یوم عرفہ ؛ سراپا عشق و شیفتگی کا دن

ساجد حسین سہرساوی
لَبَّيْكَ اللَّهُمَّ لَبَّيْكَ، لَبَّيْكَ لاَ شَرِيكَ لَكَ لَبَّيْكَ، إِنَّ الْحَمْدَ، وَالنِّعْمَةَ، لَكَ وَالْمُلْكَ، لاَ شَرِيكَ لَكَ.
نسیم صبح کے جھونکوں سے لطف اندوز تو ہر دن ہوا جاسکتا ہے ، طلوع آفتاب کا پرکشش ناز و انداز تو روز دیکھنے کو ملتا ہے اور صبح نو میں اس کا چڑھتا شباب یقینا دل و دماغ پر بڑا خوبصورت نقش چھوڑ جاتا ہے ؛ لیکن آج صبح کا آفتاب جب مشرق سے طلوع ہوکر جزیرة العرب کی وادیوں ، گلی گلیاروں ، در و دیوار کے روزنوں اور مشام جان و روح بیقرار کو روشن کر رہا ہوگا تو حیران و سراسیمگی کا مجسمہ بنے تکتا ہی رہ جائے گا کہ لاکھوں کی تعداد میں دنیا بھر کے لوگ ، بلاتفریق رنگ و نسل ، بلاامتیاز بندہ و بندہ نواز اور بلافصل عرب و عجم ، ایک ہی وضع قطع ، یکساں رکھ رکھاؤ اور ایک ہی جیسے لباس و ہئیت میں دیوانہ وار ایک ہی صدا کے ساتھ ایک ہی راہ اختیار کرتے ہوئے ، ایک ہی منزل تک پہنچنے کی جلدی میں ہیں. یہ کون لوگ ہیں ؟ کہاں سے آئے ہیں ؟ مقصد کیا ہے ؟ طلب گار کس چیز کے ہیں ؟ اگر یہ سوالات ان سے کیا جائے تو ان سب کا جواب بھی ایک جیسا ہی ہوگا: کہ ہم تو ذرۂ خاک ہیں ، ہمیں شوق پرواز نہیں ، بس دریائے عشق و شیفتگی میں ڈوب کر قطرۂ نایاب بننا چاہتے ہیں ، مالک حقیقی کی رحمت و توجہ کی تمنا ہمیں یہاں تک کھینچ لائی ہے ، سچ تو یہی ہےکہ ہم اس دربار میں قدم رکھنے کے لائق ہی نہیں تھے ؛ لیکن اس کی توفیق نے ہمیں لائق مند بنا دیا.
آج صبح جب آفتاب کی ہلکی ہلکی سی روشنی سے فضائے بسیط معطر ہورہی ہوگی ، چرند و پرند تلاش رزق کےلیے اپنے اپنے گھونسلے گھروندوں سے نکل رہے ہوں گے ، کار جہاں نظام سابق کے مطابق چلنے کو تیار ہوں گے اور لوگ اپنے اپنے کاموں میں مشغول ہو جائیں گے ؛ بعینہ اسی وقت جزیرة العرب ہجوم عاشقاں کی صدائے لبیک سے گونج رہا ہوگا یعنی گذشتہ کل جو لوگ منی میں تشریف لائے تھے آج وہ ایک نئی منزل کی طرف عازم سفر ہوں گے.
آج بعد طلوع آفتاب منی میں تشریف لائے حجاج کرام ” میدان عرفات ” کی جانب حج کے رکن اعظم کی تکمیل کے ارادے سے کوچ کریں گے.
آج حج کا دوسرا دن ہے ، وقوف عرفہ حج کا رکن اعظم ہے ، جس کے بغیر حج کا تصور تک نہیں ، اگر کوئی شخص اس رکن عظیم کی ادائیگی سے محروم رہ گیا تو نہ صرف یہ کہ اس کا حج نہیں ہوا؛ بلکہ آئندہ اس پر ہرحال میں حج فرض ہوگیا ہے جسے ادا کرنے کے علاوہ کوئی اور چارہ کار نہیں ، جب حجاج کرام منی سے میدان عرفات کی جانب نکلیں گے تو راستے میں تکبیر و تلبیہ کی گونج آسمانوں سے بات کرے گی ، روایت میں آتا ہے کہ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے پوچھا گیا : كَيْفَ كُنْتُمْ تَصْنَعُونَ فِي هَذَا الْيَوْمِ مَعَ رَسُولِ اللهِ ﷺ ؟ تو جواب ملا : كَانَ يُهِلُّ الْمُهِلُّ مِنَّا، فَلَا يُنْكَرُ عَلَيْهِ، وَيُكَبِّرُ الْمُكَبِّرُ مِنَّا، فَلَا يُنْكَرُ عَلَيْهِ. ﴿ بخاری شریف ﴾. اور اس درمیان دعا کرنا بھی سودمند ہے ، درود شریف اور کلمہ چہارم کا ورد بھی ضروری ہے اور یہ دعا جسے یاد ہو پڑھتے رہنا چاہیے : اَللّٰھُمَّ اجْعَلْھَا خَیْرَ غُدْوَۃٍ غَدَوْتُھَاقَطُّ وَقَرِّبْھَا مِنْ رِضْوَانِکَ وَاَ بْعِدْھَا مِنْ سَخَطِکَ وَ اَللّٰھُمَّ اِلَیْکَ تَوَجَّھْتُ وَعَلَیْکَ تَوَکَّلْتُ وَلِوَجْھِکَ الَکَرِیْمِ اَرَدْتُّ فَاجْعَلْ ذَنْبِیْ مَغْفُوْرًا وَّحَجِّیْ مَبْرُوْرًا وَّارْحَمْنِیْ وَلَاتُخَیِّبْنِیْ وَبَارِکْ لِیْ فِیْ سَفَرِیْ وَاقْضِ بِعَرَفَاتٍ حَاجَتِیْ اِنَّکَ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیْرٌ.
ظہر سے پہلے پہلے حجاج کرام میدان عرفات پہنچ جائیں گے ، پہنچتے ہی سب سے پہلی نظر ” جبل رحمت ” پر پڑے گی ، یہ وہی پہاڑ ہے جہاں سے جناب نبی کریم صلى الله عليه وسلم نے ” حجة الوداع ” کا خطبہ دیا تھا اور فرمایا تھا: ” نہ کسی عرب کو عجمی پر کوئی فوقیت ہے ، نہ کسی عجمی کو کسی عرب پر ، نہ کالا گورے سے افضل ہے اور نہ گورا کالے سے ؛ ہاں اگر بزرگی اور فضیلت کا کوئی معیار ہے تو وہ "تقویٰ” ہے. ہر مسلمان دوسرے مسلمان کا بھائی ہے اور سارے مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں. اپنے غلاموں کا خیال رکھو ، ہاں غلاموں کا خیال رکھو ، انہیں وہی کھلاؤ جو خود کھاتے ہو ، ایسا ہی پہناؤ جیسا تم پہنتے ہو. عورتوں سے بہتر سلوک کرو ؛ کیونکہ وہ تو تمہاری پابند ہیں اور خود وہ اپنے لئے کچھ نہیں کر سکتیں. میں تمہارے درمیان ایک ایسی چیز چھوڑے جاتا ہوں کہ تم کبھی گمراہ نہ ہو سکو گے اگر اس پر قائم رہے اور وہ اللہ کی کتاب ہے اور ہاں دیکھو دینی معاملات میں غلو سے بچنا کہ تم سے پہلے کے لوگ ان ہی باتوں کے سبب ہلاک کر دیئے گئے تھے.” اور تکمیل دین کی آخری آیت ” الیوم اکملت لکم دینکم و اتممت علیکم نعمتی و رضیت لکم الاسلام دینا ” کا نزول بھی اسی پہاڑی پر ہوا تھا ، یہیں مسجد ” نمرہ ” واقع ہے جس کی بنیاد حضرت ابراھیم علیہ السلام نے ازخود ڈالی تھی ، اسی مسجد میں ﴿ چونکہ تعداد کے اعتبار سے مسجد کی گنجائش کم ہے ، اسلیے میدان عرفات میں جہاں جگہ مل جائے امام مسجد نمرہ کی اقتدا میں ﴾ حجاج کرام "ظہر و عصر” کی نماز ایک ساتھ قصر کرکے پڑھیں گے ، وقوف عرفہ کا وقت ۹ ذی الحجہ سے شروع ہوکر ۱۰ ذی الحجہ کی صبح صادق تک ہے.
عرفات کا میدان وہی ہے جہاں حضرت آدم اور حضرت حوا علیھما السلام کی _جنت سے نکالے جانے کے بعد اس دار فانی میں_ پہلی ملاقات ہوئی تھی ، اور دونوں کی توبہ قبول کی گئی تھی؛ اسلیے یہاں آنے کے بعد حجاج کرام زیادہ سے زیادہ عبادتوں میں مشغول رہیں اور توبہ و استغفار کرتے رہیں ، روتے گڑگڑاتے رہیں ، معافیاں مانگتے رہیں ، ہر قسم کے گناہوں کو چھوڑنے کا عزم مصمم کر لیں اور وہاں سے گناہوں سے اس طرح پاک صاف ہوکر لوٹیں ؛ گویا ایسے بچے ہوں جن کی پیدائش آج ہی ہوئی ہو.
آخر میں دست بہ دعا ہوں: کہ اللہ تبارک و تعالی ہم سب کو بھی زیارت دیار حرم کی توفیق بخشے اور جتنی جلد ہو اپنے مقدس گھر کا دیدار کرا دے ، امت مرحومہ کی زبوں حالی پر رحم کرے اور ان کو خستہ حالی سے نکال دے ، ہمارے درمیان اخوت و بھائی چارگی کا سامان پیدا کر دے اور ہر قسم کی دشواریوں سے ہم سب کی حفاظت فرمائے ﴿ آمین یا رب العالمین ﴾
Comments are closed.