ہے، اور برہمن وادی تو ہندوستان کی سب سے قدیم روایت رہی ہے، جس میں چند اعلی نسل کے لوگوں نے پوری آبادی پر قبضہ جما رکھا تھا، اور اپنے سے کم ذات لوگوں کو بس سانس لینے کی ہی اجازت دے رکھی تھی، وہ سانس بھی ان کی جانب سے قرض ہوا کرتی تھی؛ کہ وہ جب چاہیں اسے بند کردینے کے مستحق تھے، لیکن اب ہندوتوا کا وہ بول بالا نہیں رہا؛ البتہ آج پھر اس گڑے مردے میں جان پھونکنے کی کوشش کی جارہی ہے، مگر وہ تقریبا ناممکن بات ہے، ان سب میں اسلام کا امتیاز یہ ہے کہ ہندوستان پر جب اس کی پہلی کرن پڑی اس کے بعد اس نے آج تک اپنی شعاعوں کو زندہ رکھا ہے، وقت و حالات خواہ کچھ بھی ہوں؛ لیکن اس کی روشنی بجھنے نہ پائی؛ تاہم تاریخ میں عصر حاضر کو کچھ مماثلت عہد اکبری سے ہو سکتی ہے، کہ اس زمانے میں اسلام کی جڑوں پر حملہ کیا گیا تھا، اور قریب تھا کہ اس کی بنیاد ہی ختم کردی جائے؛ لیکن ایک مرد داناں حضرت مجدد الف ثانی نے اس دھارے کو بھی موڑ دیا، ذیل میں ان کے سب سے عظیم کارنامے کو پڑھیے:
مجدد الف ثانی کا سب سے بڑا کارنامہ مزاج حکومت کا بدل دینا ہے۔ بادشاہ جلال الدین اکبر کے دور میں اسلام اور مسلمانوں پر عرصہ حیات تنگ ہوگیا تھا، اسلام کی بیخ کنی کا کام جس قوت اور منصوبہ بندی کے ساتھ کیا گیا تھا، وہ آپ کے درد مند دل کو مضطرب کر دینے کے لیے کافی تھا؛ لیکن ابھی وہ سرا ہاتھ نہیں آیا تھا، جس کے ذریعے آپ سلطنت اور سیاست پر اثر انداز ہوسکتے، البتہ تاریخ سے اتنا معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے خانقاہ سید صدر جہاں اور مرتضیٰ خان کے ذریعے جہان گیر کو نصیحت آمیز پیغامات بھیجے، لیکن قبل اس کے کہ آپ حکومت پر بہت اثر انداز ہوں، اور انقلاب انگیز کام شروع کریں، گوالیار کی اسیری کا واقعہ پیش آگیا، دراصل جہانگیر کے لیے تصوف کی اصطلاحات اور مضامین کا سمجھنا مشکل تھا، اور وہ مجدد صاحب کے مرتبہ ومقام سے بھی بالکل بے خبر تھا، اس کے علاوہ چونکہ مجدد صاحب شیعیت کے عقائد کے خلاف محاذ آرا تھے، اس لیے جہانگیر کے دربار کے بارسوخ ایرانی عنصر نے فائدہ اٹھایا، اور بادشاہ کے کان بھرے، اور بھی کوئی دوسرے اسباب ہو سکتے ہیں، جس کی وجہ سے اہل دربار نے وسوسہ اندازی کی ہو، بادشاہ نے مجدد صاحب کو دربار میں طلب کیا، یا مجدد صاحب نے آداب شاہی کی پرواہ نہیں کی، جس میں بادشاہ کو سجدہ کرنا بھی تھا۔
آداب شاہی سے بے اعتنائی کے جرم میں مجدد صاحب کو گوالیار کے قلعے میں نظربند کردیا گیا، مجدد صاحب قید میں بھی اصلاح و تربیت اور دعوت میں مشغول رہے؛ کہا جاتا ہے کہ کئی ہزار غیر مسلم قیدی آپ کی دعوت و تبلیغ اور صحبت و تربیت کے فیض سے مشرف بہ اسلام ہوئے، گوالیار کی قید کے زمانے میں ترقیات باطن کی شکل میں حضرت مجدد صاحب پر انعام الہیہ کی بارش ہوئی، آخر وہ وقت آیا گیا کہ بادشاہ کو اپنے اقدام پر ندامت ہوئی، اور ملاقات کا اشتیاق ظاہر کرکے تشریف لانے کی دعوت دی، حضرت مجدد کامل ایک سال قلعے گوالیار میں قید رہے، باہر آنے کے بعد بادشاہ نے آپ کا بہت اکرام کیا، اور آپ نے جہانگیر کی عقیدت سے فائدہ اٹھایا، اور وہ یہ کہ دربار کے معززین اور ملک کے عمائدین کی اصلاح کی طرف متوجہ ہوئے، وہ خطوط جو آپ نے اہل مناصب اور عمائدین سلطنت کو لکھے، وہ بہت ہی موثر ہیں، اور اس تاثیر کو ہر وہ شخص محسوس کرتا ہے، جس نے آپ کے مکتوبات کا مطالعہ کیا ہے، اس کا اثر یہ ہوا کہ جلال الدین اکبر کے پھیلائے ہوئے فتنےکا سد باب ہوگیا، اور ہندوستان کو برہمنیت یا وحدت ادیان کی گود میں جانے کے بجائے، دوبارہ دین حجازی کی تولیت اور نگرانی میں دے دیا گیا (مشاہیر علوم اسلامیہ اور مفکرین و مصلحین:۲۰۱)

Comments are closed.