مکہ ڈائری

مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ
اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم سے اس بار حج وزیارت کے سفر کی سعادت نصیب ہوئی ، اس توفیق اور سعادت میں اسباب کے درجہ میں اہلیہ کی دعا اور اس ضد کو بھی دخل رہا کہ وہ میرے ساتھ ہی حج کریں گی ، اللہ رب العزت نے ایسی شکل بنائی کہ پانچ آدمی کا قافلہ بن گیا ، اہلیہ ، بڑا لڑکا عزیزی محمد نظر الہدیٰ قاسمی ، بھتیجا وہاج الہدیٰ قاسمی اور بھابھی پر مشتمل یہ کارواں اللہ کے گھر کے لئے کولکاتا کے نیتاجی سبھاش چندر بوس انٹرنیشنل ایر پورٹ سے ۲۷؍ جولائی ۲۰۱۹ء بروز سنیچر ایک بجے شب میں روانہ ہوا، ممتا بنر جی نے جو عالی شان مدینۃ الحجاج کی تعمیر کرائی ہے اور جو راجر میں واقع ہے ، انجمن خدام الحجاج کے افراد ہاتھوں ہاتھ لینے کو تیار بیٹھے تھے، میرے شاگرد حافظ مہتاب عالم کے تعاون سے بعجلت تمام کاغذات کی وصولی کا کام انجام پایا ، رپورٹ آن لائن کرالی گئی تھی ، اس لیے کسی قسم کی دشواری پیش نہیں آئی، کولکاتا پہونچنے پر مخلصین نے اس قدر دعوت کا اہتمام کیا کہ اوقات کم پڑ گیے ، حاجی محمد اسرار ، ان کے بھائی سعید الرحمن ، سیدحاجی محمد معروف اور ان کے صاحب زادگان حاجی محمد اسماعیل حاجی محمود عالم اور ان کے اولاد واحفاد ، میرے قریبی رشتہ دار حسیب بابو ان کے بھائی اور صاحب زادگان، لئیق اللہ عرف حنا اور بہت سارے احباب نے عازمین کی خدمت کے لئے اپنے کو وقف کر رکھا تھا ، ان میں سے کئی ایر پورٹ تک چھوڑنے بھی آئے ، جہاز نے شب کے ایک بجے پرواز کیا، حج کمیٹی والوں نے کھانا فراہم کیا، انجمن خدام الحجاج کا جو کشمش اور بادام کے پیکٹ پیش کیے جو ہفتہ روز سے مکہ میںکام آ رہا ہے ، جدہ ایر پورٹ پہونچنے سے قبل سعودی ایر لائنس کی فلائٹSV5529میں دو بار کھانا ، ناشتہ اور مشروبات پیش کیا گیا ، جدہ ایر پورٹ اترنے کے بعد کئی کئی گھنٹے انتظار اور پریشانیوں کا جو تصور قائم تھا اور جسے میں بذات خود ۱۹۸۹ء اور ۲۰۰۲ء میں دیکھ چکا تھا ، جس کی وجہ سے ذہن ودماغ پر ایک وحشت سی قائم تھی ، اس بار ایسا کچھ نظر نہیں آیا ، فجر کے وقت فلائٹ نے لینڈ کیا ، پانچ منٹ میں امیگریشن سے نمٹ لیا گیا ، فجر کی نماز پڑھی گئی ، سامان کی تلاش میں پندرہ منٹ صر ف ہوئے سارے سامان پر ہوٹل اور کمرے کی تفصیلات کا ٹیگ کولکاتہ میں ہی مل گیا تھا اور سامان پر لگا دیا گیا تھا ، باہر نکلتے ہی معلم کے افراد نے بس پر چڑھا دیا ، پاسپورٹ لے لیا اور مکۃ المکرمہ کی طرف بس روانہ ہو گئی ، ہم نے قیام کے لیے عزیزیہ کا انتخاب کیا تھا ، اس لیے کوئی ایک ڈیڑھ گھنٹہ کے سفر کے بعد اپنے ہوٹل کے مالک حاتم علی ابو العلا منطقہ ایک ، عمارت نمبر ۳ اور کمرہ نمبر ۵۰۵ میں پہونچا دیے گیے ، داخل ہوتے ہی چھاتا او ر معلم کی طرف سے کھانا پیش کیا گیا ، چوں کہ ہمارے قافلہ میں پانچ آدمی شریک تھے اس لیے ایک کمرہ ہم لوگوں کے لیے مختص تھا ،اس سے بہت عافیت محسوس ہوئی ، خواتین کو بھی سہولت ہوئی۔
بھائی جان ماسٹر محمد ضیاء الہدیٰ مرحوم کے داماد مولانا قمر عالم ندوی خادم الحجاج کی حیثیت سے پہلے ہی آچکے تھے ، تھوڑی دیر بعد وہ بھی کمرہ پر آگیے ، میری رائے عمرہ بعد میں کرنے کی تھی ، لیکن ان کے اصرار پر فورا ہی حرم کا رخ کیا ، طواف اور سعی وغیرہ میں وہ ساتھ رہے ، ان کی وجہ سے سہولت رہی ، ان کے اندر خدمت کا مزاج ہے اور میں نے انہیں خدمت کے حوالہ سے انتہائی مستعد پایا ، کعبۃ اللہ کو اللہ رب العزت نے جو شرف وعظمت عطا کیا ہے ، اس پر نظر پڑتے ہی انسان دنیا کوبھول جاتا ہے ،دعا، گریہ زاری اور سسکیوں سے فضا معمور ہوتی ہے ، اور ہر کوئی گناہوں کی مغفرت اور جنت کے حصول کا طلب گار ہوتا ہے ، اپنے قافلے کی بھی کچھ یہی حالت تھی ، عمرہ سے واپس لوٹا توجناب ذکی احمد صاحب وارث نگر سمستی پور ، مولانا عبید اللہ قاسمی استاذ دا رالعلوم الاسلامیہ امارت شرعیہ بھی خادم الحجاج کی حیثیت سے سر گرم نظر آئے، مولانا محمد شبلی قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ سے بھی ملاقات ہو گئی ، مولانا نور عالم رحمانی مبلغ امارت شرعیہ تو کمرے پر ملنے آئے، امارت شرعیہ کے دیگر رفقاء جناب سمیع الحق صاحب ، قاضی منصور عالم صاحب وغیرہ بھی بعافیت ہیں گو ان سے ملاقات اب تک نہیں ہو سکی ہے ، مختلف عمارتوں میں بیانات کا سلسلہ جاری ہے ، مفتی عبید اللہ قاسمی اور مولانا شبلی قاسمی کے کئی بیانات ہو چکے ہیں، مولانا نور عالم رحمانی نے ایک بلڈنگ کی امامت اپنے ذمہ لے رکھی ہے اور وہ اسے پابندی سے نبھا رہے ہیں، بیان بھی کرتے ہیں اور امارت شرعیہ کا ذکر خیر بھی جاری رہتا ہے ، میرے بھی دس بیانات طے ہیں ، میں نے کہہ رکھا ہے کہ جب عزیزیہ سے بسوں کا جانا بند ہو جائے گا اور ہم لوگ عزیزیہ سے حرم جانے کی پوزیشن میں نہیں ہوں گے ، تبھی میرا بیان ہو گا، چنانچہ گرین حلقہ میں بیان ہوگا، اور عزیزیہ میں مختلف ہوٹلوں میں تین بیان رکھا گیا ہے اور یہ سلسلہ انشاء اللہ منی روانگی سے قبل تک جاری رہے گا ، ۵؍ ذی الحجہ کی رات سے بسوں کا آنا جانا بند ہو جائے گا۔
ہندوستانی عازمین کے لیے جو رہائش کا انتظام کیا گیا ہے ، اسے سولہ حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے ، تیرہ حصہ (منطقہ) عزیزیہ میں ہے اور تین گرین میں ، گرین والوں کو یہ سہولت ہے کہ وہ چاہیں تو ہر نماز مسجد حرام میں ادا کر سکتے ہیں، لیکن چلنا انہیں بھی اچھا خاصہ پڑ رہا ہے ، گرین میں جو عمارتیں لی گئی ہیں، وہ معیار کے اعتبار سے انتہائی کم تر ہیں، چھوٹے چھوٹے ڈربہ نما کمرے اور کم سے کم جگہ ان عمارتوں کی خصوصیات ہیں، جن منطقوں کے راستے پہاڑی، نشیب وفراز سے گذرتے ہیں، ان کے حاجیوں کو زیادہ پریشانی ہے ، اس کے علاوہ بیش تر علاقوں میں کھانے کے ہوٹل نہیں ہیں، کھانا پکانے کی اجازت نہیں ہے ،ا س لیے لمبی لمبی قطار دور جا کر ہوٹلوں میں لگانی پڑتی ہے ، چند ہوٹل اچھے بھی ہیں، لیکن عمومی احوال وہی ہیں، جس کا ذکر کیا گیا ہے ۔
جن لوگوں کی رہائش عزیزیہ میں ہے ، انہیں حرم لانے لے جانے کے لیے بسوں کا معقول انتظام ہے ، نماز کے اوقات میں آمد ورفت میں زیادہ بھیڑ ہوتی ہے اور کھڑے کھڑے ہی سفر کرنا ہوتا ہے ، یہ صورت حال خواتین کے لیے زیادہ پریشان کن ہے ، اس لیے زیادہ تر عازمین ایک سے دو وقت مسجد حرام میں نماز ادا کرتے ہیں اور بقیہ وقت اپنی رہائش کے جماعت خانہ میں، عزیزیہ کے منطقہ اول میں جس میں ہم لوگوں کی رہائش ہے، مسجد بن مصطفیٰ ہے ، لیکن وہ دور ہے ، دھوپ کی تمازت میں ظہر اور عصر کے وقت وہاں جانا دشوار معلوم ہوتا ہے ، ہر بلڈنگ میں جماعت خانہ ہے اور تربیتی نظام بھی جاری ہے ، میرے دوست اشرف خان جو جامعہ ملیہ کے فائن آرٹ ہیں ، اپنی بہن اور بہنوئی کے ساتھ تشریف لائے ہیں، یہاں بھی تبلیغی معمولات میں لگے رہتے ہیں، خصوصی ملاقات میں اچھا خاصہ وقت صرف کرتے ہیں، ایک دن مجھ سے بھی ملا قات کے لیے آ گیے تھے ۔
عزیزیہ کے منطقہ اول میں عازمین کی رہائش کے لیے پینسٹھ بلڈنگیں مختص ہیں، دوسرے منطقوں کے بارے میں میری معلومات یقینی نہیں ہے ، یہاں سے عازمین کو مسجد حرام لے جانے کے لیے بتیس بسیں ہیں، جن میں سواری بھرے یا نہ بھرے ہر دو منٹ پر ایک نمبر بس اسٹینڈ سے کھل جاتی ہیں اور محطۂ شعب عامر تک پہونچاتی ہیں، یہ بسیں ڈائرکٹ ہیں، شعب عامر بس اسٹینڈ سے نکل کر کچھ دور چل کر مروہ کی طرف سے مسجد حرام میں داخلہ آسان ہوتا ہے، لیکن بھیڑ کو کنٹرول کرنے کے لئے دروازے بند ہوتے ہیں تو باب اسماعیل یا باب ملک عبد العزیز سے داخلہ ممکن ہوتا ہے ، اور نیچے کی منزلیں بھری ہوں تو الکٹرونک سیڑھیاں سیدھے مسجد حرام کی چھت تک پہونچا دیتی ہیں اور کبھی کبھی طواف اوپر یا دوسری منزل سے کرنا پڑجاتا ہے ، جس میں کم وبیش پونے دو گھنٹے لگ جاتے ہیں، بقول مولانا محمد شبلی قاسمی اتنی دیر میں تو تین طواف نیچے سے کیا جا سکتا ہے ، اس وجہ سے بہت سے لوگ اوپر سے طواف کی ہمت نہیں کرتے اور ذکر اللہ نیز تلاوت قرآن میں مشغول ہوتے ہیں۔
عزیزیہ کے کئی منطقے ایسے ہیں، جہاں سے مسجد حرام جانے کے لیے بسیں بدلنی ہوتی ہیں، ایک بس گرین تک لے جاتی ہے اور دوسری بس حرم شریف کے قریب بس اسٹینڈوںپر، منطقہ میں ہندوستان کی طرف سے دواخانہ قائم ہے جس میں عورتوں کے لیے عورت اور مردوں کے لیے مرد معالج بیٹھتے ہیں، لیکن ڈاکٹروں کی تعداد کم ہے ، اس لیے دوا خانوں میں لمبی لائن لگی ہوتی ہے اور وہاں اچھا خاصہ وقت صرف ہوتا ہے ، ہمارے منطقہ میں سامان گم ہونے کی شکل میں شکایت درج کرانے اور سامان کی واپسی کا بھی دفتر قائم ہے ، جو عملہ مامور ہے وہ مستعد ہے اور ابھی تک تکان نے ان کو مغلوب نہیں کیا ہے ،کل ملا کر انتظامات اچھے ہیں اور لائق شکر ہیں، کبھی کبھی شکر کے ساتھ صبر کو بھی جوڑنا پڑتا ہے۔
معلم حضرات نے منی جانے کی تیاری شروع کر دی ہے ، پروگرام کے مطابق ہر معلم کے آدھے حاجی بس سے اور آدھے میٹروسے سفر کریں گے ، کس کس کاسفر کس طرح ہوگا ابھی اس کے بارے میں کچھ کہنا مشکل ہے ، یہ سطریں آپ تک جب پہونچیں گی ، ہم لوگ انشاء اللہ حج کے ارکان کی ادائیگی میں مشغول ہوں گے ۔
اب تک بہار کے کسی عازم کے انتقال کی خبر ہم تک نہیں پہونچی ہے ، البتہ یوپی کی ایک خاتون کا چند روز قبل انتقال ہوا تھا ،ا نتقال کے بعد میت کو پہلے ہوسپیٹل لے جایا جاتا ہے تاکہ اس کے موت کی تصدیق کے ساتھ انتقال کا سرٹیفیکٹ بھی حاصل کیاجا سکے ، متعلقین کو قونصلٹ لے جا کر ضابطہ کی کارروائی مکمل کرائی جاتی ہے ، پھر جسد خاکی اس شعبہ کو سونپ دیا جاتا ہے جو جنازہ کی تجہیز وتکفین پر مامور ہوتا ہے ،وہ بعجلت تمام جنازہ تیار کرکے مسجد حرام لے آتا ہے اور فرض نماز کے بعد امام صاحب جنازہ کی نماز پڑھاتے ہیں، اس شعبہ کے لوگ اسے لے جا کر قبرستان میں دفن کر دیتے ہیں، مرحوم یا مرحومہ کے لاحقین میں چند لوگوں کو اس میں شرکت کی اجازت ہوتی ہے ، جنازہ کا اعلان عمومی ہوتا ہے ، البتہ اگر جنازہ بچے کا ہے تو الطفل کہہ کر اس کا بھی اعلان کیا جاتا ہے ، اگر جنازہ شاہی خاندان کا ہے یا کسی بڑے وزیر اور عالم کا ہو تو نام لے کر اس کا ذکر کیا جاتا ہے ، چنانچہ ۲۹؍ جولائی کو جب شاہ سلمان کے بڑے بھائی بندر بن عبد العزیز کا جنازہ آیا تو پہلے ان کے جنازہ کی نماز ہوئی اورمکبر نے ان کے نام کے ساتھ اعلان کیا اور اسی وقت دوسری نماز جنازہ دوسرے مرحومین کی پڑھی گئی ، میں خود بھی اس جنازہ میں شریک تھا ۔
مسجد حرام کی توسیع کا کام حسب سابق جاری ہے ، باب ملک عبد العزیز اور باب ملک فہد کی طرف خاصی توسیع ہوئی ہے ، طواف کرنے والوں کے لیے مسجد نبوی علیہ الصلوٰۃ کے طرز پر چھاتا کی طرح کی چھت بھی زیر غور ہے ، واقعہ یہ ہے کہ خادم الحرمین الشریفین نے جو عازمین کے لیے آرام وآسائش کا نظم کر رکھا ہے وہ اپنی مثال آپ ہے ، پندرہ ہزار سے زائد خدام پورے نظام کو کنٹرول کرتے ہیں، جن میں ہر شعبہ کے لوگ ہیں، حاجیوں کو غلط جگہ پر بیٹھ جانے اور نہ اٹھنے پر بھی وہ بے قابو نہیں ہوتے ، عورتوں کے مردوں کے ساتھ بیٹھ جانے پر پوری نرمی اور خواتین کی عزت کی بر قراری کے ساتھ وہ ان کو ان کے لیے مختص جگہ پر پہونچا تے ہیں، زمزم اور قرآن کریم اس کثرت سے فراہم ہیں کہ کسی کو کوئی دشواری نہیں ہوتی ہے جو پریشانی ہوتی ہے وہ اصول وضابطہ کی ان دیکھی کرنے کی وجہ سے ہوتی ہے ، ضابطوں کا خیال رکھا جائے تو بھیڑ بھاڑ کے با وجود انسان پریشانیوں سے بچ سکتا ہے ۔
گرمی کی تمازت کی وجہ سے نماز اور طواف کے علاوہ سفر ممکن نہیں ہو رہا ہے ، خواہش ہے کہ شیخ بن باز کے مکتبہ اور حجیۃ خیریہ میں بعض لوگوں سے
ملاقات کے لیے جاؤں ، رابطہ عالم اسلامی کے دفتر بھی جانا چاہتا ہوں، لیکن حج کے قبل اپنے کو زیادہ تھکا نا نہیں چاہتا ، حج کے بعد انشاء اللہ کوشش کروں گا جانا ہوا تو اس کی روداد اگلے شمارہ میں آپ پڑھ سکیں گے ۔٭٭٭٭
بصیرت فیچرس
Comments are closed.