عشرہ ذی الحجہ اور اس کے فضائل

محمد عبدالرحمن چمپارؔنی
درجہ عربی ہفتم
متعلم دارالعلوم وقف دیوبند
ساری کائنات اللہ کی مخلوق ہے،اللہ نے تمام مخلوق کو ایک درجہ میں نہیں رکھاہے،بلکہ ان میںحسب منشا ایک گونہ فضیلت رکھی ہے اور ایک کو دوسرے پر فوقیت دی ہے، چنانچہ انبیاء علیہم الصلاۃ والسلام میں حضرت محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کو ،ملائکہ میں حضرت جبرئیل علیہ الصلاۃ والسلام کو، مہینوں میں ماہِ رمضان کو، دنوں میں عرفہ وجمعہ کے دن کو ، عشرہ میں رمضان المبارک کے عشرۂ اخیرہ کو اور ذی الحجہ کے پہلے عشرہ کو فضیلت وبرتری سے نوازا ہے، ان کا ایک خصوصی مقام ہے۔
عشرۂ اولیٰ کے فضیلت اور اس کی اہمیت ہی کے پیش نظر رب ذوالجلال نے قسم کھائی ، ارشاد ربانی ہے:
وَالْفَجْرِ وَلَیَالٍ عَشَر وَالشَّفْعِ وَالْوَتْرِ۔(سورۃ الفجر: ١-٣)
ترجمہ:قسم ہے فجر کی ،اور دس راتوں کی ،اور جفت اور طاق کی ۔(ترجمہ شیخ الہند فریدبک ڈپو انڈیا،٧٨٩)
مولانا عبدالماجد دریابادی ؒ اس آیت کی تفسیر کرتے ہوئے، لکھتے ہیں کہ ’’لیال عشر ‘‘تابعین ؛ بلکہ صحابہ کرامؓ سے روایت ہے کہ ان دس دنوں سے مراد ذی الحجہ کا پہلا عشرہ ہے، جس کی بڑی فضیلت حدیث میں آئی ہے ۔
عن عبداللہ بن زبیر ؓ (ولیال عشر ) اول ذی الحجہ إلی یوم النحر۔(ابن جریر، ج۲۴، ص۳۶۴)(تفسیر ماجدی، مجلس تحقیقات و نشریات اسلام لکھنؤ-٨/ ٥١٤)
یہی تفسیر مولانا عاشق الٰہی بلند شہریؒ نے انوارالبیان فی کشف القرآن ج۵؍۶۱۰ اور ڈاکٹر وہبۃ الزحیلی نے التفسیر المنیر فی العقیدۃ الشریعۃ والمنہج ،ج۱۵؍ص ۶۰۴۔میں کی ہے اور ان کے علاوہ دیگر مفسرین نے بھی کی ہے ۔
نیز اسی آیت کی تفسیر کرتے ہوئے شیخ الاسلام مولانا شبیر احمد عثمانی ؒ رقم طراز ہیں: ’’حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں :عید قربان کی فجر بڑا حج اداہوتاہے اور دس رات اس سے پہلے ،اور جفت اور طاق رمضان کی آخری (عشرہ )دہائی میں ہے، اور جب رات کو چلے یعنی پیغمبر ﷺ معراج کو ‘‘ یہ سب اوقات متبرک تھے اس لیے ان کی قسم کھائی ۔(حاشیہ ترجمہ شیخ الہند 289)
عشرہ ذی الحجہ کی فضیلت کی وجہ:
ان ایام کی خاص فضیلت اس بنیاد پر ہے کہ ان ایام میں انسان وہ عبادتیں انجام دیتاہے، جنہیں سال بھر کے دوسرے ایام میں انجام نہیں دیا جاسکتا، ان کی انجام دہی کے لیے اللہ نے صرف انہیں ایام کو منتخب فرمایاہے او ر وہ ہیں حج وقربانی ، ان ایام کے علاوہ میں انسان ہران عبادتوں واحکام کو بلاتعیین وتقیید وقت کے اداکرے جو شریعت سے ثابت ہیں، خواہ فرض ہو یا نفل ، تو اس کا اجر وثواب اسے ملے گا، اور وہ عبادتیں عنداللہ مقبول ہوںگی،جس سے قربتِ خداوندی اور دارین کی فوز وسعادت حاصل ہوگی، لیکن اگر کوئی انسان چاہے کہ حج کو ماہِ ذی قعدہ یا رمضان المبارک میں ادا کرلے تو یہ ادا نہیں ہوگا، کیوںکہ حج کے ارکان مثلاً عرفات میں جاکر ٹھہرنا، مزدلفہ میں رات گزارنا، جمرات کی رمی کرنا وغیرہ ماہِ ذی الحجہ ہی میں ضروری ہے ۔ دوسری عبادت قربانی ہے جس کے لیے اللہ نے ذی الحجہ کے تین دن مقرر فرمائے ہیں، الغرض ذی الحجہ کے عشرۂ اولیٰ کی فضیلت واہمیت بکثرت وارد ہوئی ہے۔ (اصلاحی خطبات مفتی تقی عثمانی،2/ 123 )
عشرۂ ذی الحجہ کے اعمال کی فضیلت
اعمال صالحہ اللہ کی رضا کا ایک مؤثر سبب ہیں، اگر اعمال کے ذریعہ خوشنودی الہٰی حاصل نہیں ہوتی تو اللہ تعالیٰ نماز، روزہ ودیگر عبادت کا حکم نہ فرماتا مزید یہ کہ فرض فرمایا اگر کوئی شخص ان اعمال پر مواظبت نہ برتے اورنہ اداکرے، تو وہ قابل مواخذہ ہوگااوراس کی باز پرس ہوگی اعمال کی فضیلت حدیث میں بکثرت آئی ہے ۔
چنانچہ عشرۂ ذی الحجہ کے بارے میں وارد ہوا ہے ۔ حضرت عبداللہ بن عباس سے روایت ہے وہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کوئی بھی ایسا دن نہیں ہے کہ اس میں نیک عمل کرنا اللہ کے یہاں ان دس دنوں میں سے یعنی ذی الحجہ کے پہلے عشرہ سے زیادہ پسند ہو، صحابہ نے عرض کیا اے اللہ کے رسول ! کیا اللہ کے راستہ میں جہادکرنا بھی ان دنوں کے اعمال کے برابر نہیں ہے، آنحضرت ﷺنے ارشاد فرمایا: ہاں اللہ کے راستے میں جہاد کرنا بھی اللہ کے نزدیک ان ایام کے اعمال کے برابرنہیں ، مگر وہ شخص جو جان ومال کے ساتھ جہاد میں نکلاہو اور پھر وہ بالکل واپس نہ آیا ہو( یعنی شہید ہوگیاہو تو اس کے اعمال ان دنوں سے بھی زیادہ افضل ہیں ۔ (البغوی،مشکاۃ المصابیح ،باب فی الأضحیۃ ، رقم الحدیث :۱۴۶۰، (م ط، آئی ایم پبلیشنزپرائیویٹ لمیٹیڈ) ج۱،ص۲۲۹)
عشرۂ ذی الحجہ کے روزہ وعبادت کی فضیلت
روزہ اسلام کے ارکان خمسہ میں سے ایک ہے اور یہ ہر مسلمان عاقل، بالغ پر فرض ہے۔ (یعنی ماہِ رمضان کا روزہ) روزہ کے ذریعہ انسان اپنے رب سے کا قریب ہوجاتاہے ۔وہ اس طرح کہ انسان جب کھانے پینے اور جماع اور دیگر مشغولیات ولغویات سے اجتناب کرتے ہوئے اللہ کے حکم کے مطابق بھوکا رہتاہے ، تو اللہ کو بندے کا یہ عمل بہت پسند آتاہے کہ بندے نے اپنے رب کے حکم کی تعمیل کی ہے باوجود کہ انسان کھانے پینے پر قادر ہوتاہے، اسباب سب مہیا ہوتے ہیں، مگر صرف حکم الٰہی اس کے درمیان حجاب ہوتاہے، تو اللہ کیوںکرخوش نہ ہو ؟ نیز روزہ کے ذریعہ انسان اپنے بھوک وپیاس کی شدت محسوس کرکے ایک غریب اور لاچار آدمی کا دکھ درد اپنے دل میں محسوس کرتاہے کہ میرا تو آج کا مسئلہ ہے بھلا جس کے پاس کھانے کے لیے ہے ہی نہیں اس پر کیا گزرتی ہوگی، پتہ چلا کہ روزہ سے انسانی ہمدردی ، صلہ رحمی ، اخوت وبھائی چارگی کا جذبہ پیداہوتاہے ۔
آپ ﷺ نے جہاں صومِ رمضان کی پابندی کی ہے وہیں پہ آپﷺ نفلی روزے بھی رکھا کرتے تھے اور اپنی امت کو اس کی ترغیب دلایاکرتے تھے، چناںچہ عشرۂ ذی الحجہ کے روزہ کی فضیلت کئی مواقع پر آپ نے فرمایا ۔چناںچہ حضرت ابوہریرۃؓ فرماتے ہیں کہ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا :
کوئی ایسا عمل نہیں کہ وہ اس میں عبادت کرنا عشرۂ ذی الحجہ سے زیادہ افضل ہو ، اس کے ہر دن کا روزہ ایک سال کے برابر ہے اور اس کی ہر رات کی عبادت شب قدر کی عبادت کے برابر ہے.
(البغوی، مشکاۃ المصابیح ،باب فی الأضحیۃ، رقم الحدیث: ۱۴۷۱،ج ۱،ص ۲۳۱)
امام ترمذی فرماتے ہیں کہ اس کی سند ضعیف ہے ۔
نیزایک دوسری حدیث میں ہے جس کی راوی ام المؤمنین حضرت عائشہ ؓ ہیں۔
وعن عائشۃ ؓ قالت:مارأیت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صائماً فی العشر قط ۔ (حوالہ بالہ، باب صیام التطوع، رقم الحدیث: ۲۰۴۳)
ترجمہ: حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ میں نے عشرۂ ذی الحجہ میں آپ ﷺ کو کبھی روزہ رکھتے ہوئے نہیں دیکھا۔
اس حدیث کی تشریح کرتے ہوئے ملاعلی قاری ؒ فرماتے ہیں : کہ اس حدیث میں جو عشرہ کا ذکر آیاہے اس سے مراد ذی الحجہ کے پہلے دس دن ہیں اور ایک روایت میں آیاہے کہ سوائے دسویں تاریخ کہ ہر روز ان دس دنوں میں روزہ رکھنے کا ثواب ایک سال کے روزہ رکھنے کے برابر ہے اور ہر شب میں قیام کرنے کا ثواب شب قدرمیں عبادت کے ثواب کے برابر ہے پس حضرت عائشہ ؓ نے اپنے علم کی نفی کی ہے کہ میں نے نہیں دیکھا ،ظاہر ہے کہ حضرت عائشہ ؓ کا نہ دیکھنا اس بات کی دلیل ہے کہ حضور آپﷺ روزہ نہ رکھے ہوں،یا یہ احتمال ہے کہ آپ نے صرف ان دنوں کے روزہ رکھنے کا ثواب ذکر فرمایا، لیکن آپ ﷺ کو روزہ رکھنے کا اتفاق نہیں ہواہو۔(ملاعلی قاری ؒ ،مرقات المفاتیح ،شرح مشکاۃ المصابیح ،)
ماہِ ذی الحجہ میں قربانی کرنے کی حکمت
یہ عشرۂ ذی الحجہ کی خصوصیت اور اس کا امتیازی وصف ہے کہ اللہ رب العزت نے اپنے پیغمبر حضرت ابراہیم علیہ السلام کے جہاں بہت سارے امتحانات لیے اور جن میں حضرت ابراہیم صد فی صد کامیاب ہوئے ، ان میں آخری امتحان کی کامیابی اسی عشرۂ ذی الحجہ کا حصہ بنی ۔ وہ یہ کہ اللہ نے آپ کو خواب میں دکھایا کہ آپ اپنے لخت جگر ، نورِنظر سیدنا حضرت اسماعیل علیہ السلام کو بدست خود راہِ خدا میں ذبح فرمارہے ہیں، چناںچہ آپ نے اس خواب کا تذکرہ اپنے لخت جگر حضرت اسماعیل سے کیا :
یَابُنَیَّ إِنِّیْ أَریٰ فِیْ الْمَنَامِ أَنِّیْ أذْبَحُکَ فَانْظُرْ مَاذَا تَریٰ(سورہ صافات: 102)
اے میرے بیٹے! میں نے خواب میں دیکھا ہے کہ میں تجھے راہِ خدامیں اپنے ہاتھوں ذبح کررہاہوں ،بیٹا اسماعیل نے جواباً فرمایا :
یَاأَبَتِ افْعَلْ مَأْتُؤْمَرْ سَتَجِدُنِیْ إِنْ شَائَ اللّٰہُ مِنَ الصَّابِرِیْن ۔(سورہ صافات102)
اے ابو جان! آپ حکمِ الٰہی کو بجالائیںجہاں تک رہا میرا مسئلہ تو ان شاء اللہ آپ مجھے صبر کرنے والوں میں سے پائیں گے ۔ چناںچہ حضرت ابراہیم علیہ السلام اپنے بیٹے اسماعیل علیہ السلام کو پیٹ کے بل لٹا کر ان کے گردن پر چھری چلانے لگے اور ذبح کی ہر ممکن کوشش کی ،پر چھری ان کے گردن پر نہ چلی ، کیوں کہ اسے اللہ کے جانب سے نہ چلنے کا حکم تھا بالآخر اسی وقت حضرت جبرئیل علیہ الصلاۃ والسلام بحکم الٰہی جنت سے ایک دنبہ لائے پھر آپ نے ذبح فرمایااور ادھر اعلانِ ربانی ہوا :
وَنَادَیْنَاہُ أَنْ یٰا إِبْرَاہِیْمَ قَدْ صَدَّقْتَ الرُّؤْیٰا إِنَّا کَذَالِکَ نَجْزِی الْمُحْسِنِیْن (ایضا،104،105)
کہ اے ابراہیم! تم اس مشکل اور سخت امتحان میں بھی کامیاب ہوگئے الغرض حضرت ابراہیم کا امتحان میں کامیاب ہونا پھر قربانی کا پسِ منظر وتاریخ اور مزید یہ کہ قربانی کا ہر صاحبِ استطاعت پر فرض ہونا اسی عشرۂ ذی الحجہ کی خاصیت ہے ، چناںچہ قربانی کی حکمت مولانا منظور نعمانیؒ کے اس اقتباس سے سمجھی جاسکتی ہے:
’’در اصل یہ عشرہ حج کا ہے اور ان ایام کا خاص الخاص عمل حج ہے، لیکن حج مکہ معظمہ جاکرہی ہوسکتاہے ، اس لیے وہ عمر میں صرف ایک دفعہ اور وہ بھی اہلِ استطاعت پر فرض کیا گیاہے، اس کی خاص برکات وہی بندے حاصل کرسکتے ہیں ، جو وہاں حاضر ہوکر حج کریں ، لیکن اللہ نے اپنی رحمت سے سارے اہلِ ایماں کو اس کاموقع دیاہے کہ جب حج کے یہ ایام آئیں ،تو وہ اپنی جگہ رہتے ہوئے بھی حج اور حجاج سے ایک نسبت پیداکرلیں اور ان کے کچھ اعمال میں شریک ہوجائیں ، عیدالاضحی کی قربانی کا خاص راز یہی ہے ‘‘۔ (نعمانی،محمد منظور، معارف الحدیث، (دارالاشاعت، اردو بازار کراچی ،پاکستان ج۳،ص۴۱۸)
خلاصہ یہ کہ ذی الحجہ کا عشرۂ اولیٰ بہت ہی فضائل ومناقب کا حامل ہے ، اس میں عبادت وریاضت کرنا ، نفلی روزہ رکھنا اللہ کو بہت پسند ہے جو قربِ الٰہی سعادتِ دارین ونجات دارین کا ایک اہم سبب اور ذریعہ ہے دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں ان پر عمل کی توفیق بخشے ۔آمین ثم آمین .
(بصیرت فیچرس)
Comments are closed.