روز عید قربان ؛ اپنی قوم سے ایک درد مندانہ اپیل……………………

ساجد حسین سہرساوی
روز عید قربان کا ورود ہو چکا ہے ، خدائے بزرگ و برتر ہر شخص کے اس خلوص کو قبول کرے اور قربانی کے راز ہائے سربستہ کا قدردان بنائے ، قربانی میں شکر ، اطاعت ، ایثار اور طریقۂ حصول رضائے الٰہی پنہاں ہیں ، اصطلاحا ؛ ایام عید الاضحی میں اللہ تعالی کا تقرب حاصل کرنے کے لیے بھیمۃ الانعام میں سے کوئی جانور ذبح کرنے کو قربانی کہا جاتا ہے. قربانی ہر اس مسلمان عاقل بالغ مقیم پر واجب ہوتی ہے جس کی ملکیت میں ساڑھے باون تولہ چاندی یا اس کی قیمت کا مال اس کی حاجات اصلیہ سے زائد موجود ہوں ، یہ مال خواہ سونا چاندی یا اس کے زیورات ہوں یا مال تجارت یا ضرورت سے زائد گھریلو سامان یا مسکونہ مکان سے زائد کوئی مکان ، پلاٹ وغیرہ. قربانی کے معاملے میں اس مال پر سال بھر گزرنا بھی شرط نہیں ہے.
پر صد افسوس کہ : عیدالاضحی کا تہوار اب مذہبی سے زیادہ سماجی و روایتی صورت اختیار کرتا جارہا ہے ، ہم قربانی کے اصل فلسفے ، تعلیمات اور مطالبات سے کنارہ کش ہوتے جارہے ہیں ، نسل نو کےلیے اس کی حیثیت علاوہ تفریح و تماشہ کے کچھ اور نہیں رہا ، اس میں خود نمائی ، بڑائی ، تکبر ودکھاوا اور ریا کاری ، نمود و نمائش اور بےجا تکلفات کا عنصر شامل ہوگیا ہے ، قربانی _جو خالص سنت ابراہیم اور سنت محمدی تھی ، محبوب ربانی بننے اور حصول تقرب الہی کا ذریعہ تھا_ کی اصل روح کو ہم نے بری طرح متاثر کر دیا ہے .
مذہب اسلام کا خصوصی امتیاز ہے : کہ وہ صرف احکام کے بتلا دینے کو کافی نہیں سمجھتا ؛ بلکہ طور و طریق اور حدود و قیود بھی بتلاتا ہے ، میانہ روی و اعتدال پسندی کو محبوب و محمود جانتا ہے ، اور افراط و تفریط پر مکروہ و سخت ناپسندیدگی کا لیول لگا دیتا ہے ، عبادات و ریاضات ، جذبات و احساسات ، ملاقات و مواسات ، ملن جلن ، رہن سہن ، کھان پان ، اٹھن بیٹھن ، چلت پھرت ، ظاہر و باطن ، دلداری و خیرخواہی اور رواداری و ملنساری ؛ غرض ہر چیز میں اعتدال مطلوب ہے اور بحیثیت مسلمان اس کے بغیر کوئی چارہ کار نہیں.
آمدم برسر مطلب
الحمدللہ علی ذلك ؛ ہم جس علاقے میں رہتے ہیں ، وہاں ہر قسم کے جانور کی بلا کسی خوف و خطر قربانی دی جاتی ہیں ، ہندو کی اکثریت کے باوجود کوئی پابندی نہیں ، ہم ساتھ ساتھ خوشیاں بانٹتے ہیں ، روز عید قربان بھی انہیں کثیر مقدار میں خصی کا گوشت دیا جاتا ہے اور بعض گھروں میں باضابطہ دعوت کا اہتمام بھی کیا ہے ، کبھی آپسی تناؤ ،رسہ کشی اور مباحث کا ماحول گرم نہیں ہوا ، سچ تو یہی ہےکہ پہلے بھی ہم بارہا بےاحتیاطی سے کام لیتے رہے اور اسے معمولی درجہ کی چیز سمجھتے ہوئے کبھی بھاؤ نہیں دیا ؛ لیکن جب سے بی-جے-پی کی حکومت برسر اقتدار آئی ہے ، _گرچہ معمولات سابقہ طرز پر ہی ہیں مگر_ اس بےاحتیاطی پر لگ بھگ ہر عیدالاضحی کے دن اقدام کیا گیا ہے ، کم از کم میرے گاؤں میں پولیس والے ایک دو چکر لگاتے دیکھے گئے ہیں ؛ بلکہ ماحول گرم کرنے کی بھی کوشش کی گئی ہے ؛ بےاحتیاطی کیا ہے ؟ مذبوحہ ﴿ حکومتی ممنوعہ ﴾ جانوروں کے کام میں لائے جانے والے حصوں کا راستے اور شاہراہ عام وغیرہ کے کنارے بےدردی سے پھینک دینا.
مطلب بایں جا رسید
ہم جس ملک میں رہ رہے ہیں ، اس کے موجودہ ضابطے کے حساب سے ہم بڑے خوش نصیب لوگ ہیں کہ ہمیں اب بھی وہ جانور قربانی کرنے کا حق حاصل ہے جس پر حکومت پابندی لگا چکی ہے ، ساتھ رہنے والی قوم ہمارے خلاف کوئی ایکشن نہیں لے رہی ، ہم بلا خوف و خطر ایسے جانوروں کی قربانی دیتے ہیں ، اسلیے خدارا ، بےاحتیاطی اور بےتوجہی سے اجتناب کیجیے ، مروت اور تالیف قلب کو کام میں لائیے ، اسلام ہرگز اس کا درس نہیں دیتا ، مذہب اسلام کا خاصہ ہی ہے خوشی و ناخوشی ، خودی و بےخودی ہر حال میں آس پڑوس والوں کا خیال رکھنا ، طاقتور ہوں تو کمزوروں کے ساتھ صلہ رحمی کرنا ، خوشحال ہوں تو بےحال لوگوں کی اعانت کرنا.
آج حکومت ہند کی باگ دوڑ جن ہاتھوں میں ہے ، اس کی فرعونیت عیاں ہے ، اس پر اقتدار و اختیار کے نشے کی مدہوشیت سر چڑھ کر بول رہی ہے ، آمریت اور شہنشاہیت کے طنطنے میں مخمور ہیں ، ایسی پرخاش ماتحتی میں بغیر احتیاط رہنا عقلمندی نہیں بےوقوفی ہے ؛ پھر مذہب اسلام بھی کہاں اجازت تسلیم کرتا ہےکہ ، قربانی کے محترم گوشت و پوست کو یوں بےدریغ چوک چوراہوں پر پھینک دیا جائے ، قربانی کا ہر ایک بال تک محترم ہیں ، چہ جائےکہ گوشت و پوست ، یہ چیزیں محترم ہیں ، کھانے کے لائق ہیں ، قابل استعمال ہیں ، ممنافع خش اورسودمند ہیں ، حلال ہیں ، نعمت ہیں ، جس کا ضائع کرنا کسی بھی اعتبار سے جائز نہیں ، انسانیت کے خلاف ہیں ، ایسے کام معاشراتی اور سماجی ہر اعتبار سے لائق ملامت ہیں ، اخلاقی اور تمدنی اعتبار سے افسوسناک ہیں ؛ لہذا اس صورتحال سے خود کو بھی دور رکھیں اور اوروں کو بھی روکیں ، اور اس قربانی کو بڑے ہی خلوص و للہیت کے ساتھ ، احترام و وقار اور عظمت کے ساتھ دربار خداوندی میں پیش کریں اور دعا کرتے رہیں کہ کسی طور عنداللہ قبول ہو جائے ﴿ آمین ﴾
Comments are closed.