آؤ کہ ذرا سر جوڑ کر بیٹھیں!

مفتی عبد المنان قاسمی دیناجپوری
وطن عزیز ہندوستان کی یہ آزاد فضا جن قربانیوں کے بعد میسر آئی ہے، یہ پندرہ اگست ہر سال ان کی یاد دلاتی ہے، جہاں ایک طرف ملک کا چھوٹا بڑا، اعلی ادنی، کالا گورا، امیر غریب، الغرض بلا تفریق رنگ و نسل اور بلا امتیاز مذہب و ملت کے ہر کوئی خوشیوں سے جھوم اٹھتا ہے، چوطرف طرف فرحت و انبساط کے شادیانے بجنے لگتے ہیں، سرور و ابتہاج کے زمزمے گائے جاتے ہیں، اپنے دلی جذبات و احساسات کا اظہار کیا جاتا ہے، وہیں ملک کی سالمیت کے لیے بھی قسمیں اٹھائی جاتی ہیں، اپنے ماضی کا سبق یاد دلایا جاتا ہے، پرچم وطن کی بالا دستی کے لیے ہر حد کو پار کر جانے کے وعدے کیے جاتے ہیں؛ حتی کہ وقت آنے پر پھر اسی نوعیت کی قربانیاں پیش کرنے کے توقعات بندھتی ہیں، "سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا” کے نعروں سے وطن کی فضا صبح کے باد نسیم کے ساتھ ساتھ گونج اٹھتی ہے اور اخوت و بھائی چارگی، اتحاد و یکجہتی کے فروغ اور انسانیت کی خدمت جیسے رنگا رنگ اور بلند قامت وعدے پورے ملک کی فضا میں تحلیل ہو جاتے ہیں-
لیکن کاش! کاش!! کاش!!! یہ سارے وعدے عملی طور پر وطن عزیز میں پائی بھی جاتیں! زمینی حقائق کے عین مطابق ہوتیں! "وطن کی آن کی خاطر ہماری جان حاضر ہے” کے نعرہ لگانے والے کرسئ اقتدار پر بیٹھے ہوے سورماؤں کو یہ بات بھی سمجھ آتی کہ اپنے ہی وطن میں بسنے والے، یہیں پیدا ہوکر، اسی سرزمین کے آغوش میں ہمیشہ ہمیش کے دفن ہو جانے والے انسانوں کو بے گھر کرنے کی سازش نہ کی جائے، اپنے ہی ملک کے باشندوں کو تحفظ فراہم کرنے کی کوششیں کی جائیں، جن کے آباء و اجداد کا خون اس وطن کی آزادی میں شامل ہے، آج انھیں سرے عام پیٹ پیٹ کر مار دینے والے انسانیت کے دشمن عناصر کو کیفر کردار تک پہنچایا جاتا، اور بھی ان جیسے سینکڑوں سوالات ہیں، جو اس وطن عزیز کے ہر باشعور اور عقل مند شہری کے ذہن و دماغ میں شب و روز گردش کرتے رہتے ہیں.
خدا کرے کہ عاقل کو اشارہ ہی کافی ہو۔
تمام باشندگان وطن عزیز کو یوم آزادی مبارک
ہندوستان زندہ باد
Comments are closed.