صالح فکر اور مثبت قیادت کی ضرورت

عین الحق امینی قاسمی
معہد عائشہ الصدیقہ رحمانی نگر بیگو سرائے
صالحیت، صلاحیت اور مثبت افکار وخیالات یہ اللہ کی عظیم ترین نعمتیں ہیں، ان جیسی خوبیاں کم لوگوں کے حصے میں آتی ہیں ۔یہ وہ خوبیاں ہیں ، جس سے انسان معتمد ،سنجیدہ اور باوقار کہلاتا ہے ،سماج میں اس کے تئیں نہ صرف اعتماد بحال ہوتا ہے ؛ بلکہ جھکاؤ بھی ہوتا ہے ۔ان خوبیوں کا مطلب عام طور پر لوگ، زیادہ پڑھے لکھے ہونے سے لیتے ہیں ،جب کہ سچائی یہ ہے کہ اس کے لئے ” بہت پڑھا لکھا ہونا کوئی ضروری نہیں ” بہت سے لوگوں کے خمیر میں یہ چیزیں ہوتی ہیں اور کچھ لوگ ان کو اپنی محنت ،دانش مندی اور اہل دل کی صحبت سے حاصل کرتے ہیں ،وہیں کچھ ایسے بھی ہوتے ہیں کہ آئی ہوئی نعمت کو بھی اپنی افتاد طبع اور ناہنجاری کی وجہ سے ضائع کردیتے ہیں؛ لیکن یہ سچائی ہے کہ چاہے منجانب اللہ یہ نعمتیں ملی ہوں یا ذاتی کسب سے ،جو ان نعمتوں کو بچاکر رکھنے اور برتنے میں کامیاب ہوگیا ،یقین مانئیے ! وہ دیر یا سویر دیگر محاذوں پربھی کامیاب ہوکر رہے گا ؛ مگر ان کو بچانا اور برتنا بھی سب کے لئے آسان نہیں ہے، البتہ اکثر ایسا دیکھا گیا ہے کہ جس نے اپنے بڑوں کے سائے میں ،ان کی مان کر جینا سیکھا ، بڑوں کی ہدایت پر صبر کیااور یہ طئے کرلیا کہ ہم نے جس کو آئڈیل مانا ہے،ہرحال میں ان کے اوامر ونواہی کو زندگی میں جگہ دینی ہے،تویقینا ایسے لوگ ہی بعد کےدنوں میں محاذوں کو سنبھالتے دیکھے گئے ہیں ؛ لیکن یہ کام جتنا اہم ہے شاید اس سے زیادہ مشکل بھی ہے ،کسی کو ماننے کا مطلب ہے کہ اپنی مرضی اس کےحوالےکردینا ،اپنی چاہت اس کی مرضی پر چھوڑ دیناوغیرہ
ظاہر ہے کہ جب ہم کسی کو بڑا مانیں گے تو ضروری ہوگا کہ ہم ان کی مان کر چلیں،اب اس ماننے میں دشواری ضرور ہے ، کبھی کبھی تو ایسا لگنے لگتا ہے کہ یہ سب بلا وجہ ہے ،آدمی آزاد پیدا ہوا ہے کیوں کسی کا فکری غلام بن کر جئیے،اپنی مرضی سے جہاں چاہے جائے ،جوچاہے کھائے جو دل میں آئے بولے ،وہ انسان ہیں، تو ہم بھی انسان ہیں ،ہم اپنی کمائی کھاتے ہیں ،زندگی جینے کے لئے اپنا سب کچھ لٹاتے ہیں ،پھر جوتی سیدھی کرتے رہنے کا کیا مطلب؟اس طرح کی باتیں ہزار بار دل میں آتی ہیں ،مگر ہم دیکھ رہے ہیں کہ جن لوگوں نے بھی اس کڑوے گھونٹ کوپیا ہے وہی صحت یاب ہوا ہے ،جس نے بھی کسی استاذکے سائے میں لکھنا پڑھنا سیکھا ہے اور اس کو اس کی رہنمائی میں اس کو برتا ہے ،اسی کا علم نافع ثابت ہوا اور جس نے استاذ کی ضرورت محسوس نہیں کی یا سیکھا تو استاذ سے ہے ، مگر بعد کے دنوں میں اپنی آزادخیالی ،روشن دماغی اور خوش گمانی سے وہ اپنے استاذ کا استاذ بننے کی کوشش کی ،تو ایسے لوگ اکثر چند دنوں بعدگم ہوجاتے ہیں اس کے برعکس اطاعت شعاری ،فرماں برداری ،اوراپنے بڑوں کے پاس آتے جاتے رہنے سے آدمی نکھر نے لگتا ہے، کام کے مواقع بھی ملتے ہی۔ کچھ زمہ داریوں کو لے کرچلنے کی تربیت بھی ملتی رہتی ہے ،دھیرے دھیرے قیادت و امامت ان کا نصیبہ بن جاتی ہے ۔کون سی چیز ہے جو بغیر دشواری سے حاصل ہوتی ہے اور کیا ایسی چیز ہے جس کے حصول کے لئےمشکل راہوں سے نہیں گزرنا پڑتا ہے ۔
آج کا المیہ یہ ہے کہ جہاں مدارس اسلامیہ میں بہتر سہولیات میں رکھ کربڑی امیدوں کے ساتھ طلبا کو تیار کیا جاتا ہے ،جب وہ فارغ ہوکر میدان عمل میں قدم رکھتے ہیں، تو قدم رکھتے ہی انہیں اپنےخیرخوہوں میں کمیاں نظر آنے لگتی ہیں ،وہ قریب ہونے کے بجائے دور رہنے میں عافیت محسوس کرتے ہیں ،بارہا ایسا دیکھا گیا ہے کہ ملاقات تک سے کتراتے ہوئے دور دور سے اپنے محسن کی اصلاح کی کوشش کرنے لگ جاتے ہیں ،کبھی تقریرا توکبھی تحریرا، یہ ایک افسوس ناک پہلو ہے ۔
ہمارے بڑے بزرگ ہماری قیادت فرمارہے ہیں ، یہ ہمارے لئے سعادت کی بات ہے ،مگر کب تک وہ کرتے رہیں گے ،چند دنوں بعد قیادت کا طوق ہماری گردنوں میں لٹکنے والا ہے ،ایسے میں ہمیں صالح فکر ،مثبت سوچ اور اپنے سے بڑے بزرگوں کے علم و قیادت پر اعتماد و بھروسہ کرنے کے مزاج کے ساتھ جینے کی عادت ڈالنی چاہئیے ۔
ادھر جب سے شوشل میڈیا زیادہ حرکت میں آئی ہے تو اس کے ساتھ ہمارے نئے فارغین مدرسہ بھی متحرک نظر آنے لگے ہیں ،اور ذاتی دانست میں گنتی کے چند ایسے ،سنجیدہ ،ذہین ،معاملہ فہم، جن کے علم میں گیرائی ہوتی ہے،جن کی تحریروں کا قاری کو انتظار رہا کرتا ہے اور جن کی تحریر کا حرف حرف ٹھوس موقف لئیے ہوئے ہوتا ہے،ان میں قابل قدر محترم مولانا عبد الحمید نعمانی دہلی ،مفتی محمد خالد حسین نیموی قاسمی بیگو سرائے بہار مولانا مفتی نصر اللہ ندوی لکھنؤ ، مفتی یاسر ندیم االواجدی شکاگو ، مفتی شکیل منصور قاسمی امریکہ ،مولانا سعود عالم قاسمی ،بنگلور ،مولانا محمد صابر نظامی قاسمی بیگو سرائے،مولانا خلیل الرحمان ،مفتی سہیل اختر قاسمی امارت شرعیہ پٹنہ مولانا عمر عابدین حیدر آباد ۔مولانا غفران ساجد قاسمی بنگلور ،مولانا ارشد فیضی دربھنگہ ، مولانا بختیار ثاقب قاسمی ،مفتی اشتیاق احمد قاسمی دیوبند مفتی عبد القدوس ندوی مولانا ابو طالب رحمانی کولکاتا، مولانا محمد عمران محفوظ رحمانی مالیگاؤں ،مولانا عبد الکریم ندوی ممبئ ،حافظ امتیاز رحمانی مونگیر وغیرہ کے نام خصوصیت سے لئیے جا سکتے ہیں ،جن کی تحریروں ،اوڈیوز یا ویڈیوز وغیرہ سے افادہ، استفادہ کا سلسلہ رہتا ہے ، باقی تو شوشل میڈیا پر بیٹھ کر ٹپنی ،کردار کشی ، تفریح بازی، ایک دوسرے کو نیچا دیکھا نے ، نکتہ چینی ،اختلافی مسائل میں گالی گلوج کرنے،ہنسی مذاق کرنے ،سیلفی لینے دینے کے سوا انہیں تو لگتا ہے کہ زندگی کا مقصد صرف یہی رہ گیا ہے ۔
ذہن میں رکھئیے کہ جو لوگ کام کررہے ہیں غلطی اور چوک بھی انہیں سے ہوگی ،ہم سے آپ سے کیا ہوگی جو ہرآن "گوشے میں قفس کے مجھے آرام بہت ہے ” کا ترانہ گاتے رہتے ہیں ، لیکن ہم ہیں کہ اس پر سب سے زیادہ واویلا مچاتے ہیں ،گذشتہ دنوں امیر شریعت مفکر اسلام مولانا سید محمد ولی رحمانی دامت برکا تاہم کے حوالے سے کچھ لوگ ہفوات بکتے رہے ، مولانا سید محمود اسعد مدنی مدظلہ نے شیر اسلام بیرسٹر اسد الدین اویسی کے بارے کیا کہہ دیا کہ طوفان بدتمیزی کھڑا ہوگیا ، قائد ملت مولانا سید ارشد مدنی مدظلہ العالی نے تالکٹورہ اجلاس میں جو کچھ فرمایا ، بعض کج فہموں نے اس پر بھی شور مچادیا ۔اسی طرح خطیب وقت مولانا سید سلمان حسنی ندوی صاحب کیا کہتے ہیں نہیں کہتے ہیں ، اس بے غیرتی سے غیر سنجیدہ تحریریں آئیں یا آرہی ہیں ، جسے پڑھ کر دل و نگاہ شرمندہ ہے ،ایسے پاکھنڈوں سے صبر بھی نہیں ہوتا ،وہ انتظار بھی نہیں کرتے کہ جن لوگوں کے خلاف ہم لکھ رہے ہیں،بول رہے ہیں یا سوال کھڑے کرہے ہیں،ان سے اوپر بھی لوگ بیٹھے ہیں ،وہ باز پرس کا حق رکھتے ،ان کی طرف سے مثبت یامنفی تحریرں کاانتظار کرنا چاہئیے ، ایسا کچھ سوچے بغیر لوگ لکھنے بیٹھ جاتے ہیں ،وہ لکھنے سے پہلے نہیں سوچتے کہ کرنے کے لئے یہی اک کام نہیں ہے ؛ "بلکہ اور بھی غم ہیں زمانے میں” ۔کیا صرف دفاع ہی ہمارا کام رہ گیا اور دفاع کے بھی تو اصول وضابطے ہیں آپ سماجی اصلاحی کاموں میں ہاتھ ڈال کر دیکھئیے یا ان سے پوچھئیے جو رات اس میں جھوج رہے ہیں اور جو غیروں سے لوہا لینے کے ساتھ اپنوں کی دشنام طرازیوں کو برداشت کررہے ہیں ، ” چمکتا جو نظر آئے وہ سب سونا نہیں ہوتا ” ہمارے قائد صاف پہنتے ،گاڑیوں کی سواری لیتے ہیں ،مگر ان کے دل سے پوچھئیے ،وہ کب سوتے ہیں ،کب کھاتے ہیں ،عمر کے اس پڑاؤ میں بھی کتنا ورک کرتے ہیں ،ان کے پاس جینے کے لئے بہت کچھ ہے ،کیوں وہ "صبح کہیں ،شام کہیں رات کہیں دن کہیں "کرتے رہتے ہیں کبھی ٹھنڈے دل سوچنے کی عادت ڈالئیے !بالفرض تھوڑی دیر کے لئے مان بھی لیا جائے کہ آپ حق بول رہے ہیں، مگر حق بولنے کے بھی تو طریقے ہیں ،ضا بطے ہیں ،کیا ہم صرف تنقیدوں کے ذریعے سامنے والے کی اصلاح کردیں گے ، کیا ہمارے سامنے اصلاح کا طریقہ صرف گالی ہے ،لعن طعن ہے ،شور شرابہ ہے اور کردار کشی ہے ۔ نہیں ! بلکہ احسن طریقہ ہے کہ نفرت کو محبت سے منکر کو پیا ر اور عداوت کو خوش دلی سے ختم کیا جا سکتا ہے ،ہمارے سامنے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی یہی سیرت ہونی چاہئیے ۔
نگہ بلند سخن دل نواز جاں پرسوز
یہی ہے رخت سفر میر کارواں کے لئے
Comments are closed.