کرناٹک میں سیلاب نے مچائی تباہی, جس کے بعد سامنے آرہے ہیں کئی زمینی حقائق !!!

رپورٹ : احساس نایاب شیموگہ کرناٹک ( ایڈیٹر گوشہء خواتین بصیرت آن لائن )

حال ہی میں عیدالاضحیٰ سے کچھ دن قبل کرناٹک کے ملناڈ علاقے کے  شہر شیموگہ میں کئی جگہوں پہ لگاتار موسلادھار بارش کی وجہ سے سیلاب آیا ہے جس کے قہر سے چاروں اور تباہی مچ گئی، سارا شہر پانی میں ڈوب گیا، گھریلو اشیاء سے لے کر جانور بھی پانی میں تیرتے نظر آئے, پیڑوں کے گرنے سے کئی کئی گھنٹے بجلی بند رہی, کئ گھر پوری طرح سے منہدم ہوگئے جس کے بعد کئی این جی اوز و تنظیموں کی اور سے سیلاب میں پھنسے لوگوں کو ریسکیو کرکے محفوظ جگہون تک منتقل کیا گیا، شہر میں 15 سے زائد ریلیف کیمپ بنائے گئے جہاں پہ ان لوگوں کو رکھا گیا ہے جن میں ہندو, مسلمان سبھی مذاہب کے لوگ شامل ہیں جنہیں ضلع انتظامیہ کے ساتھ ساتھ لوگوں کی جانب سے بھی کپڑے, بلینکیٹس, ہاسر , چھتری جیسی ضروری اشیاء اور کھانے پینے کی چیزیں تقسیم کی جارہی ہیں
اسی دوران یہ بھی دیکھنے کو ملا ہے کہ جہاں ہندو اکثریت علاقے ہیں وہاں تو ریلیف کا سامان برابر پہنچایا جارہا ہے؛ لیکن انہیں علاقوں کے بیچ و بیچ چند مسلم گھر موجود ہیں اُن کا کہنا ہے کہ ان تک ریلیف نہیں پہنچ رہی، جو این جی اوز کام کررہی ہیں جو آرگنائزیشن ریلیف پہنچارہی ہیں وہ یہاں کے مسلمانوں کو ریلیف نہیں دے رہی ہیں، انہیں سرے سے نظرانداز کررہی ہیں راشن کپڑا دینے کا کہہ کر 6 , 6 سات سات گھنٹے انہیں لمبی چوڑی قطاروں میں انتظار کروایا جاتاہے پوچھنے پہ ٹوکن نہ ہونے یا راشن و سامان کے ختم ہونے کا بہانہ بناکر انہیں خالی ہاتھ لوٹایا جارہا ہے
اس کے علاوہ مقامی اخبار کی رپورٹ کے مطابق شیموگہ کے رامنا شیٹی پارک کے ساتھ ساتھ ہندو اکثریت علاقے میں مقیم کئی راحتی مراکز جن کے اخراجات و ذمہ داریوں کو ضلع مرکزی انتظامیہ کے افسران اپنی نگرانی میں کررہے تھے؛ لیکن اچانک آر ایس ایس کی شیموگہ یونٹ نے ان راحتی مراکز میں اپنے کارکنان کو میدان میں اتار دیا اور دیکھتے ہی دیکھتے سرکاری راحتی مراکز ( گنجی کیندر ) آر ایس ایس کے امدادی کاموں میں تبدیل ہوگئے جس کے بعد وہاں آر ایس ایس کے کارکنان کی اجازت کے بغیر ایک پرندہ بھی پر نہیں مار سکتا تھا ان حالات میں صرف رامنا شیٹی پارک کے کلیاں مندر ضلع انتظامیہ کی جانب سے راحتی مرکز میں ایک ہزار سے زائد سیلاب متاثریں پناہ لئے ہوئے تھے جن کی مدد کے لئے شیموگہ شہر کی عوام اور کئی تنظیمیں اپنی اپنی جانب سے امداد فراہم کررہے تھے وہاں اچانک بی جے پی، آر ایس ایس  اور مودی کی تصویر بنی ٹی شرٹ اور چڈی پہن کر امدادی کاموں کے لئے آنے والی اشیاء کو آر ایس ایس کے کارکنان نے اپنے قبضہ میں لے لیا تھا
اُن علاقوں کی مسلم خواتین کا کہنا ہے کہ وہ صرف اپنے لوگوں تک ریلیف پہنچارہے ہیں اور مسلمانوں تک کچھ نہیں پہنچ رہا ایسے میں چند مسلم آرگنائزیشن اور مسلم لوگ اُن مسلمانوں کی مدد کرنا چاہتے ہیں؛ لیکن جو ہندو اکثریت محلہ ہے وہاں کے مقامی لوگ مسلمانوں تک نہیں پہنچنے دیتے ہیں جو بھی جاتا ہے اُس کے ساتھ گالی گلوج لڑائی جھگڑا کرنے لگتے ہیں اور کہتے ہیں پہلے ہمیں دیکھو ہماری ضرورتیں پوری کرو. ان حالات کے مدنظر مدد کے لئے گئے لوگوں کو مجبورا وہاں سے واپس لوٹنا پڑتا ہے اس ڈر سے کہ کہیں ہندو مسلم فساد نہ برپا ہوجائے
ایسے میں وہاں کے مسلمانوں میں خوف و دہشت کا ماحول ہے حالات بد سے بدتر ہیں. کئی علاقوں سے چوری کی خبریں بھی موصول ہورہی ہیں مستقل یہی حالات ہونگے تو جرائم بڑھنے کا بھی خطرہ ہے؛
لیکن افسوس ان حالات کو دیکھتے ہوئے بھی چند مسلم تنظیموں کے بیچ تصادم جاری ہے ہر کوئی اپنی تنظیم اپنے لیبل اپنے بینر کو فوقیت دینا چاہتا ہے.
سیلاب متاثر لوگوں کے نام پہ جگہ جگہ چندہ جمع کیا جارہا ہے؛ لیکن وہ چندے کی رقومات ضرورت مندوں تک نہیں پہنچائی جارہی ہیں جس کی بنا پر کئی لوگ یہ سوال کررہے ہیں کہ آخر چندہ کا پیسہ جا کہاں رہا ہے ؟؟؟ سننے میں یہاں تک آیا ہے کہ آس پاس کے دیگر شہروں سے بھی اچھی خاصی رقم, راشن اور کچھ سامان بھیجا گیا ہے؛ لیکن وہ بھی آنکھوں سے اوجھل ہے نہ ان پیسوں کا کوئی حساب دے رہا ہے نہ کوئی لے رہا ہے.
ان حالات کے مدنظر حال ہی میں شہر کے تمام مسلم ذمہ داران کی اور سے میٹنگ بلائی گئی جس میں شہر کی مختلف مسلم تنظیموں , جماعتوں کے ذمہ داروں کی موجودگی میں  اتفاق رائے سے یہ فیصلہ لیا گیا کہ سیلاب متاثرین کے لئے امداد کا کام ایک ہی بینر  تلے ہوگا جس کو انجام دینے کے لئے "شیموگہ فلڈ ریلیف کمیٹی” کا قیام کیا گیا . یہ ایک عارضی کمیٹی ہوگی جس کے بینر تلے کُل 18 تنظیموں کو مل کر سیلاب متاثرین کے لئے امدادی کام کرنا ہوگا . جس کی سرپرستی مفتی سید مجیب اللہ اور مولانا فضل الرحمان قاسمی کے ذمہ ہے, فنڈ کلیکشن کی ذمہ داری مفتی صفی اللہ اور دیگر 20 اراکین کو دی گئی, اس عارضی کمیٹی میں سیکریٹری کے طور پر محمد سلطان اور جوائنٹ سکریٹری پیس آرگنائزیشن کے ریاض احمد ہیں, خزانچی کی ذمہ داری کے بی بشیر احمد کو دی گئی اور متاثرہ علاقوں کا جائزہ لینے کے لئے ایس ڈی پی آئی اور جماعت اسلامی ہند کی سروے رپورٹ کی بنیاد پر متاثرین کو امداد دی جائے گی.
جہاں 18 تنظیموں کے مشترکہ کام کرنے کے اس فیصلے کو کئی مسلم تنظیموں ,جماعتوں و اداروں کی تائید ملی ہے , کئی مسلمانوں نے اس فیصلے کا خیرمقدم کیا ہے وہیں چند لوگ اس سے اتفاق نہیں رکھتے جس کی وجہ سے کل نماز جمعہ کے بعد شہر کی 60 کے قریب مساجد میں سے محض 8 مساجد میں ہی کمیٹی کی جانب سے دئے گئے اعلان نامہ کو سنایا گیا ہے. رہی باقی مساجد کی بات تو سننے میں آرہا ہے کہ وہاں پہ اعلان کرنے سے انکار کردیا گیا جس سے عام مسلمانوں میں افسوس و غصے کے تاثرات دیکھنے کو مل رہے ہیں .
جہاں غریب, بےسہارا, مجبور مسلمان بےگھر ہوچکے ہیں, زندگی بھر کی جمع پونجی اپنے سر سے چھت گنواکر امداد کی آس میں اپنے رہنماؤں کی جانب امید بھری نظروں سے دیکھ رہے ہیں وہیں خود کو مہذب ,دیندار ,ہمدرد اور مسلمانون کے رہنماء کہلانے والے مسلکوں و فرقوں کو بنیاد بناکر جمے ہوئے دودھ میں لیمو گھولنے کا کام کرتے ہوئے مسلمانوں میں تفریق کررہے ہیں ایسے میں قوم کے انا پرست ذمہ داران سے عام مسلمانوں کا سوال ہے کہ اس ناگہانی صورتحال میں خود کو دانشور، قوم کا ہمدرد کہنے والے آخر کیوں متحد ہوکر مشترکہ طور پہ مسلمانوں کی بہبودی کے خاطر کام نہیں کرسکتے ؟

واضح رہے 3 اگست سے ہونے والی بارش کے لگاتار برسنے سے پورے کرناٹک میں کہرام مچ گیا ہے جو دیکھتے ہی دیکھتے سیلاب کی شکل میں کئی شہروں کو بہا لے گیا خاص کر شمالی کرناٹک ساحلی علاقے اور ملناڈ اس کی چپیٹ میں رہا. جس سے کرناٹک میں بہت بڑی تباہی ہوئی ہے سرکاری اعداد و شمار سے کئی گنا زیادہ جانی اور مالی نقصانات ہوئے ہیں.

Comments are closed.