کرفیو پاس کے بنا چیک پوسٹوں کے درمیان بھٹکتی زندگی…..!

تحریر: نذیر مسعودی
ترجمانی : نازش ہماقاسمی
جب مجھ سے پوچھا جاتا ہے، کشمیر میں کیا حالت ہے ، میں کہنا چاہتا ہوں ’’درد کو رکنے دیں، تبھی جواب دے پائوں گا‘‘۔ مجھے اب بھی چین نہیں ملا؛ تاکہ میں اس کے بارے میں لکھ سکوں، بات کرسکوں، حالات پر ابھی تک یقین نہیں ہوا ہے، نہ ایک کشمیری کے طو رپر ، نہ رپورٹر کے طور پر، یہ کوئی روزمرہ کی خبر نہیں ہے، یہ میری اپنی کہانی ہے‘‘۔
ہمیں ہوکیاگیا ہے؟ ایک علاقہ جو تشدد کی چپیٹ میں رہا، یہاں کے لوگوں، جن کا بڑا حصہ قانون اور آئین کے ساتھ رہے ہیں، اور دہشت گرد و علاحدگی پسندوں سے لڑے ہیں، کو مجبور کردیاگیا ہے۔ دو ملکوں کی تھیوری کو خارج کرنے اور ہندوستانی وفاق سے جڑنے کے فیصلے کے تحت لوگوں کو آئینی گارنٹیاں دی گئی تھیں ، وہ اب ختم کردی گئی ہیں ۔ ہندوستان اور پاکستان کے خود مختار ریاست بننے سے پہلے سے بھی خود مختار ریاست کے طور پر موجودہ کشمیر اب خود مختار ریاست نہیں رہا ۔ وہ اب ایک مرکز کے تحت ریاست ہے۔ راتوں رات اس نے اپنا جھنڈا، آئین اور تعزیری کوڈ، رنبیر پینل کوڈ (آر پی سی) کھودیا ہے۔
مجھے نہیں پتہ ریاست کے شہری ہونے کے شناختی کارڈ کا اب کیا کروں؟ جو مجھے ریاست کا شہری بتاتا ہے، جموں اور کشمیر کے مہاراجہ کے ذریعہ ۱۹۲۹ میں پیش کیاگیا یہ شناختی کارڈ بے حد تھکا دینے والا کام تھا؛ لیکن یہ ریاست کے شہریوں کےلیے پاسپورٹ کی طرح تھا، اب یہ شناختی کارڈ ردی کے کاغذکے ٹکرے کی طرح ہے۔
رپورٹر کے طو رپر میں بے دخل کیاگیا محسوس کررہا ہوں، میرا ٹیلی فون بند ہے، میرا لینڈ لائن بند ہے، میرا موبائل، انٹرنیٹ بند ہے، میں اپنی ماں سے بھی بات نہیں کرسکتا، گزشتہ چار دنوں سے میں اپنی ماں سے نہ مل پایا ہوں، نہ ان سے بات کرپایا ہوں؛ کیوں کہ پابندیاں آن لائن بھی ہیں اور لوگوں کی آمدورفت پر بھی۔
میں نے افسران سے کرفیو پاس دینے کی درخواست بھی کی ہے اب تک تو ملا نہیں ہے۔
سرکاری طور سے یہاں کوئی کرفیو نہیں ہے، صرف دفعہ ۱۴۴ نافذ لاگو ہے، جس کے تحت چار یا چار سے زیادہ لوگوں کے اکٹھا ہونے پر پابندی ہوتی ہے؛ لیکن زمینی حقیقت یہی ہے کہ سخت کرفیو لاگو ہے، کوئی بھی کھلے عام کہیں نہیں آجاسکتا ہے ، بریکیڈ لگے ہیں، اور بے رحم نظر آنے والے سیکوریٹی فورس پوچھتے ہیں ’کرفیو پاس کہاں ہے‘ یا کہتے ہیں ’اجازت نہیں ہے‘
انتظامیہ دلی سے آئے چنندہ لوگوں کو پاس دیتا رہا ہے، او رمیرے جیسے مقامی رپورٹر کوشش کررہے ہیں، پر چیک پوسٹ پر مجھے سیکوریٹی فورس سے درخواست کرنی پڑتی ہے کہ آگے جاکر معلومات اکٹھا کرلینے دیں؛ کیونکہ فون پر تو میں کچھ بھی حاصل نہیں کرسکتا۔
کل میں آنکھوں کی روشنی سے محروم ایک شخص سے ملا، جو کسی کی مدد سے سڑک پار کررہا تھا، میں نے ان سے پوچھا کہ وہ کہاں جارہے ہیں، تو انہوں نے بتایاکہ وہ مسجد سے گھر لوٹ رہے ہیں، جب ان سے پوچھا کہ کیا آپ جانتے ہیں کہ آپ کے آس پاس کیا ہورہا ہے، تو انہو ں نے کہاکہ ’میں سب جانتا ہوں‘ اگر وہ کہہ رہے ہیں کہ آرٹیکل ۳۷۰ اور خصوصی درجہ ختم ہوجانے اور مرکز کے تحت ریاست بنادئیے جانے سے کشمیری بہت خوش ہیں تو ان سے کہو کہ کرفیو ہٹا دیں‘‘۔
انہوں نے آگےکہا ’’میں تشدد کا پرچار نہیں کررہا ہوں، نہ ایسا کبھی کرنے والا ہوں، لوگ پرامن طور پر اس کا جواب دیں گے؛ لیکن چپ نہیں بیٹھیں گے‘‘۔
وہ ان فوجیوں کو نہیں دیکھ سکتے ہیں جو ریاست کے چپے چپے پر تعینات ہیں؛ لیکن وہ ہوا میں تنائو محسوس کررہے ہیں، اور انہیں غصہ بھی آرہا ہے۔ میرے حساب سے کشمیر کے لوگوں سے کشمیر بنا ہے، لوگوں کی خواہش کسی بھی حکم سے زیادہ اہم ہے۔
گزشتہ تین دن میں نے مریضوں کو پریشان ہوتے دیکھا ہے، ایمرجنسی ہیلپ لائن ۱۰۰ کام نہیں کررہا ہے، عام طور پر میڈیکل ایمرجنسی کےلیے درجنوں کال آتی ہیں؛ لیکن گزشتہ تین دنوں میں ایک بھی کال نہیں آئی ہے؛ کیوں کہ مواصلات کے تمام طریقے بند ہیں، ان مریضوں کے بارے میں سوچئے، جو جان لیوا ثابت ہوسکنے والی میڈیکل ایمرجنسی کا سامنا کررہے ہوں گے۔
مواصلات سروس اتوار کو بند ہوجانے کے بعد سے فائرسروس کے پاس بھی کال آنی بند ہوگئی ہے۔ جب میں عام آدمی کی خبر دیتا ہوں، ان میں وہ لوگ بھی ہوتے ہیں، جو الگ شناخت کی بات کرتے ہیں، الگ ریاست کی بات کرتے ہیں، آزادی کی بات کرتے ہیں، علاحدگی تحریک کو حمایت دینے والے بھی ہوتے ہیں؛ لیکن کچھ تھا، جو انہیں تھامتا تھا، وہ آرٹیکل ۳۷۰ تھا، جموں اور کشمیر کی آئینی حیثیت تھی، سماج کے بڑے حصے نے اس آئینی حیثیت کو قبول کرلیا تھا، یہ حصہ آئین پر بھروسہ کرتھا تھا، قانون پر یقین رکھتا تھا، سسٹم پر یقین کرتا تھا، میں سماج کے اس حصے کاحصہ تھا آج مجھے لگ رہا دھوکہ ہوا ہے۔
جب میں صبح گھر سے نکلتا ہوں، میرے بچے سورہے ہوتے ہیں، مجھے نہیں پتہ وہ دن بھر کیا کرتے ہیں؛ کیونکہ جب میں لوٹتا ہوں وہ پھر سوچکے ہوتے ہیں، اسکول نہیں جاسکتے، میں نہیں جانتا اس کا ان پر کتنا گہرا اثر ہوگا۔
میں بے بسی محسوس کررہا ہوں۔۔
(نذیر مسعودی سری نگر میں این ڈی ٹی وی کے بیوروچیف ہیں)
Comments are closed.