عیدالاضحی سےمتعلق غلط فہمیاں

اسراراحمدقاسمی،سونرے مدہوبنی
اللہ تعالی نے مسلمانوںکوسال میں دوخوشی کادن عطافرمایاہے،ایک عیدالفطراوردوسراعیدالاضحی عیدالفطردراصل رمضان کے روزے وتراویح کے صلے میں مسلمانوں کو عطاہوئی ،اورعیدالاضحی تکمیل حج بیت اللہ اورقربانی کےعمل انجام دینے کی وجہ سے ہماری ہمت افزائی اورہماری خوشی کےلیےعطاہوئی۔چونکہ دورجاہلیت میں لوگ نیروزاورمہرجان کے نام سے خوشی کے دوتہوارمناتےتھے ،توصحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے آپ ﷺسے پوچھا کہ کیاہم ان تہواروںمیں شرکت کریں ؟آپ ﷺنے فرمایاکہ’’ اللہ تعالی نے تمہیں ان کے بدلےان سے بہتردودن عطافرمائےہیں،ایک عیدالفطر کادن ،دوسراعیدالاضحی کا‘‘ مقصدیہ تھا کہ تم ان کی تہواروں میں شرکت نہ کرو!کیونکہ مسلمانوں اورغیرمسلموں میں عید کاتصورمختلف ہے ،اسلام میں عیدکاتصورہے عباد ت کرنا اورغیرمسلموں میں عیدکاتصورہے:اچھلناکودنا ،گانابجانا۔لیکن ا ب مسلمانوںکی بھی صورت حال بدل گئی ہے ،اوراب مسلمانوں میں بھی یہ تصورآگیاہے کہ عیدکے دن نوجوان لڑکے لڑکیاں اچھے اچھے کپڑے پہن کر اچھلتے کودتے ہیں ،پارک میں جاتے ہیں ،ساحل پرجاتے ہیں ،ڈرامہ گاہ اورسنیماھال میں جاتے ہیں اورنہ جانے کیاکیاکرتےہیں ۔حالانکہ عیدکے دن صبح سویرے اٹھناچاہیے،اورنہادھوکراچھے کپڑے پہن کرسب سے پہلےاللہ تعالی کی بارگاہ میںپہنچ کردوگانہء شکر اداکرناچاہیئے ،اوراسی کانام ہی اسلام میں عیدہے۔لیکن آج کے مسلمانوں نے اپنی تہواروں میں بھی رسومات اور غیروں کےطریقےکو داخل کرلیاہے گویاخوشی کےدن میں بھی دین کواپنی اصلیت پرباقی نہیں رکھاجیساکہ اکثرشہروں اوردیہاتوں میں ایک خاص رسم قدیم زمانہ سےچلتاآرہاہے وہ یہ کہ لوگ دوگانہ اداکرنے کے بعد عید گاہ میں ایک دوسرے کوسلام ومصافحہ اورمعانقہ کرتےہیں ،اوراگرکوئی اس عمل سے عیدگاہ کے اندرمنع کرتاہے تولوگ تاویل یہ کرتےہیں کہ اس سے محبت میں اضافہ ہوگا وہ بھی صرف عید کے دن حالانکہ حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے سلام پھیلانے کی بات کوکسی دن کے لیے خاص نہیں فرمایابلکہ حضورﷺنےفرمایاسلام کو عام کرواس سے محبت پیداہوگی ۔
’’والذی نفسی بیدہ لاتدخلوالجنۃ حتی تؤمنو ولاتؤمنو حتی تحابواأفلاادلکم علی امر
اذافعلتموہ تحاببتم افشوالسلام بینکم‘‘
(ابوداؤدکتاب الادب باب فی افشاءالسلام رقم:5195)
اورآج لوگوں نے اسے خاص کرلیاہےجوکہ صحیح نہیں ہے،بلکہ بعض لوگ تو سلام نہ کرنے والوں کو ادھرادھرکی باتیں بھی کہہ دیتے ہیں ،جودین میں زیادتی اورغلوہے ،علماءنے لکھاہے یہ روافض کا شعارہے اوراگراس میں ثواب کی نیت کرلیں توبدعت ہے ورنہ رسم ہے اور رسم سے بھی بچناضروری ہے ، اس لیے کم سے کم عیدگاہ کے احاطہ میں یہ رسم یابدعت نہیں ہونی چاہیے ،چونکہ وہاں آپ دوگانہ اداکرتے ہیں ،اللہ کے حکم کی تعمیل کرتےہیں اس لیےوہاں اللہ کے حکم کے خلاف نہیں ہوناچاہیئے ۔
اسی طرح ایک دوسری چیزجس کےمتعلق دارالعلوم دیوبند کےموجودہ شیخ الحدیث حضرت اقدس مفتی سعیدصاحب پالنپوری نے بخاری شریف کےدرس میں فرمایاتھاکہ تکبیر تشریق سے متعلق ہمارے یہاں ایک بات کا بالکل رواج نہیں ،نوذی الحجہ کی فجر سےتیرہ ذی الحجہ کی عصر تک توتکبیرات کہنے کا معمول ہے،مگر اس سلسلہ میں بھی لوگوں کاذہن یہ بناہواہے کہ یہ تکبیرصرف فرض نمازوں کے بعدوہ بھی صرف ایک مرتبہ کہنی چاہیئے ،جب کہ ہماری فقہ میں تین مرتبہ کاذکر ہے ،اورذی الحجہ کے نودنوں میں تکبیرکہنے کامعمول نہیں ہے،اس سلسلہ میں لوگ غلطی پرہیں ۔ذی الحجہ کے نودنوں میں بھی اورپانچ دنوں میں بھی (کل تیرہ دنوں میں )تکبیرتشریق کاورد رہناچاہیے،بکثرت تکبیرپڑھنی چاہیئے ،فرائض کے بعدبھی نوافل کے بعدبھی ،اورعام اوقا ت میں بھی ،صرف فرائض کے ساتھ خاص کرناصحیح نہیں ہے۔
حضرت ابن عمراورابوہریرہ رضی اللہ عنھماذی الحجہ کے دس دنوں میں بازارکی طرف نکلتےتھے ،دونوں تکبیریں کہتےتھےاورلوگ بھی ان کی تکبیریں سن کر کہتےتھے:
’’وکان ابن عمروابوھریرۃیخرجان الی السوق فی الایام العشریکبرات ،ویکبرالناس بتکبیرھما‘‘
حضرت محمدبن علی امام باقرنفلوں کے بعدبھی تکبیرکہتےتھے۔
’’وکبرمحمدبن علی خلف النافلۃ‘‘
لہذاسنتوں اورنفلوں کے بعدبھی زیادہ سےزیادہ تکبیرکہنی چاہیئے ۔
ہمارےیہاں ایک اوررسم کارواج ہے کہ عیدین میں دوگانہ اداکرنے کےبعداکثریت کی تعدادمیں لوگ قبرستان جاتے ہیں ،اورمردوں پر فاتحہ خوانی کرتےہیں ۔حالانکہ قبرستان جانے کا حکم عام ہے ،حضورﷺنے فرمایاقبرستان جایاکرواس سے موت کی یادتازہ ہوتی ہے ،لیکن آج اس حکم کولوگوں نے صرف عیدین کے ساتھ خاص کردیاہے ۔اورصرف عوام ہی نہیں بلکہ خواص بھی اس میں شامل ہیں ،اوربعض جگہوں پرظہروعصرکے بعدجانے کارواج ہے ،خواہ کسی وقت بھی ہو اس دن قبرستان جانے کااس طرح التزام کرناشریعت میں اس کی کوئی اصلیت موجودنہیں ہے ۔اورجس چیزکی شریعت میںکوئی اصلیت نہ ہواس پرعمل نہیں کرنی چاہیئے ۔
قربانی کے ایام آتے ہی سوشل میڈیاپریہ مسئلہ نشرہونےلگتاہےکہ گھرکےتمام افرادکی جانب سے ایک ہی قربانی کافی ہے،اوراس کےدلائل کےطورپرچندحدیثیں بھی پیش کی جاتی ہیں ،لیکن شریعت کا ایسامسئلہ بالکل بھی نہیں ہے بلکہ مسلمانوں کے ذہن وفکرمیں غلط مسئلہ بٹھاکرمسلمانوں کوایک عظیم عمل کے انجام دینے سے محروم رکھنےکی کسی مسلم دشمن افرادکی کوشش ہے جواس موقع سے وہ کرتےہیں ۔شریعت نےہرصاحب نصاب عاقل بالغ مسلمان پرقربانی کوواجب قراردیاہے،اورجس گھرمیں ایک ہی شخص صاحب نصاب ہواوردیگرافرادصاحب نصاب نہ ہوتوایسی صورت میں ایک ہی قربانی اس گھرکےلیے کافی ہے اورجس گھرمیں متعددصاحب نصاب ہوں توگھرمیںرہنےوالےہرصاحب نصاب شخص پرالگ الگ قربانی کرنالازم ہوگی۔کیونکہ حضورﷺنےفرمایاجوشخص صاحب استطاعت ہونے کے باوجودقربانی نہ کرےوہ ہماری عیدگاہ کے قریب بھی نہ آئے۔
’’من وجدسعۃ فلم یضح فلایقربن مصلانا‘‘
(مسنداحمد،مسندابی ھریرۃرقم:8273)
اس حدیث سےثابت ہوتاہے کہ ہرصاحب نصاب پرعلیحدہ قربانی کرناواجب ہے۔
دوسری وجہ یہ بھی ہے کہ قربانی ایک عبادت ہے ،لہذادیگرعبادات نماز،روزہ،حج ،زکوۃکی طرح قربانی بھی ہرمکلف کےذمہ الگ الگ واجب ہوگی ۔اس کے علاوہ رسول اللہ ﷺکاعمل مبارک بھی یہ تھاکہ آپ ﷺاپنی قربانی الگ فرمایاکرتےتھے،اورازواج مطہرات کی طرف سے الگ قربانی فرمایاکرتےتھے،چنانچہ اس سے بھی پتہ چلتاہے کہ ایک قربانی سارے گھروالوں کی طرف سے کافی نہیں ہے۔اوربعض روایات میںجوصراحت آتی ہے کہایک بکرا،مینڈھایاگائےتمام گھروالوں کی طرف سےکافی ہےتویہ نفلی قربانی کےمتعلق ہے،نفلی قربانی میں اس کی اجازت ہےکہ آدمی ثواب میں پورےگھروالے بلکہ تمام مؤمنین کوشریک کرلے،اس کی واضح دلیل یہ بھی ہے کہ اگرایک بکرایامینڈھاتمام مؤمنین کے کیے کافی ہوتاتوجن احادیث میں گائے کوسات کی طرف سےاوراونٹ کوسات کی طرف متعین کیاگیااس کے کیامعنی ہوں گے،گائے میں اگرآٹھ شریک ہوجائیں توبمقتضائے تحدیدالبقرۃ عن سبعۃقربانی جائز نہیں ہوگی،ورنہ تحدیدبےکارہوجائےگی اورظاہرہےکہ ایک بھیڑکاتمام امت کی طرف سے ہوجانااورگائے کاآٹھ نوکی طرف سے نہ ہوناغیرمعقول ہے ،پس صحیح یہ ہے کہ قربانی ہرصاحب نصاب پرواجب ہےاورنفلی قربانی کاثواب تمام گھروالوں کویاتمام امت کو بخشاجاسکتاہے۔
بصیرت فیچرس
Comments are closed.