ارتداد سے حفاظت کی تدبیریں( قسط نمبر9)

 

بقلم:
مفتی محمد اشرف قاسمی

عالم ہمہ ویرانہ زچنگیزئ افرنگ
معمارحرم بازبہ تعمیر جہاں خیز

منہج صحا بہؓ اور خوارج

قیا مت کی نشا نیوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ امت میں نبی کریم ﷺ اور صحا بہ کرام کے منہج اور طریقے کے خلاف کچھ فر قے پیدا ہو ں گے۔ انہیں میں ایک فر قہ خوا رج ہے۔
یہ لوگ تحکیم کے معاملہ میں
ان الحکم اِلَّالِلّٰہ {۵۷}الانعام
"حکم اللہ کے سوا کسی کا نہیں چلتا۔‘‘
کا نعرہ مسجد کے کو نوں سے بلند کرتے تھے۔
( مصنف عبدالرزاق ۱۰/۱۵۷؍ مستدرک حاکم۲؍۱۵۰؍)
خوا رج کی اس گمراہی کی تھوڑی سی تفصیل ذیل میں نقل کی جا تی ہے جس سے معلو م ہو گا کہ اس نام سے یہ فر قہ اب تو مو جود نہیں ہے؛لیکن اس کی سو چ رکھنے وا لے فرقے دوسرے ناموں سے موجو د ہیں۔
جنگ صفین؛مسلمانوں کے درمیان افسوس ناک باہم عظیم لڑا ئی کا نام اور اسلامی تا ریخ کا سیاہ ترین باب ہے۔ اس جنگ کے بعد اہل شام اور اہل عراق کی دونوں جما عتوں کا تحکیم پر اتفاق ہو گیا اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کو فہ کی جانب روا نہ ہوئے،تو راستے میں خوا رج نے ان سے علیحد گی اختیار کرلی۔ لشکر میں ان کی تعداد آ ٹھ ہزار تھی ، بعض روایات کے مطابق یہ سولہ ہزار تھے۔ یہ لوگ الگ ہو کر حروراء میں ٹھہر گئے۔ سیدنا علی رضی ا للہ عنہ نے انھیں سمجھا نے کے لیے حضرت عبدا للہ بن عباس رضی اللہ عنہ کو بھیجا، انھوں نے ان منحرفین سے منا ظرہ کیا۔( روا یت کی ابتدا ئی گفتگو چوں کہ زیر بحث مو ضو ع سے متعلق نہیں ہے اس لیے انھیں چھوڑ کر آ گے کاحصہ نقل کیا جاتا ہے۔ )
"۔۔۔ خوارج سے منا ظرہ کے سلسلے میں حضرت عبد اللہ بن عباسؓ کہتے ہیں ۔۔۔۔۔ میں چوں کہ خوش اخلا ق تھا اور کسی کوایذاء نہیں دیتا تھا، اس لیے امیرالمؤمنین نے مجھے (ان سے ملا قات اورمناظرہ کے لیے)اجا زت دے دی ۔ میں نے ایک خو بصورت یمنی لباس زیبِ تن کیا اور خو ب بن سنور کردوپہر کے وقت ان کے پاس جا پہونچا۔ میں ایسے لوگوں کے پاس گیا کہ میں نے ان سے بڑھ کر عبادت گزار نہیں دیکھے۔ ان کی پیشا نیاں سجدوں کے نشانات سے مزین تھیں۔ کثرتِ عبادت سے ان کے ہاتھ اونٹ کے اس حصے کی طرح ہو گئے تھے جو زمین پر لگنے کی وجہ سے سخت ہوجا تا ہے۔ انھوں نے صاف ستھری قمیص پہن رکھی تھیں۔ ان کے چہرے ان کی شب بیداری کے شاہد تھے ۔میں نے انھیں سلام کہا۔
کہنے لگے: مرحبا، ابن عباس! کیسے آ ناہوا؟
ابن عبا سؓ: میں تمہا رے پاس انصار ومہا جرین اور رسول اللہﷺ کے داماد علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کی طرف سے نما ئندہ بن کر آ یا ہوں۔ سنو! ان کی مو جو د گی میں قر آن مجید نازل ہوا،اوروہ اس کی تفسیر وتاویل کا تم سے زیا دہ علم رکھتے ہیں۔
ان میں ایک گروہ کہنے لگا: قریش سے جھگڑا نہ کرو۔ اللہ تعالی تو فرما چکا ہے:
بل ھم قو م خصمون{۵۸}[الزخرف]
’’بلکہ یہ لوگ ہیں ہی جھگڑا لو‘‘{۵۸}[الزخرف]

ان میں دو تین آ دمی کہنے لگے: ہم ان سے بات کر لیتے ہیں ۔
ابن عباس ؓ:تمہیں نبی کریم ﷺ کے داماد پر اور مہا جرین وانصا رپرجواعترا ضات ہیں لاؤ پیش کرو۔ ان لو گوں پر قرآ ن نا زل ہوا، تم میں کو ئی بھی ایسا نہیں جو ان سے بڑھ کر قر آ ن کاعالم ہو۔
خوا رج: ہمیں ان پر تین اعتراضات ہیں۔
ابن عباسؓ: بیان کرو۔
خو ارج: پہلا اعترا ض یہ ہے کہ انھوں نے اللہ کےحکم کے مقا بلے میں انسانوں کو منصف بنایا ہے ۔حالا ں کہ اللہ تعالی کا فرما ن کتا ب اللہ میں مو جود ہے کہ
ان الحکم الا لِلّٰہ{۵۷}[الانعام]
"حکم اللہ کے سوا کسی کا نہیں چلتا۔‘‘{۵۷}الانعام

اب اللہ کے اس فرما ن کے بعد انسانوں کو کیا حق پہونچتا ہے کہ وہ کسی کو حَکَم بنائیں؟۔۔۔۔

(دوسرا اور تیسرا،اعترا ض مو ضوع سے متعلق نہیں ہے اس لیے انھیں تر ک کیا جاتا ہے ۔)

۔۔۔ابن عباسؓ : جہاں تک تمہارا یہ کہنا کہ انھوں نے اللہ کی شریعت کے معا ملے میں انسا نوں کو حَکَم بنا یا۔ تو میں اللہ کی کتاب سے کچھ آ یا ت تلا وت کرتا ہوں جو تمہا ری با ت کی تر دید کریں گی۔ اگر ایسا ہواتو کیا تم اپنے موقف سے دست بردار ہو جاؤ گے؟
خو ارج: جی ہاں با لکل!
ابن عباسؓ: اللہ تعالی نے ایک خرگوش کے معا ملے میں جس کی قیمت ایک درہم سے زیادہ نہیں ہوتی، اپنے حکم سے فیصلہ تحویل کر کے انسانوں کے سپرد کردیا، میں نے یہ آ یت تلاوت کی۔

یا یھا الذین امنوا لا تقتلوا الصید وانتم حرم ج ومن قتلہ منکم متعمدا فجزاء مثل ما قتل من النعم یحکم بہ ذوا عدل منکم:{۹۵ }[الما ئدہ]

"اے ایما ن والو! جب تم اِحرام کی حا لت میں ہو تو کسی شکا ر کو قتل نہ کیا کرو۔ اور اگر تم میں سے کوئی اسے جان بوجھ کر قتل کر دے تو اس کا بدلہ دینا واجب ہو گا(جس کا طریقہ یہ ہو گا کہ) جو جا نور اس نے قتل کیا ہے، اس جا نور کے برابر چو پا یوں میں سے کسی جا نور کو جس کا فیصلہ تم میں سے دو دیا نت دار اور تجربہ کا ر آ دمی کریں گے، ۔۔ ‘‘{۹۵}[الما ئدہ]

مرد اور عورت کے معاملے میں فر مان با ری ہے ۔

وان خفتم شقاق بینھما فا بعثوا حکما من اھلہ و حکما من اھلھا{۳۵}[النساء]
‘’اورا گر تمہیں میاں بیوی کے درمیان پھوٹ پڑ نے کا اندیشہ ہو تو(ان کے درمیان فیصلہ کرا نے کے لیے) ایک منصف مرد کے خا ندان میں سے اورا یک منصف عورت کے خا ندان میں سے بھیج دو۔‘‘ {۳۵}[النساء]
میں تمہیں اللہ کی قسم دے کر پوچھتا ہوں کہ کیا آ دمیوں کی تحکیم ایک خر گوش کے قتل اور عورت کے معا ملہ میں افضل ہے ؟یا مسلمانوں کے با ہمی معاملا ت کی درستی اور خوں ریزی روکنے کے لیے افضل ہے ؟
خوا رج: بلکہ یہی افضل ہے ۔
ابن عباسؓ: یہ بات ختم ہو گئی؟
خوا رج: جی ہاں !۔۔

(دوسرے اور تیسرے،اعترا ضات کی طرح یہاں ان کے جوا با ت بھی مو ضو ع سے متعلق نہ ہو نے کی وجہ سے ترک کر دئے گئے ۔)

۔۔۔۔حضر ابن عباسؓ کے دلا ئل سے لاجواب ہو کر دو ہزارخا رجی تائب ہو گئے اور با قی سب لڑنے کے لیے نکلے مگر سب کے سب قتل کر دیے گئے۔
(المصنف لعبد الرزاق۱۰/۱۵۷، المستدرک للحا کم۲/۱۵۰)

تا ئب نہ ہو نے والے خوارج نے ایک جگہ ڈیرا جما لیا اور جو بھی مسلمان ان کے قریب سے گزرتااُسے پکڑ کر قتل کر دیتے۔ ان کی دست درازی اس حد تک بڑھی کہ انھوں نے جلیل القدر صحا بی حضرت عبد اللہ بن خباب بن ارت رضی اللہ عنہ کو بھی قتل کردیا اور ان کی اہلیہ محترمہ کا پیٹ پھا ڑ دیا۔(المصنف لعبد الرزاق۱۰/۱۵۷، المستدرک للحا کم۲/۱۵۰)

کتبہ: مفتی محمد اشرف قاسمی خادم الافتاء شہرمہد پور
ضلع اجین ایم پی
[email protected]

Comments are closed.