یوم عرفہ کے روزے کے فضائل اور چند غلط فہمیوں کا ازالہ

ساجد حسین سہرساوی

مکہ مکرمہ کے جنوب مشرق میں تقریبا بیس کلو میٹر کے فاصلہ پر جبل رحمت کے دامن میں واقع ایک غیر آباد میدان کا نام عرفہ/عرفات ہے ، جہاں حج کا رکن اعظم ” وقوف عرفہ "ادا کیا جاتا ہے ، دور جاہلیت میں قریش مکہ خود آرائی اور انانیت کے سبب وقوف عرفات کو خود کےلیے مناسک حج سے خارج کر دیتے تھے ، حدود حرم سے نکلنے کو اپنی پدرانہ شان کے مخالف سمجھتے تھے ، دیگر حجاج کرام عرفات تک جاتے جبکہ قریش مزدلفہ سے آگے بڑھنے کو عار جانتے تھے ، نبی کریم صلى الله عليه وسلم حجة الوداع  کے موقع پر رسم جاہلیت کو کچلتے ہوئے عام لوگوں کے ساتھ میدان عرفات تک گئے اور ایک تاریخی اور اخلاقی خطبہ دیا ، جو خطبہ ” حجة الوداع ” سے معروف ہے.
"یوم عرفہ ” کی وجہ تسمیہ کی تعیین میں قدرے اختلاف پایا جاتا ہے ، مشہور تو یہی ہےکہ جب حضرت جبریل علیہ السلام سیدنا ابراہیم علیہ السلام کو تمام مناسک حج سکھلا چکے ، تو تجدید ذہن کےلیے دریافت کیا : ” أعرفت في أي موضع تطوف ، وفي أي موضع تسعی، وفي أي موضع تقف ، وفي أي موضع تنحر وترمي ” ؟ یعنی کیا آپ جان گئے کہ طواف کس جگہ کریں گے ؟ سعی کس جگہ کریں گے ؟ وقوف کس جگہ کریں گے ؟ نحر اور رمی کس جگہ کریں گے ؟ فقال: "عرفت” حضرت ابراہیم علیہ السلام نے فرمایا: ہاں میں اچھی طرح جان لیا ؛ اسی وجہ سے اس کو یوم عرفہ کہا گیا. ﴿البنایة﴾.
ایک قول کے مطابق حضرت آدم و حوا علیھما السلام کی اس جہان فانی میں پہلی ملاقات اسی مقام پر ہوئی تھی اور وہیں ایک دوسرے کو پہچان بھی لیا تھا اسی وجہ سے اس کا نام ” عرفات ” پڑ گیا اور زیادہ درست قول یہ ہےکہ یہ جگہ آس پاس کی جگہوں کے مقابلے میں قدرے اونچی ہے اور عربی میں اونچی چیز کو ” عرفاء ” کہا جاتا ہے ﴿ واللہ اعلم بالصواب ﴾.
آج کل ایک سوال بلکہ جانے انجانے میں لوگ اعتراض کرتے ہوئے نظر آتے ہیں : کہ ” یوم عرفہ ” کس اعتبار سے ہوگا ، آیا مکہ کا اعتبار کیا جائے گا یا جہاں مقیم ہیں اس جگہ کا اعتبار ہوگا ؟ تو سادہ سا جواب ہے: جہاں مقیم ہیں اسی جگہ کا اعتبار ہوگا ، اسلیے کہ دنیا بھر میں گردش لیل و نہار کی وجہ سے طلوع و غروب آفتاب کے اوقات مختلف علاقوں کے اعتبار سے مختلف ہوتے ہیں ، ممکن ہی نہیں دنیا بھر کے اوقات کا یکساں ہونا ، ایک جگہ سحر کا وقت ہوتا ہے تو دوسری جگہ اسی تاریخ کی شب تاریک ہوچکی ہوتی ہے ، ایک جگہ ابھی ظہر کی نماز ہورہی ہے تو کسی جگہ فجر کی تو کسی جگہ عشا کی ، یہ نظام الاوقات ہے جو بہرصورت ہر علاقے کا مختلف ہے.
جو لوگ کہتے ہیں : ہم ” یوم عرفہ ” کا روزہ اپنے علاقے کا اعتبار کرتے ہوئے رکھیں یا مکہ کا ؟ تو اس کےلیے بھی سابق بیان کردہ وجہ کافی ہے ، ظاہر ہے جب ہم رمضان کا روزہ خود کے علاقے کا اعتبار کرتے ہوئے رکھتے ہیں تو پھر اس روزے میں کیا حرج ہوسکتا ہے ، رحمت خداوندی محتاج زمان و مکان نہیں ، فاطر السموات و الارض کی عطا کب کس پر اور کہاں کتنی ہو جائے کسی کو خبر نہیں ، وہ قادر مطلق ہے ، اسلیے اپنے علاقے کا اعتبار کرتے ہوئے ہی ” یوم عرفہ ” کا روزہ رکھا جائے ، یوم عرفہ کے روزہ کا سبب "نو ذی الحجہ” ہے حدیث میں یوم عرفہ آیا ہے اور یوم عرفہ نو ” ۹ ذی الحجہ” ہی کو ہوتا ہے اس سلسلے میں اپنے ملک کے مطلع کا اعتبار ہوگا : ہذا إذا کانت المسافة قریبة لا تختلف فیہا المطالع، فأما إذا کانت بعیدة فلا یلزمہ أحد البلدین حکم الآخرین، لأمن مطالع البلاد عند المسافة الفاحشة تختلف ، فیعتبر في أہل کل بلد مطالع بلدہم دون البلد الآخر ﴿بدائع الصنائع ﴾
” یوم عرفہ ” کے روزے کی احادیث میں بڑی فضیلتیں وارد ہوئی ہیں. "امام ترمذی نے یوم عرفہ کے روزے کے متعلق دو ابواب قائم فرمائے ہیں ، پہلے باب میں غیرحاجی کے لیے یوم عرفہ کے روزے کی فضیلت پر اور دوسرے باب میں حاجی کے لیے یوم عرفہ کے روزے کی کراہت پر حدیثیں ذکر کی ہیں. علامہ بدرالدین عینی متوفی ۸۵۵ھ فرماتے ہیں:
تابعین و تبعِ تابعین اور ان کے بعد آنے والے اہل علم حضرات میں سے جمہور فقہاء و محدثین مثلاً: مسروق ، ابراہیم نخعی ، سفیان ثوری ، امام اوزاعی ، امام ابوحنیفہ ، امام مالک ، امام شافعی ، امام احمد ، امام ابویوسف اور امام محمد رحمہم اللہ تعالی کا مذہب یہ ہے کہ حاجی کے لیے عرفہ کے دن عرفات میں روزہ نہ رکھنا افضل ہے اور غاجی کے لیے روزہ رکھنا افضل ہے. قاضی عیاض مالکی نے کہا: "اہل علم کی ایک جماعت کے نزدیک عرفہ کے دن حاجی کے لیے روزہ نہ رکھنا مستحب ہے اور یہ امام مالک ، امام شافعی ، اہل کوفہ اور اسلاف کی ایک جماعت کا مذہب ہے۔” ﴿نُخَبُ الافکار، ج: ۸، ص: ۳۷۸﴾ ﴿ماخوذ﴾
حاجیوں کےلیے اس دن روزہ نہ رکھنا زیادہ مناسب ہے ، جس کی وجہ صاف ہےکہ حج انتہائی دشوار کن اور مشقت سے بھرپور عبادت ہے ، حدیث شریف میں آتا ہے : شك الناس يوم عرفة في صوم النبي صلى الله عليه وسلم فبعثت إلى النبي صلى الله عليه وسلم بشراب فشربه ﴿ بخاری ﴾.
یوم عرفہ کو روزہ رکھنا مستحب ہے اور اس پر ایک سال اگلے اور ایک سال پچھلے گناہوں کی معافی کا وعدہ بھی ہے ؛ قال النبی صلی اللہ علیہ وسلم صیام عرفة أحتسب علی اللہ أن یکفر السنة التي قبلہ والسنة التی بعدہ ﴿مسلم شریف﴾.
اللہ‌ ہم سب کو صراط مستقیم پر چلنے کی توفیق دے ، صحیح فکر اور بالغ نظری عطا کرے اور ” یوم عرفہ ” کے روزے رکھنے کی توفیق بخشے ﴿ آیعن﴾

Comments are closed.