جمعہ نامہ: تصور آزادی اور سیرت ابراہیمی

 

ڈاکٹر سلیم خان

حضرت ابراہیم ؑ کی سیرت میں تصورِ آزادی کا مرحلہ وار پیغام پنہاں ہے۔ اس کی ابتداء عقیدے کی سطح پر اس طرح ہوئی کہ آپؑ نے ‘‘اپنے باپ آزر سے کہا ‘‘کیا تو بتوں کو خدا بناتا ہے؟ میں تو تجھے اور تیری قوم کو کھلی گمراہی میں پاتا ہوں (6:74)’’ ۔ بتوں کی غلامی سے چھٹکارہ حاصل کرنے کے بعد ابراہیمؑ نےتمام معبودان باطل کا انکار کرتے ہوئے اعلان کیا "اے برادران قوم! میں اُن سب سے بیزار ہوں جنہیں تم خدا کا شریک ٹھیراتے ہو (78) میں نے تویکسو ہو کر اپنا رخ اُس ہستی کی طرف کر لیا جس نے زمین اور آسمانوں کو پیدا کیا ہے اور میں ہرگز شرک کرنے والوں میں سے نہیں ہوں” (6:78-79) اس اعلان حق کے بعد جب قوم جھگڑنے لگی تو انہوں نے کہا "کیا تم لوگ اللہ کے معاملہ میں مجھ سے جھگڑتے ہو؟ حالانکہ اس نے مجھے راہ راست دکھا دی ہے اور میں تمہارے ٹھیرائے ہوئے شریکوں سے نہیں ڈرتا، (6:80) ۔یہی معرفت آزادی کے لیے لازمی بے خوفی اور اطمینان کا سرچشمہ ہے ۔ آپ ؑسوال کرتے ہیں ‘‘ہم دونوں فریقوں میں سے کون زیادہ بے خوفی و اطمینان کا مستحق ہے؟’’ (6: 81)

فکروعقیدہ کی آزادی کے بعد سیاسی آزادی کا مرحلہ میں طاغوتِ وقت نمرود سے تصادم پیش آتا ہے۔ارشادِربانی ہے‘‘کیا تم نے اُس شخص کے حال پر غور نہیں کیا، جس نے ابراہیمؑ سے جھگڑا کیا تھا؟ جھگڑا اِس بات پر کہ ابراہیمؑ کا رب کون ہے، اور اس بنا پر کہ اس شخص کو اللہ نے حکومت دے رکھی تھی جب ابراہیمؑ نے کہا کہ "میرا رب وہ ہے، جس کے اختیار میں زندگی اور موت ہے، تو اُس نے جواب دیا: "زندگی اور موت میرے اختیار میں ہے”ابراہیمؑ نے کہا: "اچھا، اللہ سورج کو مشرق سے نکالتا ہے، تو ذرا اُسے مغرب سے نکال لا” یہ سن کر وہ منکر حق ششدر رہ گیا، مگر اللہ ظالموں کو راہ راست نہیں دکھایا کرتا(2:258)۔ حضرت ابراہیم ؑ نے جب اتمام حجت کے طور پر بت شکنی کی تو قوم کا پیمانۂ صبر لبریر ہوگیا اور اس نے اعلان کیا‘‘جلا ڈالو اس کو اور حمایت کرو اپنے خداؤں کی اگر تمہیں کچھ کرنا ہے۔ اس کے جواب میں بشارت آئی "اے آگ، ٹھنڈی ہو جا اور سلامتی بن جا ابراہیمؑ پروہ چاہتے تھے کہ ابراہیمؑ کے ساتھ بُرائی کریں مگر ہم نے ان کو بُری طرح ناکام کر دیا (21: 68 -70)۔ لیکن بقول علامہ اقبال ؎

آج بھی ہو جو براہیم کا ایماں پیدا آگی کرسکتی ہے اندازِ گلستاں پیدا

اپنے آپ کو اس خوشخبری کا مستحق بنانے کے لیےنمرود کی غلامی سے آزادی کےبعدامات کی شرائط دیکھیں ‘‘یاد کرو کہ جب ابراہیمؑ کو اس کے رب نے چند باتوں میں آزما یا اور وہ اُن سب میں پورا اتر گیا۔ تو فرمایا‘‘میں تجھے سب لوگوں کا پیشوا بنانے والا ہوں”۔ ہم اس خوشخبری کے حقدار کیوں نہیں بن پاتے اس کا جواب ابوالانبیاء کے استفسار میں ہے ‘‘ابراہیمؑ نے عرض کیا: "اور کیا میری اولاد سے بھی یہی وعدہ ہے؟تو جواب آیا : "میرا وعدہ ظالموں سے متعلق نہیں ہے ’’ (2:124)۔ اپنے ظالمانہ رویہ سے نکلنے کا راستہ اللہ کی کتاب یہ بتاتی ہے کہ‘‘اے محمدؐ! کہو میرے رب نے بالیقین مجھے سیدھا راستہ دکھا دیا ہے، بالکل ٹھیک دین جس میں کوئی ٹیڑھ نہیں، ابراہیمؑ کا طریقہ جسے یکسو ہو کر اُس نے اختیار کیا تھا اور وہ مشرکوں میں سے نہ تھا ۔ کہو، میری نماز، میرے تمام مراسم عبودیت، میرا جینا اور میرا مرنا، سب کچھ اللہ رب العالمین کے لیے ہے۔ جس کا کوئی شریک نہیں اسی کا مجھے حکم دیا گیا ہے اور سب سے پہلے سر اطاعت جھکانے والا میں ہوں’’ (6:161-163) یعنی تما م باطل نظریات سے منہ موڑ کر دین اسلام پر یکسوئی اور اس پر اپنا سب کچھ قربان کردینا لازم ہے ۔ اس حقیقی آزادی کا معاملہ لال قلعہ کے خطاب کی مانند زبانی خرچ نہیں ہے بلکہ یہ کائناتِ ہستی میں امن و آشتی اور خوشحالی کا باعث بنتا ہےجس کے لیےحضرت ابراہیم ؑ نے دعا فرمائی تھی ‘‘اے میرے رب، اس شہر کو امن کا شہر بنا دے، اور اس کے باشندوں میں جو اللہ اور آخرت کو مانیں، انہیں ہر قسم کے پھلو ں کا رزق دے” (2:126)۔ یہی آزادی دنیوی اور اخروی فلاح کی شاہِ کلید ہے۔

(بصیرت فیچرس)

Comments are closed.