این آر سی کے تعلق سے غلط بیانی اور عوام کو خوف زدہ کرنے کا سلسلہ بند کیا جائے!

 

مولانا محمد برہان الدین قاسمی

ڈائریکٹر مرکز المعارف ایجوکیشن اینڈ ریسرچ سینٹر ممبئی

 

سوشل میڈیا پر کچھ لوگ این آر سی کے حوالے سے تبصرہ کررہے ہیں۔ اسی طرح کی ایک دس منٹ چوتیس سیکنڈ کا صوتی کلپ وہاٹس ایپ پر گردش کررہاہے جو السلام علیکم کے بعد "کیسے ہیں آپ لوگ…” سے شروع ہوتا ہے اور "مجھے لگا کہ اپنی بات شیئر کر دوں” پر ختم ہوتا ہے۔ اس میں کہاگیاہے کہ این آر سی کے ذریعہ آسام میں 48 لاکھ مسلمان خاندانوں کے نام پھلے حذف کر دیا گیا تھا اور پھر ایک مسلم تنظیم کی کوششوں سے ان کے اسی فیصد نام شامل کر لیا گیا ہے۔ آسام کی طرح پورے ملک میں صرف مسلمانوں کو پریشان کیا جائےگا اور اسی طرح کے کئی سارے دعوے کئے گئے ہے جن کا حقیقت سے واسطہ کم یا بالکل نہیں ہے۔ علاوہ ازیں 9 اگست 2019 کو شائع شدہ ایک اردو اخبار کی نیوز بھی وائرل ہورہی ہے جس کا عنوان ہے "این آر سی پورے ہندوستان کے لئے ہوگا- مسلمان نشانہ پر”، اس نیوز میں بھی صوتی کلپ جیسا مبالغہ آرائی سے کام لیا گیا ہے.

ان کے علاوہ بے شمار واٹس ایپ اور فیس بک پیغامات اور جھوٹے بڑے مضامین جن میں کچھ عجیب و غریب انداز سے لوگوں کواین آر سی کے بارے میں آگاہ کیا جارہا ہےاور آسام میں کیا کیا ہورہا اس کو بیان کیا جارہا ہے۔ ان پیغامات سے حقیقی آگاہی کم اور عوام میں وحشت، خوف اور دہشت زیادہ پھیل رہی ہے۔ لہٰذا مناسب معلوم ہوتا ہے کہ کچھ باتوں کی بہت ہی مختصراً وضاحت کی جائے تاکہ حقیقی صورتحال سب کے سامنے آجائے اور کوئی مسلمان بے جا مبالغہ آرائی یا غلط بات پھیلانے کا مرتکب نہ ہو اور نہ ہی عام مسلمانوں میں بلاوجہ خوف کا ماحول بنایاجائے۔

 

ملک کے حالات خراب ہے، مسلمانوں کو پریشان کیا جارہا ہے اور مستقبل مزید خراب ہو سکتے ہے ان باتوں سے کسی کو انکار کی گنجائش نہیں ہے. مسلمانوں کو اپنے بقاء، ملک اور آنے والی نسلوں کی سالمیت کے لئے منصوبہ بندی کے ساتھ تیزی سے محض بات چیت اور مشورہ دینے کے بجائے ٹوس عملی اقدام کی ضرورت ہے اس بات سے بھی بہت کم ہی لوگ نا متفق ہوں گے. لیکن غلط معلومات پیش کرنا جس سے عوام میں خوف اور احساس کمتری پیدا ہو بالکل مناسب عمل نہیں ہے.

 

جوحضرات ایسا کررہے ہیں مجھے ان کی نیت پر کوئی شک نہیں۔ یقینا وہ عوام میں بیداری پیدا کرنے کی کوشش کے ارادے سے ایسا کر رہے ہوں گے جو ایک اچھا عمل ہے اور نوجوانوں کی طرف سے اس طرح کی صحیح کوششوں کی پذیرائی کی جانی چاہیے، لیکن نادانستہ طور پر بھی علاج کے نام پر بیماری میں اضافہ نہیں ہونی چاہیے اور اس کا فوری تدارک ضروری ہے۔ حساس موضوعات پر عوام میں بات کرنے سے پہلے ضروری معلومات کے ساتھ ساتھ معقول انداز بیان سے آراستہ ہونا بنیادی شرط ہے۔ ہر کس ناکس کے ذریعہ موبائل پر کچھ بھی ریکارڈ کر کے عوام میں پھیلا نا یا اس کو بلا تحقیق وائرل کرنا عقلمندی نہیں۔ اسی طرح بلا تصدیق اور تحقیق کے کسی اہم موضوع پر خبر شائع کرنا اصول صحافت کی سراسر خلاف ورزی ہے۔

یقیناً کچھ حضرات نے اس موضوع پر اردو میں بھی معقول اور حقیقی صورتحال پر تحریریں اور گفتگو کی ہیں لیکن جیسا عموماً ہوتا ہے کہ لوگ بغیر مسالہ کی چیزوں کو زیادہ توجہ نہیں دیتے اور نہ ان کو وائرل کر تے ہیں۔

 

*آسام میں این آر سی*

 

ہم نے این آر سی پر گزشتہ پندرہ سالوں میں کافی تفصیلی مضامین لکھے ہیں اور ایک سے زائد مرتبہ ایسٹرن کریسنٹ کے کوور یا لیڈ سٹوری کے طور پر شائع ہوا ہے۔ یہ مضامین انٹرنیٹ پر موجود ہیں، تفصیل طلب قارئین وہاں سے استفادہ کر سکتے ہیں۔ اختصار کے ساتھ عرض یہ ہے کہ آسام میں این آر سی کا موضوع خاصا پرانا ہے۔خاص کر سن 1986 سے یہ بہت ہی سنجیدہ سیاسی اور سماجی مسئلہ رہا ہے۔ موجودہ حکومت یا بی جے پی کی اس مسئلہ میں اتنی دلچسپی نہیں ہے جتنی وہاں کے مقامی لوگوں یا سیاسی جماعتوں کی رہی ہے۔ آسام میں این آر سی کے کام کا آغاز حکومت ہند اور آسو کے درمیان 1985 میں طے معاہدہ کے تحت کانگریس کے دور حکومت میں شروع ہوا تھا جو اب بھی نا مکمل ہے۔ این آر سی کا عمل ہندو مسلمان بلکہ تمام شہریوں کے لیے ایک سا ہے۔ اس وقت آسام کا مسلمان، جو کل آبادی کا 34 فیصد ہے، چاہتا ہے کہ جلد از جلد ایک صحیح اور شفاف این آر سی لسٹ تیار ہو تا کہ تشدد پسند لوگوں کا یہ الزام کہ آسام میں غیر ملکی مسلمان داخل ہو گئے ہمیشہ ہمیش کے لئے ختم ہو جائے۔ آسام میں مسلمانوں کو این آر سی تیار کر نے سے تکلیف نہیں بلکہ ان کو تکلیف اس کی تیاری کے کچھ طریقہ کار اور بےجا شکوک و شبہات سے ہے۔

 

اب تک آسام میں دو مرحلوں میں این آر سی کا صرف ڈرافٹ مسودہ شائع ہواہے۔ 31 اگست کو فائنل لسٹ آسکتی ہے۔ 48 لاکھ خاندانوں کو کبھی بھی لسٹ سے باہر نہیں رکھا گیا بلکہ 48 لاکھ شادی شدہ خواتین جنہوں نے صرف پنچایت دستاویز اپنے لینکیج ڈاٹا کے طور پر شامل کیا تھا جن میں ہندو مسلمان سب شامل تھے کا نام پہلے ڈرافٹ میں شائع نہیں کیا گیا تھا۔ دوسرے ڈرافٹ میں، سپریم کورٹ کے حکم کے بعد، ان خواتین میں سے زیادہ تر کو شامل کر لیا گیا ہے، اگرچہ اس پورے پروسس میں مسلمانوں کو کچھ نااہل کارکنان اور موجودہ حکومت کے تعاصبانہ رویہ کی وجہ سے زیادہ تکلیفیں اٹھانی پڑی اور پڑرہی ہے۔ اس وقت آسام کے ڈیٹنشن کیمپس میں 70-80 ہزار مسلمان نہیں ہیں، یہ تعداد کبھی بھی نہیں تھی، بلکہ تقریباً 2 ہزار لوگ ہیں جن میں ہندو بھی ہے تاہم ان میں اکثریت مسلمانوں کی ہیں اور ان میں سے بعض کو غلط طریقے سے ہراست میں لیا گیا ہے۔

آسام میں غیر قانونی طور پربنگلہ دیش سے کوئی بھی مسلمان داخل نہیں ہوا ہے یہ کہنا مشکل ہے لیکن زیادہ تر غیر مسلم داخل ہوئے ہیں یہ بات یقینی طور پر کہی جاسکتی اس کے باوجود مسلمانوں کو ٹارگٹ کر کے ہراساں کیا جانا قابل تشویش ہے۔

 

اگرچہ فائنل لسٹ کے شائع ہونے سے پہلے کچھ کہنا مشکل ہے لیکن مقامی میڈیا، سماجی تنظیموں اور ماہرین کے مطابق 2019 میں تقریباً 3.5 کروڑ کی کل آبادی میں سے اندازہ کے مطابق 25 لاکھ لوگوں کا نام فائنل لسٹ سے خارج ہوسکتاہے۔ یہ بذات خود ایک بہت بڑی تعداد ہوگی جن میں سب مذہب اور دھرم کے افراد ہوں گے تاہم مسلمان زیادہ ہو سکتے ہیں جو یقیناً ایک اور تشویش ناک بات ہے اور اس سے نکلنے کے لئے دعاؤں کے ساتھ ساتھ تدابیر بھی اختیار کی جانی چاہئے۔

آسام میں این آر سی اور ڈیٹنشن کیسیس میں متاثرین کی مدد کے لئے ایک سے زائد تنظیمیں دن رات کام کررہی ہیں جن میں غیر مسلم اور حقوق انسانی سے جڑی ہوئی تنظیمیں بھی شامل ہیں۔ سپریم کورٹ میں بھی معاملات کی پیروی کرنے والی کوئی ایک تنظیم یا کوئی ایک گروپ نہیں ہے۔ اس میں مزید تعاون مزید شراکت کی ضرورت ہے۔ اس طرح کے کاموں میں کسی ایک کی طرف سے کریڈٹ لینے یا کسی خاص گروپ کو کریڈٹ دینے سے کام متاثر ہوتا ہے۔ تمام کام کرنے والوں کو کریڈٹ کے دوڑ سے دور رہنے کی ضرورت ہے اور مزید لوگوں اور تنظیموں کو جوڑنے بلکہ جو کام کررہے ہیں وہ ملکر مشورہ سے تقسیم کار کرے اور مزید پلاننگ و مضبوطی کے ساتھ عمل کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ وقت اختلاف یا نام نمود کے لیے دوڑ بھاگ کرنے کے لیے بالکل مناسب نہیں ہے بلکہ ہر شعبے اور ہر گروپ کو جوڑکر مسلمانوں کا ایک مضبوط جسم تیار کر نا وقت کا اولین تقاضاہے۔

 

*این آر سی پورے ہندوستان میں*

 

یہ اب ایک حقیقت ہے کہ این آر سی کا عمل پورے ہندوستان میں دوبارہ ہوگا۔ 1951 کے بعد یہ عمل مکمل طور پھر کبھی نہیں ہو پایا ہے۔ یہ سب کے لیے ہوگا سب کو ایک جیسے ڈاٹا اور ثبوت پیش کرنے ہوں گے۔

 

موجودہ حکومت اس عمل کے ذریعے مسلمانوں کو مزید ہراساں کرسکتی ہے اس میں کوئی دو رائے نہیں۔ سب کو اور خاص کر مسلمانوں کو تیاری کرنی چاہیے۔ بارش سے پہلے چھت کا مرمت کروانا ہی عقلمندی ہے. نام کی درستگی، تمام کاغذات کا بالترتیب ہونا اور سرکاری کاغذات سلیقہ سے رکھنا یہ سب ضروری عمل ہے اور سب کو اس طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے۔

 

آسام کے علاوہ پورے ملک میں این آر سی کا عمل کیسے ہوگا یہ ابھی طے نہیں ہے، آنے والے وقت میں طے ہوگا. آسام میں بھی اس کو طے کرنے میں دس سے زیادہ سال لگے ہیں۔ آسام جیسا پورے ہندوستان میں ہوگا یہ مجھے مشکل لگ رہا ہے بلکہ قدرے نا ممکن سا عمل لگ رہا ہے، کیوں کہ وہاں کے تقاضے اور حالات باقی ہندوستان سے مختلف ہے. پھر بھی وقت سے پہلے کچھ کھنا مشکل ہے۔ آسام سے مشکل بھی ہوسکتا ہے یا آسام کا پورا عمل باطل بھی ہو سکتا ہے، یہ تو فائنل لیسٹ کے شائع ہونے کے بعد ہی دیکھنے والی بات ہوگی. جو بھی لیسٹ آئیگی، تمام تر کوششوں کے باوجود، اس میں بہت فحش غلطیاں رہنے والی ہے.

 

*آسام این آر سی میں کس ڈاکومنٹ کی ضرورت پڑی؟*

 

آسام این آر سی میں دو قسم کے ڈاٹا اہم تھے (1) لیگیسی ڈاٹا جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ آپ کے لیگیسی یعنی باپ دادا 1971 سے پہلے ہندوستان کے شہری تھے یا ہیں۔ جس کے لئے ایک لسٹ جاری کی گئی ہے جو اب بھی آن لائن موجود ہے ان میں سے کوئی ایک آپ کے پاس ہونا ضروری تھا۔ (2) دوسرا لینکیج ڈاٹا یعنی آپ کو یہ ثابت کرنا ہے کہ آپ کا اس لیگیسی سے سرکاری دستاویزات کے مطابق رشتہ ہے یعنی آپ ان کے بیٹے، پوتے، پڑپوتے وغیرہیں۔ اس کے لئے بھی ایک الگ لسٹ شائع کی گئی جو آن لائن موجود ہے جس میں سے ایک دستاویز کا ہونا ضروری تھا۔ آسام میں تمام لوگوں نے کاغذات ان دو بنیادی ڈاکومنٹ کے ساتھ جمع کیا اور انہیں کی تحقیقات میں لوگوں کو پریشانی ہوئی اور یہ اب بھی جاری ہے۔

 

آسام این آر سی فائنل لسٹ کی اشاعت کے بعد مزید چیزیں واضح ہو سکتی ہے۔ اس وقت دونوں جگہ کی حکومتیں یعنی صوبہ آسام اور مرکزی حکومت جو بی جے پی کی ہے لسٹ شائع کرنے کے تئیں بہت پر جوش نہیں لگ رہی ہے۔ شاید وہ جیسے یا جتنا مسلمانوں کو پریشان کرنا چاہتے تھے اس لسٹ کے ذریعہ ممکن نہیں ہوسکا۔ یاکچھ ایسے لوگ بھی لیسٹ میں شامل ہوگئے ہوں گے جن کو وہ لسٹ میں شامل نہیں کرنا چاہتے تھے۔ بہرحال دیر یا جلد آسام والی لسٹ آئیگی اور این آر سی کا کام مستقبل قریب میں پورے ملک میں شروع ہوسکتا ہے۔ اس لیے تمام مسلمانوں کو انفرادی اور اجتماعی طور پر اس میں مکمل شرکت کی کوشش پہلے سے ہی کرنی چاہیے۔ مسلمانوں کے معاملہ مین اگر کمی ہوگی تو ان کو بہت کم گنجائش دی جائے گی یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے۔اس حکومت یا اس کے جیسے آنے والی کسی بھی حکومت سے مسلمانوں کو بہت اچھے توقع کے بجائے خود اپنے معاملات اور کاغذات درست رکھنے کی ضرورت ہے۔

 

ہم نے اس مختصر تحریر کے ذریعہ اوپر مذکور صوتی کلپ اور اخبار میں شائع نیوز میں غلط اور مبالغہ آمیز باتوں کی صحیح صورت حال سے آگاہ کرنے کی کوشش کی ہے۔ ہمارا کسی کا رد یا تنقیص مقصود نہیں ہے۔خوف پھیلانا، مبالغہ آرائی کرنا یہاں تک کہ غلط اعداد شمار پیش کرنا کسی طرح سے امت کے لیے مفید نہیں۔ ایسی حرکتوں سے کلی اجتناب کیا جائے اور جو بھی صورتحال ہو اس کی صحیح معلومات حاصل کر کے مضبوط طریقے سے عمل کیا جائے۔مسلمان نوجوان سوشل میڈیا کا مثبت اور مفید استعمال کریں، اس کے ذریعے احساس کمتری پیدا کرنا، ماحول کو خوفزدہ بنانا اور ڈر پیدا کرنا امت مسلمہ کے لئے بہرحال نقصاندہ ثابت ہوگا۔

——————————————–

(نوٹ :مضمون نگار معروف تجزیہ نگار اورانگریزی ماہنامہ ایسٹرن کریسنٹ کے ایڈیٹر ہیں۔ وہ خود آسام سے تعلق رکھتے ہیں، این آرسی کے عمل سے ذاتی طور پرگزرے ہیں اور ان کی رائے کو مین اسٹریم میڈیا میں قدر کی نگاہ سے دیکھی جاتی ہے۔ بنیادی طور پر وہ انگریزی میں لکھتے ہیں تاہم یہ مضمون انہوں نے اس مسئلہ کی اہمیت کے پیش نظر خاص کر اردو میں تحریر کیا ہے.)

Comments are closed.