اوپر والا سب دیکھ رہا ہے!

 

محمد فہیم عثمانی

اوپر والے پر تو تقریباً سارے مذاہب کے پیروکار یقین رکھتے ہیں چاہے وہ کسی بھی شکل میں ہو حتی کہ جو لوگ کسی مذہب کے پیروکار نہیں ہیں وہ بھی کسی نہ کسی حد تک خدا کے وجود کی گواہی دیتے ہیں تو خدا بھی تو یہ دیکھتا ہوگا کہ مظلوم اورغریب لوگ انصاف کے لئے کس قدر مایوس ہیں. اور انصاف دینے والے ادارے کس قدر کمزور اور بے بس ہیں اور کس طرح سسک سسک کر دم توڑ رہے ہیں. آج ہم نے پورے جوش وخروش کے ساتھ ملک کی آزادی کا جشن منایا اور اپنے ہندوستانی ہونے کا چیخ چیخ کر ثبوت پیش کیا آج پورے ملک کی فضا ‘ہندوستان زندہ باد’ ‘جے ہند’ ‘بھارت ماتا کی جے’وندے ماترم’جیسے نعروں سے گونج رہی تھی، لیکن ظلم و بربریت سے یہ ملک کب آزاد ہوا؟؟؟
پہلو خان بھی تو اسی دھرتی ماں کاایک لال تھا، وہ بھی تو اسی ملک کا باشی تھا اسنے بھی اپنی زندگی کے 55 سال تک اسی طرح جشن آزادی منایا ہوگا. لیکن کبھی اسکو اس بات کا احساس نہیں رہاہوگا کہ یہی دھرتی ماں اور اسی ملک کے منصف ادارے اسکو یتیم بنا دیں گے.
واقعہ 1/ اپریل 2017 کاہے جب 55 سالہ پہلو خان اور سکے دو بیٹوں کو ہندوستان کی مغربی ریاست راجستھان ضلع الور میں گائے کے خود ساختہ محافظوں نے ایک پک اپ وین سے اتار کر اسقدر درندگی سے پیٹا کہ پہلو خان نے واقعہ کے دو دن بعد ہی زخموں کی تاب نہ لاکر دم توڑدیا.
ڈاکٹروں کی رپورٹ نے بتایا کہ پہلوخان کی پسلیاں بری طرح ٹوٹ گئی تھیں جسکا درد وہ بوڑھا بدن جھیل نہ سکا اور اپنی دھرتی ماں کی آغوش میں سما گیا. اس پورے واقعہ کی ویڈیو گرافی بھی کی گئی جسےپورے ملک نے دیکھا کہ کس طرح طاقت کے نشہ میں مدہوش ظالموں کی ایک ٹولی باپ بیٹوں کو مارتی رہی اور بےحس لوگوں کی ایک بھیڑ اس بربریت کی گواہ بنی اورتماشہ بینوں کی طرح اس درندگی کو دیکھتی رہی. لیکن کسی نے نہ تو صدائے احتجاج بلند کیا نہ ہی کسی نے آگے بڑھ کر بدمعاشوں کو روکنے کی کوشش کی جیسے انکے ہاتھ شل ہوگئے ہوں اور زبانیں گونگ پڑ گئی ہوں.
اس معاملہ میں پہلو خان نے مرنے سے پہلے 6 لوگوں کے نام بتائے تھے جنھیں CBCID نے پہلے ہی بری کردیا تھا یعنی انکے خلاف چارج شیٹ ہی نہیں کیا تھا کیوں کہ پولس کو لگا کہ پہلو خان کا مرنے سے پہلے دیا ہوا بیان مضبوط ثبوت نہیں ہے.
ویڈیو کی بنیاد پر راجستھان کی کرائم برانچ اورCID نے نو لوگوں کو نامزد کیا اور انھیں گرفتار کیا گیا لیکن دوسال کی تفتیش کے بعد 14 اگست، 2019 کو الور کی ضلعی عدلیہ نے 6 ملزمین کو باعزت بری کردیا اور تین نا بالغ ہیں جنکا مقدمہ ابھی چل رہا ہے.
عدالت نے یہ نہیں کہا کہ پہلو خان کا قتل نہیں ہوا یا جس شخص کو ویڈیو میں پیٹا جارہا تھا وہ پہلو خان نہیں ہے یا ویڈیو جھوٹی ہے بلکہ عدالت صرف اتنا کہا کہ ویڈیو میں جو لوگ مارتے نظر آرے ہیں انکے چہرے ملزمین سے نہیں ملتے اسلئے انکو رہا کیا جاتا ہے.
اس معاملہ میں پولیس کی ناکامی کو صاف طور پر دیکھا جاسکتا ہے کہ وہ ویڈیو بنانے والے تک کو بطور گواہ پیش نہ کرسکی یا اسکو اعتماد میں نہ لے سکی جسکی بنیاد پر وہ کبھی بھی گواہی دینے نہیں آیا بلکہ مکر گیا.
ملزمین بری ہوگئے عدلیہ کا فیصلہ ہے جسکا احترام ضروری ہے، لیکن پہلوخان کا کیا جو انسانی بھیس میں ملبوس بھیڑیوں کی بھینٹ چڑھ گیا.
کیا عجیب تماشابناپہلو خان کا کہ اسکادرندگی سے قتل تو ہوا لیکن قاتل کوئی نہیں ہے، پورے ملک نے اسکے قتل کا ویڈیو دیکھا حتی کہ کچھ لوگوں نے موقع واردات پر اسکا عینی مشاہدہ کیا لیکن قاتل کون ہے یہ کسی کو علم نہیں.
پہلو خان کے قتل کے الزام میں گرفتار لوگوں کی رہائی پر عدالت کے باہر ‘بھارت ماتا کی جے’ کے نعرے بھی لگائے گیے. لیکن یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ نعروں سے الور ضلع کی فضا تو ضرور گونجی ہوگی لیکن اسی بھارت ماں نے ناکام پولیس اور اسکے ظالم نظام کو بھی دیکھا ہوگا جو اپنے ہاتھ باندھے ایک طرف اپنی ناکامی یا بےبسی پر شرمندہ کھڑی ہوگی اور اسی دھرتی ماں نے دوسری طرف پہلوخان کے بیٹوں کے ان مایوس چہروں کو بھی دیکھا ہوگا جو اپنے باپ کے قتل کے چشم دید گواہ ہونے کے باوجود انصاف کی دہائی دیتے رہے لیکن انہیں انصاف نہیں مل سکا.
انسانوں کے کچھ وقت کے لئے کس معاملے سے آنکھیں موندھ لینے سے وہ معاملہ صفحہ تاریخ سے نہیں مٹ جاتا بلکہ تاریخ بار بار اپنے آپ کو دہراتی رہتی ہے.
پہلو خان کو انصاف ضرور ملے گا کیونکہ اوپر والا سب دیکھ رہا ہے. جس طرح دن اور رات کے پہروں کی اپنی اپنی کیفیات ہوتی ہیں اور وہ انسان پر اثرانداز بھی ہوتی ہیں، بالکل اسی طرح زمانوں کی بھی اپنی کہانیاں اور کیفیات ہوتی ہیں. وقت کی آنکھیں کبھی بند نہیں ہوتیں وہ سدا کھلی رہتی ہیں. چاہے سورج اور چاند کی روشنی ہو یا اماوس کی سیاہ رات، وہ آنکھیں سب کچھ دیکھتی ہیں. مگر یہ بھی حقیقت کے قریب کہاوت ہے کہ، عشق، خوشبو اور خون چھپائے نہیں چھُپتے۔
———————————————-
آج پھر بجھ گئے جل جل کے امیدوں کے چراغ

آج پھر تاروں بھری رات نے دم توڑ دیا

Comments are closed.