شاہ ملت کے ہمراہ لاتور میں دو دن!( قسط 1 )

(سفر نامہ)
✍️خادم شاہ ملت بندہ محمّد فرقان عفی عنہ
(ڈائریکٹر مرکز تحفظ اسلام ہند)
رہائش گاہ سے ریلوے اسٹیشن تک:
چودھویں صدی کے چالیسویں سال کے آخری مہینے کی ابتدائی ایام تھے اور ذی الحجہ کی پانچویں تاریخ تھی، شمسی تاریخ کے مطابق 2019ء کے ماہ اگست کی ساتھویں تاریخ اور دوشنبہ کی شام تھی۔ سورج اپنے آب و تاب کے ساتھ غروب کے قریب تھا۔ جس کی وجہ سے آسمان دنیا ایک خوبصورت منظر دکھا رہی تھی۔ ہمارے وقت کی گھڑی میں شام 5:45 بج رہے تھے۔ راقم الحروف (محمد فرقان) اور ہمارے رفیق محترم جناب حفظ اللہ صاحب نے سفر کی دعا پڑھتے ہوئے منہاج نگر، بنگلور میں واقع راقم کی قیام گاہ سے لاتور کیلئے رختِ سفر باندھا۔ تھوڑی دیر بعد ہم بنشنکری میٹرو اسٹیشن پہنچے، جہاں سے یشونت پور ریلوے اسٹیشن کیلئے بذریعہ میٹرو ہم دونوں روانہ ہوئے۔ تقریباً شام 7:00 بجے ہم یشونت پور پہنچ گئے۔ اور تھوڑی ہی دیر بعد ہمارے مشفق و مربی، شیر کرناٹک، شاہ ملت حضرت مولانا سید انظر شاہ صاحب قاسمی دامت برکاتہم اپنے فرزند ارجمند مولانا سید فرقان شاہ سیفی دام اقبالہ کے ہمراہ ہیگڑے نگر، بنگلور میں واقع اپنی رہائش گاہ سے ریلوے اسٹیشن پہنچے۔ ان دونوں حضرات نے راستے میں واقع جامع مسجد، یشونت پور میں نماز مغرب ادا کر لی تھی۔ چونکہ کہ مغرب کا وقت ختم ہونے کے قریب تھا راقم اور بھائی حفظ اللہ نے حضرت شاہ ملت مدظلہ سے ملاقات کے فوراً بعد انکی اجازت سے ریلوے اسٹیشن پر نماز مغرب ادا کی۔ ہماری ریل رات 8:50 پر روانہ ہونے والی تھی تو ہم تمام نے عشائیہ ریلوے اسٹیشن پر ہی ادا کی اور ریل میں بیٹھ گئے۔ ٹھیک رات 8:50 کو ٹرین نمبر 11312 یشونت پور- شولاپور ایکسپریس نے اپنے مسافروں کو ساتھ لئے سفر کا آغاز کیا۔
پروگرام کا پس منظر:
حضرت شاہ ملت مدظلہ کے ہمراہ راقم الحروف کا ٹرین کا یہ پہلا سفر تھا، اس سے پہلے جتنے سفر ہوئے یا تو وہ کار کے ذریعہ ہوتے یہ ہم بذریعہ ٹرین پہنچتے اور حضرت جہاز سے پہنچتے۔ الغرض حضرت شاہ ملت کے ہمراہ راقم کے ریل کا یہ پہلا سفر تھا جسکو عملی جامہ پہنانے میں لاتور کے علماء و عوام کا درحقیقت اصل کردار رہا۔ داراصل یہ سفر حضرت شاہ ملت مدظلہ کے ایک محب حافظ عبد الرحیم لاتور کی دختر نیک اختر کے نکاح خوانی میں شرکت کیلئے تھا اور حضرت شاہ ملت ہی کو نکاح پڑھانا تھا۔ جس کی دعوت تقریباً پندرہ دن پہلے لاتور سے تعلق رکھنے والے مہاراشٹرا کے مشہور و معروف اور بزرگ عالم دین حضرت مولانا محمد اسماعیل صاحب قاسمی نقشبندی دامت برکاتہم، انکے فرزند ارجمند محترم بھائی اسلام الحق صاحب، جناب حمایت صاحب اور خود حافظ عبد الرحیم صاحب نے حضرت شاہ ملت کی قیام گاہ پہنچ کر دیا تھا۔ چونکہ بنگلور سے لاتور کیلئے بہت کم ٹرین ہیں اسلئے شولاپور ہوتے ہوئے لاتور پہنچنا طے ہوا۔
حضرت شاہ ملت کے نصائح:
ہم شولاپور کی ٹرین میں بیٹھ چکے تھے اور نماز عشاء اسٹیشن پر ہی ادا ہوچکی تھی، رات کے کھانے سے فراغت کے بعد حضرت والا سے موجودہ حالات کے سلسلے میں گفتگو شروع ہوئی اور کافی کچھ معلومات حاصل ہوئیں۔ جن میں خصوصی طور پر مذکورہ ارشادات قابل ذکر ہیں؛
(1) موجودہ دور میں مسلمانوں کو مسلکی اختلافات کو بالائے طاق رکھ کر اتحاد کا دامن تھامنا چاہئے۔
(2) ظالم کتنا ہی بڑا کیوں نہ ہو لیکن اللہ تبارک و تعالیٰ کے سامنے اسکی حیثیت ایک لنگڑے مچھر کے برابر بھی نہیں۔
(3) مسلمانوں کو قطعاً احساس کمتری اور بزدلی کا شکار نہیں ہونا چاہئے۔
(4) آج مسلمانوں کے ساتھ جو حالات پیش آرہے ہیں وہ ہماری کمزوریوں اور کوتاہیوں کا نتیجہ ہے۔
(5) عنقریب باطل پر حق غالب آئے گا اور کفر پر اسلام غالب آئے گا۔
رات کا سناٹا اور خوشگوار صبح:
گفتگو کے تھوڑی دیر بعد نیند کا غلبہ ہونے لگا تو حضرت والا نے آرام کرنے کا ارادہ کیا اور اس کو عملی جامہ پہنایا۔ دیر رات کافی اسٹیشن گزرے جس میں خصوصاً رائچور(کرناٹک)، اننت پور( آندھراپردیش) وغیرہ قابل ذکر ہیں جہاں راقم نے ریل سے اتر کے اشٹیشن کا جائزہ لیا اور دوبارہ نیند کے آغوش میں چلا گیا۔ رات 04:30 بجے اچانک میری آنکھ کھلی تو میں نے دیکھا کہ حضرت والا تہجد کی نماز سے فارغ ہوکر نیچے کی سیٹھ پر بیٹھے اپنے اذکار میں مشغول تھے، میں فوراً نیچے اترا اور وضو اور دیگر ضروریات سے فارغ ہوکر دیگر رفقاء سفر کو حضرت کے حکم پر نیند سے بیدار کیا۔ تمام نے ریل ہی میں نماز فجر ادا کی۔ نماز فجر کے بعد حضرت والا پھر سے ذکر اور دیگر معلومات میں مشغول ہوگئے۔ تقریباً صبح 6:30 گلبرگہ (شمالی کرناٹک) کا اسٹیشن آیا جہاں ریل کے مسافروں میں سے تقریباً پونے مسافرین اتر گئے جس کی وجہ سے ٹرین خالی لگ رہا تھی۔ الغرض نماز فجر کے بعد ہماری آنکھوں نے خوبصورت مناظر کا مشاہدہ کیا۔ صبح صادق کا پرنور اجالا کرہ ارض پر پھیل چکا تھا۔ کائنات کا ہر ذرہ اللہ رب العزت کی حمد و ثناء میں مشغول تھا۔ چڑیوں کی خوشگوار چہچہاہٹ رب کائنات کی وحدانیت کا ثبوت دے رہی تھی۔ چہار سو ایک سکون چھایا ہوا تھا۔ وسیع آسمان، مشرق سے نمودار روشنی کی بانہوں میں بانہیں ڈالے جیسے سرشاری کے عالم کو مزید خوبصورت بنا رہا تھا اور زمین پر بادصباکے تازہ جھونکھوں سے محظوظ ہوتا ہوا تازگی بخش فضاء کو برقرار رکھے بہت پر امن اور مخمور نظر آرہا تھا۔ سورج کی مسکراتی کرنیں شعائیں پھیلائے گنگنا رہی تھیں۔ کھلا آسمان سورج کی سنہری کرنوں سے منور نظر آرہا تھا۔ نیند سے جاگنے والی ہر نظر کو جیسے دلی سکون بخش رہا تھا۔ جسے مشاہدہ کرتے ہوئے راقم الحروف کے دل و دماغ کے دروازے پر بارہا یہ آیت قرآنی درستک دے رہی تھی۔ "فَبِاَیِّ اٰلَاءِ رَبِِّکُمَاتُکَذِّبٰن” ترجمہ: اور تم اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاؤ گے؟ الغرض نماز اشراق کی ادائیگی کے بعد حضرت والا اور دیگر ساتھیوں نے آرام کرنے کو ترجیح دی۔ تھوڑی دیر مزید صبح کی فضاؤں کا لطف اٹھانے اور سورج کے طلوع ہونے کا حسین منظر دیکھنے کے بعد راقم پر بھی نیند کا غلبہ پڑنے لگا۔ جس کے بعد ہم بھی دیگر رفقاء سفر کی طرح نیند کے آغوش میں چلے گئے۔
شولاپور سے لاتور تک:
ٹھیک صبح 8:10 کو شولاپور اسٹیشن آگیا۔ اس سے آدھا گھنٹہ پہلے ہم تمام بیدار ہوچکے تھے اور تیاری مکمل ہوگئی تھی۔ شولاپور اسٹیشن پر ہمارے استقبال کیلئے پہلے ہی سے حضرت مولانا اسماعیل صاحب قاسمی نقشبندی مدظلہ کے فرزند ارجمند بھائی محمد اسلام الحق، جناب حمایت صاحب اور جناب امجد صاحب کار لیے موجود تھے۔ حضرت پر نظر پڑتے ہی ان حضرات نے حضرت شاہ ملت کا والہانہ انداز میں استقبال کیا اور تمام کار میں سوار ہوگئے۔ ناشتہ کی گزارش پر حضرت نے معذرت چاہی اور چائے پینے کی خواہش کی۔ تھوڑی دیر بعد ایک جگہ چائے کیلئے کار رکائی گئی۔ مہاراشٹرا اور بنگلور کی چائے میں بہت فرق ہے، ذائقہ میں مہاراشٹرا کی چائے کا کوئی جواب نہیں۔ بھائی اسلام الحق سے جب معلوم کیا گیا تو انہوں نے بتایا کہ یہاں بھینس کے دودھ کی چائے بنتی ہے جس کی وجہ سے اس کا ذائقہ کافی بڑھ جاتا ہے۔ کسی نے صحیح ہی کہا ہے کہ "بھینس گائے کی ماں ہوتی ہے!” الغرض ہم تقریباً دو ڈھائی گھنٹے کار کے سفر کے بعد صبح 10:30 بجے کے قریب سرزمین لاتور پہنچ گئے۔ جہاں پیر طریقت حضرت مولانا محمد اسماعیل صاحب قاسمی نقشبندی مدظلہ نے اپنے رفقاء کے ہمراہ شاہ ملت حضرت مولانا سید انظر شاہ صاحب قاسمی مدظلہ اور دیگر مہمانوں کا پرتپاک استقبال کیا۔
(اگلی قسط میں پڑھیں: شہر لاتور اور شیخ طریقت مولانا اسماعیل قاسمی نقشبندی کا مختصر تعارف نیز ان کا حضرت شاہ ملت کے ساتھ عقیدت و محبت کا عالم)
Comments are closed.